وزارت دفاع نے پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ میں ترمیم کرکے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کی بجائے اس ایکٹ کے تحت سپیشل کورٹس بنانے کا مطالبہ کر دیا۔ وزارت دفاع نے وفاقی حکومت کو اپنی تجاویز میں کہا کہ ان سپیشل کورٹس کے جج عدلیہ سے ہی لئے جائیں یا جج بننے کے اہل افراد کو ہی ان سپیشل کورٹس میں جج تعینات کیا جائے لیکن اس وقت انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتیں جو انسداد ہشت گردی ایکٹ کے تحت بنائی گئی ہیں انکے پاس کام کا لوڈ بہت زیادہ ہے اسلئے علیحدہ عدالتیں بنانے سے دہشت گردی کے کیس یکسوئی کے ساتھ عدالتیں سن سکیں گی جبکہ باقی جوڈیشل پراسیس کو ایکٹ کے تحت ہی رکھا جائے۔
اس وقت پنجاب میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں پانچ سو سے زیادہ، سندھ میں 395، کے پی کے میں 326 جبکہ بلوچستان میں 262 کیس زیر سماعت ہیں جبکہ پنجاب میں پروٹیکیشن آف پاکستان قانون کے تحت اب تک 29، سندھ میں 25، خیبر پی کے میں 34 اور بلوچستان میں 12 کیس رجسٹرڈ ہو چکے ہیں جن کی تعداد میں آئندہ ایک دو ماہ میں تیزی سے اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار دیکھتے ہوئے تحفظ پاکستان بل کے تحت درج ہونیوالے مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہو سکتی ہے جبکہ دہشت گردی اور تحفظ پاکستان بل کے تحت درج مقدمات یکساں طور پر جلد نمٹائے جانے کے متقاضی ہیں۔ اس کیلئے عدالتوں کے ایک خصوصی سلسلے کی ضرورت نہیں۔ اس پر پیسے اور وقت کا ضیاع ہو گا۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے ججوں کی تعداد میں اضافہ کرکے یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ وزارت دفاع نے یہ تجویز دی ہے کہ جج بننے کے اہل افراد ہی کو مجوزہ سپیشل کورٹس میں تعینات کیا جائے۔ ایسی تقرریوں سے قبل انٹرویو کے دوران یقینی بنایا جائے کہ یہ افراد بااثر اور خطرناک مجرموں سے خوفزدہ ہونگے‘ بلیک میل ہونگے اور نہ ہی لالچ میں آئینگے اگر روایتی لوگوں ہی کو بھرتی کرنا ہے تو اس سے بہتر ہو گا کہ ججوں کو نقاب اوڑھا کر سماعت کیلئے بھی دیا جائے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024