وزیراعظم کے بدعنوانی نہ ہونے‘ ترقی و خوشحالی اور معمولی لوڈشیڈنگ کے دعوے----- حکمران مایوس عوام کو حقائق سے آگاہ کریں
وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ ملک ترقی کی جانب گامزن ہے شاہراہیں ‘ موٹر ویز‘ بجلی بنانے کے کارخانے لگ رہے ہیں یہ سب کام بجٹ کے دستیاب وسائل سے کر رہے ہیں کیونکہ حکومت دیانتداری سے کام کر رہی ہے‘ کوئی بدعنوانی نہیں ہو رہی۔ وزیراعظم نے ان خیالات کا اظہار زیرو پوائنٹ اسلام آباد تا روات سگنل فری سڑک کے منصوبے کا سنگ بنیاد اور افتتاحی تختی کی نقاب کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے ملک بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں جولائی میں جون کی سطح پر برقرار رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس کیلئے اڑھائی ارب روپے کی سبسڈی دیگی۔انہوں نے کہا کہ تیل کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں بڑھی ہیں، پٹرول کی قیمت اوگرا نے کہا 4 روپے 26 پیسے فی لٹر بڑھا دیں مگر میں نے اس کو مسترد کر دیا ہے ۔ بجلی کے بحران پر قابو پا لیں گے بجلی کے بند ہو جانے پر احتجاج نہیں صبر و تحمل سے کام لیا جائے۔ ہماری کوشش ہے بجلی 2017ء تک دستیاب ہو جائے تب بجلی کے نرخ بھی کم ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی جھوٹ بول کر عوام سے ووٹ نہیں مانگے۔ ہمیشہ عوام کو حقائق سے آگاہ کیا۔ اگر بجلی کا سسٹم تھوڑا اوپر نیچے ہو تو پریشان نہ ہوں، میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ بجلی کا مسئلہ چھ ماہ میں حل کردونگا۔اپنے دور حکومت میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا کہا تھا ۔ بجلی کی معمولی بندش پر لوگوں کو احتجاج کیلئے سڑکوں پر نہیں آنا چاہئے یہ اچھی بات نہیں ہے۔
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونیوالی حکومت کو عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی و خوشحالی کیلئے بہت کچھ کرنا ہوتا ہے۔ یہ ہر حکومت کا اولین فرض اور ذمہ داری ہے۔ میاں محمد نوازشریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے اوپر 2013ء کے انتخابات میں کئے گئے عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کررہی ہے۔ شاہراہوں کے جال بچھائے جارہے ہیں‘ موٹروے بنائے جا رہے ہیں‘ میٹروز چل رہی ہیں‘ وزیر خزانہ اسحاق ڈار قوم کو مبارکباد دیتے ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار 18‘ ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ مگر عوام حکومت کی کارکردگی سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف کو عوام کی مایوسی کا کسی حد تک ادراک ہے جس کا اندازہ انکے اسلام آباد میں سگنل فری منصوبے کے موقع پر خطاب سے بھی ہوتا ہے۔
اس حکومت کو دہشت گردی اور بجلی کابحران ورثے میں ملا‘ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے حکومت نے مذاکرات کا لائحہ عمل طے کیا۔ مذاکرات بے سود رہے تو ضرب عضب اپریشن شروع کیا جس میں خاطرخواہ کامیابی حاصل ہورہی ہے۔ بجلی کا بحران جہاں تھا وہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کو انتخابی مہم میں ایشو بنایا۔ میاں نوازشریف جلسوں میں عوام سے ہاتھ اٹھوا کر پوچھتے کہ لوڈشیڈنگ سے نجات چاہتے ہو! ظاہر ہے جواب ہاں کے سوا کیا ہو سکتا تھا۔ میاں صاحب نے اپنی زبان سے کبھی نہیں کہا کہ چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کر دینگے۔ یہ بھی نہیں کہا تھا کہ اس مرض سے اپنی مدت کے آخری سال میں نجات دلائیں گے۔ 2013ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کا صفایا ہونے میں لوڈشیڈنگ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اس دور میں کرپشن بھی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی۔ مگر عام آدمی لوڈشیڈنگ سے شدید متاثر تھا۔ مسلم لیگ (ن) 2008ء کے الیکشن میں دوسری بڑی پارٹی تھی۔ 2013ء میں یہ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ عوام نے پیپلزپارٹی کو مسترد کیا تو اسکے سامنے مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی دو آپشن تھے‘ ن لیگ کو ترجیح پنجاب میں شہبازشریف کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی کو دیکھ کر دی۔ شہباز شریف اپنی مائیک توڑ تقاریر میں پہلے چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کرتے تھے‘ پھر خود سے مدت بڑھا کر ایک سال اور آخر میں دو سال کر دی۔ شہباز شریف پیپلزپارٹی کی قیادت کی کرپشن کو لیکر جس طرح برستے رہے‘ وہ عوام کے حافظے سے محو نہیں ہوا۔ شہباز شریف نے قومی اسمبلی کی نشست پر بھی کامیابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے بجلی کی قلت دور کرنے کیلئے وزیر پانی و بجلی بننے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ وزارت علیہ کے امیدوار تگڑے تھے‘ شاید پارٹی کو انتشار اور افتراق سے بچانے کیلئے شہبازشریف نے پھر سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا سہرا سجا دیا گیا۔ خواجہ آصف بھی گزشتہ دنوں کہہ رہے تھے کہ انکے قائد نے تو چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ نہیں کیا تھا‘ اب نوازشریف خود ایسا ہی فرما رہے ہیں جبکہ شہباز شریف کی طرف سے خاموشی ہے۔ کیا یہ شہبازشریف کی سبکی نہیں ہے؟ مرکزی قیادت کو کیا یہ احساس نہیں کہ شہبازشریف کی آئندہ انتخابی مہم میں وعدوں پر کون اعتبار کریگا؟
وزیراعظم کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے بے نیازی ملاحظہ کیجئے‘ فرماتے ہیں بجلی کی معمولی بندش پر لوگوں کو سڑکوں پر نہیں آنا چاہیے۔ معمولی لوڈشیڈنگ ہو تو عوام برداشت کرلیں‘ 16 سے 18 گھنٹے ہونے پر گرمی کے اس موسم میں اعصاب جواب دے جاتے ہیں تو عوام ’’تنگ آمد‘‘ کے مصداق احتجاج کرتے ہیں۔ کراچی میں 15 سو سے زائد انسان گرمی کی شدت سے دم توڑ گئے۔ اموات میں گرمی کی شدت کے ساتھ ساتھ لوڈشیڈنگ نے بھی اضافہ کیا اور پھر عوام کو لوڈشیڈنگ کیخلاف احتجاج کی ترغیب بھی مسلم لیگ (ن) ہی نے دی ہوئی ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں لوگ پنجاب میں پاور ہائوسز کو آگ لگا رہے تھے‘ اس وقت میاں نوازشریف اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر قائدین نے عوام کو صبر کی تلقین نہیں کی۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وزیراعلیٰ شہبازشریف غیرمنصفانہ لوڈشیڈنگ کیخلاف مینار پاکستان پر ٹینٹ میں دفتر لگا کر بیٹھ گئے تھے۔ اب سی این جی کے معاملے میں خود پنجاب سے مرکزی حکومت امتیازی سلوک کررہی ہے۔
میاں نوازشریف کہتے ہیں کہ حکومت دیانتداری سے کام کررہی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ کوئی بدعنوانی نہیں ہو رہی۔ پیپلزپارٹی پر بدترین کرپشن کے الزام میاں نوازشریف بھی لگاتے رہے ہیں اور کرپشن کی ایک ایک پائی وصول کرنے کے انکے دعوے بھی ریکارڈ پر ہیں‘ وزیراعلیٰ شہبازشریف تو کرپٹ لوگوں کے پیٹ پھاڑنے‘ ان کو گھسیٹنے اور لٹکانے کی باتیں بھی کرتے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کو بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار ملا مگر پی پی پی کے لیڈروں کا احتساب تو ایک طرف رہا‘ اپنے دور میں بھی کرپشن جاری رہی۔ ایک کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے فاضل جج مسٹر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ ملک میں ہر طرف بدعنوانی کا واویلا ہے‘ مگر نیب خاموش ہے۔ آخر کرپشن کے اس سلسلے کو کس طرح روکا جائیگا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہنا ہے کہ عوام کو کرپشن کا صحیح اندازہ ہو تو حکمرانوں کو ایک روز برداشت نہ کریں۔
وزیراعظم صاحب حکومت کے دیانتداری سے کام کرنے اور اپنی سچائی کے دعویدار ہیں‘ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ حکومت دیانتداری سے کام کرے اور سیاسی اکابرین سچ بولیں اور حقائق عوام کے سامنے رکھیں۔ وزیراعظم نے کریڈٹ لیا کہ اوگرا نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت چار روپے 26 پیسے بڑھا دی مگر میں نے یہ اضافہ مسترد کر دیا۔ جس کے باعث حکومت کو اڑھائی ارب روپے کی سبسڈی دینا پڑیگی۔ میاں صاحب کہتے ہیں کہ تیل کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں بڑھ رہی ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کا طریقہ وہی ہے جو پاکستان میں ہے۔ وہاں گزشتہ روز یہ کہہ کر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف کے بھارتی سیاسی قیادت سے اچھے تعلقات ہیں‘ وہ ان سے پوچھ کر اسی مارکیٹ سے تیل خریدیں جس میں قیمتیں کم ہوئی ہیں۔
جدید دور میں عوام سے حقائق مخفی نہیں رہ سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کرپشن پر قابو پا سکی نہ لوڈشیڈنگ میں کمی لا سکی۔ پٹرول کی قیمتوں میں کمی ہو سکتی تھی‘ اضافہ کا ڈرامہ کرکے گزشتہ ماہ کی سطح پر برقرار رکھنے کا اعلان کرکے واہ واہ کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ عوام کو سبزباغ دکھا کر اور بیان بازی سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا‘ اگر عوامی مسائل کے حل کی راہ میں رکاوٹیں ہیں تو عوام کو اعتماد میں لیں‘ انکے سامنے حقائق رکھیں ‘ بار بار دعوے اور وعدے کرکے حکومت اپنی ساکھ خراب نہ کرے۔