جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے تجویز دی ہے کہ پاکستان اور ترکی ثالثی کا کرادر ادا کریں۔ کس قدر معصوم ہیں امیر جماعت کہ نہیں جانتے ثالث وہ ہوتا ہے جو غیر جانبدار ہو، ترکی ا ور پاکستان دونوںنے سعودی عرب کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا ہے، اب ثالث کسی اور کو بنانا پڑے گا۔ ادھر زرداری نے کہا ہے کہ وہ ایران ا ور سعودی عرب کے درمیان ثالث بننے کو تیار ہیں۔ زرداری صاحب بڑے بھولے ہیں، نہیںجانتے کہ یہ جھگڑا منی لانڈرنگ، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کا نہیں، حکومتی عہدوں کی بندر بانٹ کا بھی نہیں اور اس میں مک مکا نہیں چل سکتا، یہ شوق وہ نواز شریف کے ساتھ بصد شوق پورا کرتے رہیں۔ تو جھگڑا کیا ہے۔؟
ایشیا اور یورپ کو جو تنگ سی خلیج آپس میں ملاتی ہے، اسے خلیج عدن کہتے ہیں، سارا جھگڑا اس خلیج کے دہانے پر کنٹرول کا ہے۔ کیا سعودی عرب کو حق حاصل ہے کہ وہ یمن پر فوج کشی کر کے عدن کے دہانے کو خطرات سے محفوظ بنائے۔ اور اسے آزادانہ تجارت کے لئے کھلا رکھے۔
اس سوال کا جواب وہی ہے جو ہم صدیوں سے سنتے آئے ہیں کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ سعودی افواج نے بحرین میں مداخلت کر کے وہاں بغاوت کے شعلے ٹھنڈے کئے۔ دنیا نے اس مداخلت کو ہضم کر لیا۔ اب سعودی افواج نے یمن پر یلغار کی ہے، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا دنیا اس مداخلت کو بھی قبول کر پائے گی۔
ایک مداخلت عراقی مرد آہن صدام حسین نے کویت میں کی تھی اور جارحیت کے ذریعے اسے نگلنے کی کوشش کی تھی، پاکستان میں رائے عامہ اس جارحیت پر تقسیم ہوگئی تھی۔ ہماری سڑکوں پر عراقی جھنڈے لہرا رہے تھے اور جلوسوںکے جلوس صدام حسین کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ ہمارے آرمی چیف اسلم بیگ نے کہا تھا کہ عراق میں نئی کربلا برپا ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے کویت پر عراقی جارحیت کی مذمت کی اور عراق کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی، اور امریکی افواج نے چشم زدن میں کویت کو آزاد کروا دیا۔
ایک مداخلت اسرائیل نے فلسطین میں کی اور بار بار کی ، یہاں تک کہ اس نے سارا فلسطین ہڑپ کر لیا اور مسلمانوں کا قبلہ اول بھی اپنے چنگل میں لے لیا۔ اسرائیل نے اردن ، لبنان، شام اور مصر کے علاقوں پر بھی قبضہ جما لیا، اس کے خلاف اقوام متحدہ کی مذمتی قرار دادیں اول تو آئی نہیں اور اگر کوئی لنگڑی لولی قرارداد آئی بھی تو اسے کوڑے دان کی نذر کر دیا گیا۔
سوویت روس نے افغانستان میں فوجی مداخلت کی۔ ساری دنیا نے جہاد کا پھریرا لہرا دیا اور سویت روس کو شکست فاش سے ہی دوچار نہیںکیا بلکہ اسے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیا۔
بھارت نے روز اول فوجی جارحیت کے ذریعے حیدرآباد، جونا گڑھ، منادر اور کشمیر کو ہڑپ کر لیا۔ ان علاقوں پر آج تک اس کا قبضہ ہے، پاکستان نے دو ایک بار کشمیر کی واپسی کے لئے فوجی ایکشن کیا، پینسٹھ میں آپریشن جبرالٹر اور ننانوے میں آپریشن کارگل، دنیا نے اس کی مذمت بعد میں کی ، سب سے پہلے خود ہم نے اپنی فوجی جارحیت کی مذمت کی۔ 84ء میں بھارت نے چوروں کی طرح سیاچن پر قبضہ جما لیا۔ گیاری سانحے کے بعد نواز شریف نے کہا کہ ہمیں اپنی فوج وہاں سے واپس بلا لینی چاہئے، بھارتی آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان اپنی فوج نکال بھی لے، بھارتی فوج وہیں رہے گی۔ 71ء میں مشرقی پاکستان کا کوئی جھگڑا تھا تو یہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ تھا مگر بھارت نے اندھی طاقت استعمال کر کے پاکستان کو دو لخت کر دیا۔
