پیرس میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا آغاز‘ نواز‘ مودی ملاقات اور دنیا کو تباہی سے بچانے کی سوچ بچار
وزیراعظم محمد نوازشریف نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کی ترقی میں کسی کو رکاوٹ نہیں بننے دینگے۔ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں شرکت کیلئے پیرس پہنچنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے گزشتہ روز اس امر کا اظہار کیا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے ترقی یافتہ ممالک کی زیادہ ذمہ داریاں ہیں‘ ہم اس سلسلہ میں دنیا سے مل کر کام کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہو چکا ہے‘ ان تبدیلیوں سے کئی طرح کی آفات نمودار ہوتی ہیں جن سے نمٹنے کیلئے مستقل لائحۂ عمل تیار کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کاربن گیسز کا اتنا اخراج پاکستان میں نہیں ہوتا جتنا دوسرے ممالک میں ہو رہا ہے اس لئے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ کی ذمہ داریاں پاکستان سے زیادہ دوسرے ممالک پر عائد ہوتی ہیں جبکہ آلودگی کے خاتمہ کی عالمی کاوشوں میں پاکستان اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے۔ اس عالمی کانفرنس میں جس کا پیر کے روز پیرس میں باقاعدہ آغاز ہوا۔ امریکی صدر اوباما‘ روسی صدر ولادی میر پیوٹن‘ چینی صدر ژی چن پنگ اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون سمیت 147 ممالک کے سربراہان حکومت و مملکت شریک ہیں جبکہ کانفرنس کے میزبان فرانسیسی صدر عالمی قائدین سے ملاقاتوں کے دوران پیرس دھماکوں کے حوالے سے دہشت گردی کے خاتمہ کے ممکنہ مشترکہ لائحۂ عمل کے بارے میں بھی بات کررہے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم پاکستان سے اس معاملہ میں دولت مشترکہ کانفرنس کے موقع پر بھی بات کی جس پر وزیراعظم نے عالمی اتحاد کا ساتھ دینے کا عندیہ دیا۔ وزیراعظم پیرس کانفرنس کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی سے بھی ملاقات کررہے ہیں اور سفارتی ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں دہشت گردی کے خاتمہ کے اقدامات کے حوالے سے دونوں ممالک کے مابین پیدا ہونیوالی غلط فہمیوں پر بھی بات کی جائیگی۔
کرۂ ارض پر گزشتہ چند سالوں سے جس سرعت کے ساتھ موسمی تغیروتبدل رونما ہو رہا ہے اور بالخصوص موسم سرما کا دورانیہ کم ہو رہا ہے اور گرمی کی حدت بڑھ رہی ہے اسکے بارے میں ماہرین ارض و فلکیات کے علاوہ طبی اور طبیعاتی ماہرین بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے انسانی صحت‘ نشوونما اور سوچ پر مرتب ہونیوالے ممکنہ منفی اور مثبت اثرات کے بارے میں تحقیق کررہے ہیں اور بعض ماہرین کی یہ رپورٹیں بھی سامنے آچکی ہیں کہ موسم سرما کا دورانیہ کم ہونے سے انسانی ذہن پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور ان میں ڈپریشن کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ قنوطیت کا شکار ہو کر زندگی سے بیزاری والا چلن اختیار کرلیتے ہیں جس میں تخریبی سوچ کے غالب آنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ نظام قدرت تو بہرصورت خالقِ ارض و سماوی رب کائنات کے دستِ قدرت میں ہی ہے جبکہ نظام کائنات میں تغیروتبدل کے کتاب ہدایت قرآن مجید میں بھی واضح اشارے دیئے گئے ہیں اور اس تغیروتبدل کا پس منظر بھی کتابِ ہدایت میں ذاتِ باری تعالیٰ نے کھول کھول کر بیان کر دیا ہے اس لئے اس تغیروتبدل کو روکنا انسانی ذہن رسا کے بس میں نہیں تاہم اس تغیروتبدل کے نتیجہ میں ہونیوالے نقصانات کم کرنے کی تدبیریں ضرور کی جا سکتی ہیں۔ بالخصوص انسانی رویوں اور سوچ کو ممکنہ منفی اثرات سے بچانے کا چارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت کرۂ ارض پر جس طرح زلزلوں کا وقفہ کم ہورہا ہے اور شدت بڑھ رہی ہے وہ بھی رب کائنات کے نظام قدرت ہی کا ثبوت ہے کہ انسانی ذہن رساکے جدید سے جدید تر ٹیکنالوجی تک پہنچنے کے باوجود اس میں زلزلوں کو روکنا تو کجا‘ انکی آمد کے متعینہ وقت اور شدت کو جانچنے کا بھی یارا نہیں اور اسی سے ربِ کائنات کی حقانیت تسلیم ہوتی ہے۔ اس حوالے سے کارخانۂ قدرت کی کیا حکمت ہے‘ اسکے باوصف عالمی قیادتوں اور متعلقہ اداروں کو موسمیاتی تغیروتبدل سے انسانی ذہن کے منفی اثرات سے بچائو کیلئے ضرور کوئی مربوط لائحہ عمل طے کرنا ہوگا ورنہ ان منفی اثرات سے جنگ و جدل کا سامان پیدا ہوگا تو انسانوں کے اپنے ہاتھوں سے کائنات کی تباہی کا اہتمام بھی ہو جائیگا۔
ماہرین ارضیات و موسمیات کے مطابق موسمی تغیروتبدل سے فصلوں کی پیداوار کم اور خشک سالی بڑھ سکتی ہے جبکہ زمین کے نیچے پانی کی سطح بھی زیادہ گہرائی کی جانب جا سکتی ہے۔ گزشتہ روز یواین سیکرٹری جنرل بانکی مون نے موسمیاتی تبدیلی کے مسئلہ پر قابو پانے کی اپیل کرتے ہوئے کسی تحقیقاتی رپورٹ کی بنیاد پر اس امر کا اظہار کیا ہے کہ طویل عرصہ تک موسم کی طرز میں تبدیلی کو دہشت گردی سے جوڑا جا سکتا ہے۔ انکے تجزیئے کے مطابق اگر ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے معاملہ کو مناسب طریقے سے حل نہ کر سکے تو مایوس اور متاثر ہونیوالے نوجوان غیرملکی دہشت گردوں کی صف میں شامل ہو سکتے ہیں۔ دو ہفتے قبل کے پیرس حملوں کے بعد عالمی موسمیاتی کانفرنس کے پیرس میں انعقاد کے حوالے سے عالمی قیادتوں کی بھی یہی رائے ہو سکتی ہے کہ باہمی تبادلۂ خیال سے دہشت گردی کے خاتمہ کی کوئی ٹھوس تدبیر اختیار کرلیں۔ اس تناظر میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس یقیناً اہمیت کی حامل ہے اس لئے عالمی قائدین کو اس پلیٹ فارم پر محض رسمی جذبات و خیالات کا اظہار نہیں کرنا چاہیے بلکہ موسمیاتی تغیروتبدل کے نتیجہ میں کرۂ ارض کو لاحق ہونیوالے خطرات کا ادراک کرکے ان سے نجات کا لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ بلاشبہ پاکستان ہی دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جبکہ موسمی تغیروتبدل سے ممکنہ خشک سالی کے زیادہ خطرات بھی پاکستان کو ہی لاحق ہیں جس کا اسکے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ کشمیر اور پانی کا دیرنہ تنازعہ چل رہا ہے۔ بھارت تو درحقیقت پاکستان کی سالمیت ختم کرنے کے درپے ہے اور انتہاء پسندی مودی سرکار کے دور میں یہ بھارتی عزائم شدت کے ساتھ ابھرتے ہوئے نظر آرہے ہیں اس لئے وزیراعظم نوازشریف کو پیرس کانفرنس میں پاکستان کے موقف میں بھارتی سازشوں کو فوکس کرنا چاہیے اور باور کرانا چاہیے کہ پاکستان کیخلاف جاری ان بھارتی سازشوں سے علاقائی اور عالمی تباہی کی بھی نوبت آسکتی ہے اس لئے بھارتی بدمستیوں کو روکنا ازحد ضروری ہے۔ اسی طرح پیرس دھماکوں کے بعد دہشت گردی کے حوالے سے بین الریاستی اور بین المملکتی تعلقات میں بھی بگاڑ پیدا ہوتا نظر آرہا ہے‘ حلیفوں اور اتحادیوں میں بھی غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں اور بالخصوص ترکی کی جانب سے روسی لڑاکا طیارہ گرائے جانے کے بعد دونوں ممالک کے علاوہ روس اور امریکہ میں بھی کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ اس تناظر میں عالمی قیادتوں کا سر جوڑ کر بیٹھنا اور توسیع پسندانہ مقاصد کے حامل ممالک کے فیصلوں‘ رویوں اور اقدامات سے علاقائی و عالمی امن کو لاحق ہونیوالے خطرات کی باعمل حکمت عملی طے کرنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ پیرس کانفرنس کے موقع پر گزشتہ روز ایک خوشگوار پیش رفت وزیراعظم نوازشریف اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اچانک اور غیررسمی ملاقات کے حوالے سے بھی سامنے آئی ہے کہ اس کانفرنس کی وجہ سے ہی ایک دوسرے سے متحارب ان ممالک کے وزراء اعظم کو باہم بیٹھ کر اپنے مسائل کے حل کیلئے سوچ بچار کرنے کا موقع ملا۔ اسی طرح وزیراعظم نوازشریف کی افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات بھی متوقع ہے جس سے یقیناً دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے ان دونوں ممالک میں پیدا ہونیوالی غلط فہمیوں کے ازالہ کی بھی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔
اگر عالمی ماحولیاتی کانفرنس موسمی تغیروتبدل کے حوالے سے جنگ و جدل کی گرم ہوتی فضا کو ٹالنے کیلئے کسی مشترکہ لائحۂ عمل پر عالمی قیادتوں کو قائل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے اور مذہبی انتہاء پسندی کے آگے بند باندھنے کی گائیڈ لائن بھی اس کانفرنس کے ذریعے طے ہو جاتی ہے تو یہ جنونی انسانوں کے ہاتھوں اس کرۂ ارض کو تباہی سے بچانے کی کامیاب کوشش ٹھہرے گی۔ میاں نوازشریف کو اس کانفرنس میں دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے کردار اور قربانیوں اور اسکی سلامتی کو بھارت کے ہاتھوں لاحق خطرات سے عالمی قائدین کو بہرصورت آگاہ کرنا چاہیے تاکہ علاقائی اور عالمی امن کو بچانے کی عالمی حکمت عملی میں پاکستان کے حوالے سے کوئی پہلو نظر انداز نہ ہو سکے۔ میاں نوازشریف اگر یہ ٹھوس ثبوت لے کر اس عالمی فورم پر گئے ہیں کہ کاربن گیسز کا پاکستان سے زیادہ دوسرے ممالک میں اخراج ہو رہا ہے جس کے ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں تو انہیں عالمی قیادتوں کو اس پر قائل کرکے بھی آنا چاہیے تاکہ انتہاء پسندی اور دہشت گردی سمیت ہر برائی کی تان پاکستان پر توڑنے کی روش کا رخ موڑا جا سکے۔ مودی سے غیررسمی ملاقات کے دوران انکی کیا بات ہوئی‘ کانفرنس سے واپسی پر انہیں اس بارے میں بھی قوم کی نمائندہ پارلیمنٹ کو ضرور اعتماد میں لینا چاہیے۔