کل تک چرچا سپریم کورٹ کے فیصلے کا تھا۔ آج اس فیصلے پر آزاد کشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر کے متنازع دشمن بیان کا چرچا ہے۔ نواز شریف کی طرح وہ بھی وزیراعظم ہیں۔ اللہ ان کو ہدایت کرے۔ میرا خیال ہے کہ ان سے کوئی وضاحت ضرور طلب کی جائے گی۔ ایک سچے دل والے بے باک اینکرمین چودھری غلام حسین نے ان سب لوگوں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پچھلے کسی دور میں بھی ان کے ایسے ہی بیانات سامنے آئے تھے۔ اس کے باوجود نواز شریف نے انہیں آزاد کشمیر کا وزیراعظم بنوانے میں اپنی مخصوص سیاست کا سہارا لیا۔ آزاد کشمیر ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ مگر کشمیر کمیٹی کا چیئرمین ایسے شخص کو بنایا گیا جس کے والد محترم مولانا مفتی محمود نے برملا کہا تھا کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں ہیں۔ ان کو صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) کا وزیراعلیٰ بنانے کا گناہ کس نے کیا تھا۔ وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی تھے۔ ان کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن بھی اپوزیشن لیڈر بنے۔ اپوزیشن میں بھی انہوں نے اپنی وہ پوزیشن بنائی کہ سرکاری درباری حلقے حیران پریشان ہو گئے۔ وہ پہلے آدمی ہیں جو شاہد خاقان عباسی کو ملے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ یقیناً اگلے وزیراعظم ہیں۔ خدانخواستہ یہ ماحول بنایا جا رہا ہے کہ کئی محب الوطن لوگ خانہ جنگی کے خوف میں مبتلا ہو گئے ہیں؟
پاکستان کے کامیاب سابق صدر زرداری نے راجہ فاروق حیدر کے بیان کی مذمت کی ہے اور پوچھا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کا کیا تعلق پاکستان کی سلامتی سے ہے۔ برادرم قمرالزمان کائرہ نے بھی بے حد رنجیدگی کا اظہار کیا ہے اور کسی وضاحت کے بغیر غیرمشروط معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔
صدر محمد رفیق تارڑ کو بھی بات کرنا چاہیے۔ صدر ممنون حسین بھی اپنا ردعمل بڑی جرات سے بیان کریں گے۔ وہ کبھی ایسی بات کرتے ہیں کہ لطف آ جاتا ہے اور حوصلہ ملتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ان کا اشارہ نواز شریف کی طرف ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ جو پانامہ کیس ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے بہت بڑی پکڑ ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ کیسے کیسے لوگ زد میں آئیں گے۔ آپ میری یہ بات یاد رکھنے کا کوئی واقعہ دو ماہ کے بعد ہو گا کوئی چھ ماہ کے بعد اور کوئی ایک سال کے بعد ہو گا۔ اب چھ ماہ اورایک سال بعد کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے ارگرد کرپٹ اور بدبودار لوگ ہوں گے ان کے چہرے منحوس ہو جائیں گے۔ شکریہ میرے صدر پاکستان ممنون حسین۔
میں نے سمجھا تھا کہ ہمارے ملک میں کسی بڑے آدمی کسی امیر کبیر اور حکمران کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی سزا نہیں دی جا سکتی مگر ہماری عدلیہ نے سرشار کر دیا ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور اب نواز شریف کو نااہل کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ باتیں ہماری سیاسی زندگی کا معمول بن جائیں تو ہماری زندگی شرمندگی نہ بنے۔ جن لوگوں نے زندگی کو درندگی بنا دیا ہے ان کو نکال باہر کر دینا چاہیے۔
وزیراعلیٰ گلگت پاکستان اور وزیراعظم آزاد کشمیر نے کہا ہے کہ کسی جج میں جرات ہے تو جنرل مشرف کو کٹہرے میں لائیں۔ میری گذارش ہے کہ چار سال سے زیادہ نواز شریف بھی ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت بھی توڑی تھی۔ وہ کیوں جرات نہ کر سکے۔ جنرل مشرف کو سزا دینے کی خواہش اور کوشش کے باوجود رسوائی کی حد تک ناکام ہوئے۔
میں بہت دفعہ اس سوچ کے تلاطم میں غوطے کھاتا رہا کہ یہ مسلم لیگ ن کیا ہے۔ مسلم لیگ ق تو خیر قائداعظم سے منسوب ہے۔ اب مسلم لیگ ن کا نام مسلم لیگ ش رکھ دیا جائے۔ میں اس بات کی وضاحت پھر کبھی کروں گا۔ یہ بات بھی میں نے پچھلے کالم میں لکھی تھی کہ شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی کی بہت عزت کرتے ہیں۔
انسانی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں دیکھا گیا کہ دو بھائیوں نے مل کر حکومت کی ہو۔ ہمارے بڑے پرہیز گار مغل حکمران اورنگ زیب نے اپنے تین بھائیوں کو قتل کیا پھر تخت نشین ہوا۔ وہ ایسا نہ کرتا تو اس کا کوئی بھائی یہ کر دیتا۔ ایک مثال ہمارے چودھری برادران کی بھی ہے۔ یہ دونوں برادریاں مل کر بھی حکومت کرتی رہی ہیں مگر کسی کے ساتھ شراکت اقتدار مشکل سے قبول ہوتی ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اس پر بھی بات پھر کبھی سہی۔
چودھری نثار کے لیے میرے کالموں کے لیے ایک اختلافی بات پاکستان بھارت سرحد پر ایک قصبے چونڈہ کی رہنے والی دانشور اور دردمند پاکستانی شاعرہ شکیلہ قریشی نے کی ہے۔ یہ بھی کالم کے موضوع سے مختلف بات ہے مگر اس کے لیے بھی بات ہو گی۔
پی ٹی وی اور کسی دوسرے ٹی وی چینلز پر یہ بات ہو رہی تھی؟ برادرم عارف حمید بھٹی نے کہا کہ نواز شریف کے سابق وزیراعظم ہونے کے باوجود ان کی ساری گفتگو براہ راست دکھائی گئی۔ اس کے پیچھے سازش کیا ہے۔ ان سب لوگوں کو گرفتار کیا جائے جنہوں نے توہین عدالت کی ہے۔ کسی سیاق و سباق کے بغیر یہ جملہ لکھنے کی جرات کر رہا ہوں۔ اس میں چھپے طنز بھرے رمز کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ آزاد کشمیر نہ آزاد ہے نہ کشمیر۔