میں فاک لینڈ اور بے آف پگز کی گتھیوں میں قارئین کو نہیں الجھانا چاہتا کہ یہ ہمارے حافظے میں رجسٹر ہی نہیں ہوئیں۔ مگر لوگوں کوا تنا تو یاد ہے کہ پرل ہاربر پر جاپانی خودکش بمبار حملے کا بدلہ لینے کے لئے امریکہ نے دو ایٹم بم جاپان پر دے مارے تھے، ہیروشیما اور ناگا ساکی میںلاکھوںلوگ ایٹمی جہنم کا ایندھن بن گئے۔ امریکہ کے خلاف نائن الیون ہوا، اس کا بدلہ لینے کے لئے امریکی اور نیٹو افواج نے افغانستان کو سُرمہ بنا ڈلا، پاکستان میں کشتوں کے پشتے لگ گئے، امریکہ نے عراق پر بھی چڑھائی کی، کیوں کی، اس کی کوئی وجہ نہیں مگراس نے عراق کو پیس ڈالا۔
اب سعودی عرب نے یمن میں فضائی حملے شروع کئے ہیں۔ عالمی قوانین کی رو سے یہ مداخلت تصور کی جائے گی لیکن اگر سعودی عرب کے پاس طاقت ہے، اس نے عالمی رائے عامہ کو اپنا ہم نوا بنانے میں بھی کامیابی حاصل کر لی تو وہ یمن کی قانونی حکومت کی بحالی میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب کو یمن میں عدم استحکام سے بجا طور پر خطرات لاحق ہیں، اس لئے کہ سعودی عرب کی ایک مخالف اقلیت نے وہاں بالا دستی حاصل کر لی ہے۔ پاکستان نے آج تک افغانستان کو اپنی سٹرٹیجک ڈیپتھ قرار دیا ہے، پاکستان نہیں چاہتا کہ ہمارے مفادات کے منافی کوئی طاقت، کابل کے تخت پر بیٹھے۔ اسی طرح سعودی عرب سوچتا ہے کہ اس کی سرحدیں محفوظ ہونی چاہئیں اور ان سرحدوں پر اس کی کوئی مخالف طاقت براجمان نہ ہو جائے۔ اس پس منظر میں کسی کو سعودی ایکشن پر معترض نہیں ہونا چاہئے، مگر کسی کی سوچ پر پہرے تو نہیں بٹھائے جا سکتے۔ اور اگر سعودی عرب کی فورسز حرکت میں آئیں اور کوئی دوسری طاقت اس کے سامنے کھڑی ہو گئی تو معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ اس بگاڑ کے لئے زمین ہموار ہو چکی ہے۔
ایران ایک عرصے سے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے کوشاں ہے جس پر امریکہ کو سخت اعتراض ہے اور یہ اعتراض اسرائیل کی محبت میں ہے۔ ایران بار بار کہہ چکا ہے کہ وہ ایٹم بم کو اسلامی جنگی اخلاقیات کے منافی تصور کرتا ہے مگر امریکہ نے اس کا پیچھا نہیںچھوڑا، اب اچانک امریکی رویئے میں تبدیلی آ گئی ہے اور ایران کے ساتھ ایٹمی تنازعہ ختم ہوتا نظر آتا ہے، یہ ایک خوش آئند اقدام ہے مگر ساتھ ہی ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ، اپنے روایتی حلیف سعودی عرب سے دوری اختیار کرتا جا رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین ایسی خلیج پیدا ہوئی کہ سعودی عرب نے احتجاج کے طور پر سلامتی کونسل کی رکنیت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ مگر یہی سعودی عرب ہمیں مصر، لیبیا، شام وغیرہ میں امریکہ کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔امریکہ اور سعودی عرب میں فاصلے حقیقی ہیں یا غیر حقیقی مگریمن کی صورت حال نے ایک بھنور پیدا کر دیا ہے۔
ایک زمانے میں دنیا نے نہر سویز کا شاخسانہ دیکھا تھا۔ مگر یمن کے پانیوں میں ابھرنے والا بھنور بڑا خطرناک ہے، اسلئے کہ مسئلہ خلیج عدن کا ہے جس کے سامنے گوادر کی بندر گاہ ہے۔ اس کی تعمیر میں چین نے برسہا برس صرف کئے ہیں اور اپنے کارکنوں کی جانوں کا نذرانہ دیا ہے۔ چین کا خواب ہے کہ وہ کاشغر سے گوادر تک ایک تجارتی کوریڈور تشکیل دے جو اسے ایک مختصر بحری راستے سے یورپ تک ملا سکے۔ اس راستے میں ہی عدن کی بندرگاہ واقع ہے۔ خلیج عدن کے اس جھگڑے میں سعودی عرب کو تنہا نہ سمجھا جائے۔ اس کی حلیف اور حریف طاقتیں بھی اس جھگڑے میں کودنے کے لئے پَر تول رہی ہیں۔ گوادر کی بندر گاہ کے ناطے کیا پاکستان اس جھگڑے سے آ نکھیں بند کر سکتا ہے۔ پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024