’’صدر‘‘ زرداری کا بیان پڑھ کر مزا آ گیا۔ ’’ہماری ہتھکڑیاں اتر چکیں۔ اب لگ پتہ جائے گا۔ ہتھکڑی کے بغیر الیکشن لڑیں گے۔ ہم نکلیں گے تو لاہور بند ہو جائے گا۔ شفاف الیکشن کے لئے تمام جماعتوں سے رابطے کریں گے۔ پہلے ہمارے ہاتھ بندھے تھے۔ اب کھلے ہیں۔ پنجاب میں شکست نہیں کھائی۔ ’’آر اوز‘‘ الیکشن نے ہرایا۔ پیپلز پارٹی کبھی نہیں ہاری۔ بھٹو دے نعرے وجن گے تے پیٹو سارے بھجن گے۔ میں بلاول اور بیٹیاں میدان میں اتریں گے تو مخالفین کو سمجھ آ جائے گی کہ الیکشن کیا ہوتے ہیں۔ جب بی بی آتی تھی تو لاہور اٹھ کھڑا ہوتا تھا اب بھی اٹھ کھڑا ہو گا۔ ناقص پالیسیوں کا خمیازہ کسان اور تاجر بھگت رہے ہیں۔ بلاول کی جوانی اور میرا تجربہ جیت کا دروازہ کھولے گا۔ جب صدر بنا تو کچھ لوگ چاہتے تھے کہ وزیراعظم بنوں۔ پھر میں نے دو وزیراعظم بنائے۔ جنرل مشرف کو گھر بھیجنے کے لئے صدر بنا تھا۔‘‘
کسی سیاستدان کا بیان اس طرح کالم کا حصہ نہیں بنتا۔ اس بات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی عذر نہیں ہے کہ ایسا صدر شاید پھر نہیں آئے گا جس نے پارلیمانی نظام میں ایک ’’صدارتی‘‘ مثال قائم کی۔ جس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ میں ابھی ان کے اچھے صدر ہونے کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ اچھا صدر ہونا شاید ’’صدر‘‘ زرداری کا مقصد بھی نہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ میں بے مثال صدر بنوں اور وہ بن گئے۔ ابھی تک پارلیمانی جمہوریت میں یہ اکیلی مثال ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک میں کچھ ہوتا تو ہے نہیں۔ کسی حکمران نے کچھ نہیں کیا مگر زرداری صاحب نے منصب کے لئے ایک مثال تو قائم کی۔ میں صدر رفیق تارڑ کا بہت احترام کرتا ہوں۔ وہ نواز شریف کے ہٹائے جانے کے بعد بھی ایوان صدر میں موجود رہے۔ لوگوں نے باتیں بھی کیں۔ میں نے کلثوم نواز سے پوچھ لیا تو انہوں نے کہا کہ ابھی تارڑ صاحب نے کچھ کام کرنا ہے اور پھر جلاوطنی ہوئی اور سارا شریف خاندان بڑے آرام سے سعودی عرب شفٹ ہو گیا وہ سرور محل میں سرور لیتے رہے۔ جلاوطنی سے ہموطنی میں آئے تو حکمران بن گئے۔ اس میں ایک بڑا کردار صدر تارڑ کا بھی تھا۔ جو وفا و حیا کی ایک ضمانت ہے۔ ورنہ نواز شریف تو بھٹو والے انجام سے گھبرائے ہوئے تھے۔ جان بچانا بھی کسی مقابلے میں ضروری ہوتا ہے۔ یہ بات بھٹو نہ کر پائے تھے ورنہ وہ بھی تیسری بار وزیراعظم بنتے۔
’’صدر‘‘ زرداری کے ایک بہت زبردست سیاسی جرات مندانہ بیان سے مجھے کیا کچھ یاد آ گیا۔ کبھی کبھی شہباز شریف ایسی بات کر جاتے ہیں۔ اب تو عمران خان کے بیانات بھی روایتی سیاست میں لپٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ نجانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ الیکشن کا زمانہ سر پر آیا تو عمران خان شریف برادران کے لئے مشکلات پیدا کرے گا۔ مگر اب تو لگتا ہے کہ ’’صدر‘‘ زرداری بیٹے بلاول اور بیٹیوں آصفہ اور بختاور کے ساتھ کوئی وکھری ٹائپ کی مصیبت کھڑی کریں گے۔
ایک افواہ گردش میں لائی جا رہی ہے کہ پھر نواز شریف آئیں گے۔ مگر اس کے ساتھ یہ نعرہ بھی لگ رہا ہے
اگلی باری پھر زرداری
زرداری صاحب کے لئے نعرے بڑے مزیدار ہو جاتے ہیں ’’اک زرداری سب پر بھاری‘‘ کے جواب میں زرداری صاحب نے کہا۔ ’’اِک زرداری سب سے یاری‘‘ تو یہ بھی ثابت ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر عاصم کی ضمانت ہو گئی ہے۔ ایان علی باہر چلی گئی ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے ڈاکٹر عاصم سے کئی ملاقاتیں کی ہیں۔ یہ بھی اچھی بات ہے اور دوستانہ تاثر ہے۔
آج کل حسین حقانی کو نجانے کیوں اہمیت دی جا رہی ہے۔ فوجی ترجمان جنرل آصف غفور کو بھی بیان دینے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ جبکہ برادرم طلعت حسین نے کہا ہے کہ ترجمان فوج کا بیان حسین حقانی کی بجائے یوسف رضا گیلانی کی پریس کانفرنس کا جواب لگتا ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے جو بات حسین حقانی کے لئے کی ہے وہ حسین حقانی کے دوستوں کے لئے قابل غور ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کے زمانے میں اسے امریکہ میں سفیر بنایا گیا تھا مگر تب اس کی سفارت کاری میں کوئی ملک دشمن فنکاری نہ تھی۔ اب اسے معلوم ہے کہ کوئی اسے سفیر نہیں بنائے گا تو اس نے زبان درازی کی ہے۔ وہ کبھی نواز شریف کے میڈیا سیل میں تھا۔ پھر پیپلز پارٹی کی طرف آیا اور پھر امریکہ چلا گیا
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
پاکستان میں تیسری بار وزیراعظم بننے کی ایک مثال قائم ہوئی ہے۔ کیا صدر بننے کی مثال بھی قائم ہو گی۔ تیسری بار سے پہلے دوسری بار آتی ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024