پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی ایمرجنسی میں بیڈز کی کمی کی وجہ سے غریب دل کے مریض ویل چیئر اور سٹریچر پر علاج کروانے پر مجبور ہو گئے جبکہ غریب مریضوں کی انجیو گرافی اور بائی پاس آپریشن کیلئے ڈیڑھ سے دو سال تک کا کمپیوٹرائزڈ وقت دیا جانے لگا ہے۔
شفاخانے پرانے ہی ہیںجبکہ ناقص اشیاء خورد و نوش، آلودگی اور دو نمبر ادویات کے باعث امراض میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ پونے دو کروڑ لاہور کی آبادی میں دل کا صرف ایک ہسپتال ہے جبکہ لاہور سے ملحقہ اضلاع کے تمام مریض اسی ایک ہی ہسپتال میں ہی آتے ہیں۔ سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات، منڈی بہائو الدین، فیصل آباد، سرگودہا، ساہیوال، قصور اور شیخوپورہ اضلاع کے مریض بھی اس واحد دل کے ہسپتال میں آتے ہیں، باقی سرکاری ہسپتالوں میں بھی دل کے وارڈ ہیں لیکن وہ اس قدر چھوٹے اور ناکافی سہولیات رکھتے ہیں کہ مریض وہاں کا رخ ہی نہیں کرتے۔ شہباز شریف حکومت نے پنجاب کارڈیالوجی کو توسیع دی‘ نہ ہی د یگر اضلاع میں کوئی دل کا ہسپتال بنایا۔ چوہدری پرویز الٰہی دور میں وزیر آباد میں دل کا ہسپتال بنایا گیا تھا لیکن چھوٹے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے تعصب کی بنیاد پر اس ہسپتال کو نہیں چلایا۔ پنجاب کارڈیالوجی میں مریض زیادہ ہونے کے باعث سہولیات کم پڑ گئی ہیں جبکہ جگہ، عملے اور دیگر سہولیات کی کمی کے باعث مریضوں کو انجیو گرافی اور بائی پاس کیلئے 2 سال کا ٹائم دیا جانے لگا ہے۔ مرض کی شدت کے باعث مریض دو سال تو دور 2مہینے نہیں گزار سکتا۔ خادم پنجاب بیماری کی تکلیف سے بخوبی آگاہ ہیں، محکمہ صحت کا قلمدان بھی انکے پاس ہے وہ وزیر آباد کارڈیالوجی ہسپتال کا نام شریف کارڈیالوجی رکھ کر اسے چلائیں اور دیگر اضلاع میں بھی دل کے ہسپتال بنائیں یہ ان کاقوم پر احسان ہو گا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024