30 اگست کو قومی اخبارات میں بنک دولت پاکستان ( سٹیٹ بنک آف پاکستان) کے حوالے سے خبر شائع ہُوئی ’’ پاکستان کے بیرونی قرضے تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ کر 74 کھرب ڈالرز ہوگئے ہیں‘‘۔ اِس مختصر خبر پر ہمارے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار اور دوسرے حکومتی ارکان نے تبصرہ کرنے کا حق محفوظ رکھا اور حزب اختلاف کے قائدین کے پاس بھی وقت نہیں تھا کہ وہ اپنی ’’ گو نا گوں مصروفیات‘‘ کو ترک کر کے مقروض ملک کے مفلوک اُلحال عوام کو راہنمائی کرتے کہ اُن کا پیارا پاکستان 74 کھرب ڈالر کا مقروض ہو کر تاریخ کی بلند ترین سطح پر کیسے پہنچ گیا؟ اور یہ کہ ’’اگر یہ بلند ترین سطح ہے تو پست ترین سطح کیا ہوتی ہے؟۔ مولانا الطاف حسین حالی نے اپنی تصنیف مدّسِ حالی میں مسلمانوں کی بد حالی پر ماتم کرتے ہُوئے کہا تھا …
پستی کا کوئی، حد سے گُزرنا دیکھے!
اسلام کا ، گِر کر ، نہ اُبھرنا دیکھے!
مصورِ پاکستان علاّمہ اقبالؒ اور بانیٔ پاکستان قائداعظمؒ ’’ اگر آج حیات ہوتے تو اپنے پاکستان کی معاشی پستی اور حکمرانوں اور اُن کے اتحادیوں کی ذہنی پستی کے بارے میں کیا کہتے؟ علاّمہ اقبالؒ نے تو اپنے تصّورِ پاکستان کے بارے میں پہلے ہی اپنے منشور کا اعلان کرتے ہُوئے کہہ دِیا تھا کہ …
جس کھیت سے ، دہقاں کو ، میسّر نہ ہو روزی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو!
لیکن اِس طرح کے کھیتوں کے ہر خوشۂ گندم کو جلانے کے لئے اور ’’کانا دجّال ‘‘ کا نافذ کردہ سِسٹم ختم کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ ؑ آسمانوں سے کب اُتریں گے؟ اور حضرت امام مہدیؓ کا ظہور کب ہوگا؟ ’’عُلمائے حق کہلانے والے اور عُلمائے سُو‘‘ کب تک خاموش رہیں گے ؟ 29 اگست کی شام سے الیکٹرانک میڈیا پر وزیراعظم اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میاں نواز شریف کی اُس تقریر دِل پذیر کے چرچے ہو رہے ہیں جو اُنہوں نے اسلام آباد میں عوامی جمہوریہ چین کے سفیر "Excellency Sun Weidong" کی موجودگی میں ’’سی پیک نمائش اور کانفرنس میں کی اور بڑے وثوق سے قوم کو یقین دلایا کہ ’’ China Is Protector of Pakistan`s Identity"( یعنی چین ، پاکستان کے تشخص کا محافظ ہے‘‘ فارسی زبان کے ایک شاعر نے شاید اللہ تعالیٰ ( یا اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر ) کہا تھا کہ …
’’ سُپر دم بتو مایۂ خویش را
تو دانی، حسابِ کم و بیش را‘‘
یعنی مَیں نے اپنے سازو سامان ( جمع پونجی) کو تمہارے سپرد کردِیا ہے اب تو ہی میرے خسارے اور نفع کا ذمہ دار ہے ۔ تصّوف میں اِس طرح کی سپُردگی کو ’’ فنا فِی الشیخ‘‘ کی منزل کہتے ہیں جب کوئی مُرید ہر وقت اپنے پِیر و مُرشد کے دھیان میں ڈوبا رہتا ہے لیکن دوستی تو برابر کی سطح کے لوگوں اور ملکوں میں ہوتی ہے۔ کمزور اور طاقتور اِنسانوں اور ملکوں میں نہیں ۔ پیغمبرِ اِنقلابؐ نے مسلمانوں کو ہدایت کی تھی ’’ عِلم حاصل کرو، خواہ تمہیں چِین ہی کیوں نہ جانا پڑے!‘‘۔ چِین اور اُس دور کے عرب میں فاصلہ بہت تھا لیکن چِین میں کاغذ ایجاد ہو چکا تھا اور وہاں لکڑی کے "Blocks" سے کتابوں کی چھپائی شروع ہو چکی تھی اور یقیناً آنحضرت کو اِس کا ادراک بھی ہوگا۔
قائدِ انقلاب مائوزے تنگ کی قیادت میں عوامی جمہوریہ چِین ، قیام پاکستان کے دو سال بعد 1949ء میں ظہور پذیر ہُوا ۔ قائدِاعظمؒ نے اِسلامیان ہِند کے ووٹ کی طاقت سے اِنقلاب برپا کِیا اور14 اگست 1947ء کو پاکستان کا تشخص بھی قائم کردِیا تھا لیکن اُنہیں اپنا انقلاب مکمل کرنے کی مہلت نہیں ملی ۔ وہ 11 ستمبر1948ء کو اِس دارِ فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف سفر کر گئے ۔ مائوزے تنگ 1976ء تک حیات رہے ۔ وہ سوشلزم، کمیونزم یا مائواِزم سے چِین کے عوام کی قیادت کرتے ہُوئے اُنہیں خوشحالی کی منزل تک لے گئے ۔ قائدِاعظمؒ نے اپنی جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا ۔ مائوزے تنگ کو بھی مال و دولت جمع کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا اُن کا انتقال ہُوا تو اُنہوں نے ترکے میں 6 جوڑے کپڑے (Uniforms) ایک لائبریری اور بنک میں چند ڈالر ز چھوڑے۔
مائوزے تنگ کے بعد عوامی جمہوریہ چِین کے حکمرانوں نے اپنے اپنے انداز میں اور نئے دور کے تقاضوں کے مطابق ملک اور قوم کو ترقی سے ہمکنار کِیا اور عوامی جمہوریہ چِین سُپرپاور بن گیا لیکن پاکستانی حکمران/ سیاستدان تو پاکستان کو دولخت کرا بیٹھے پاکستان سے دوستی عوامی جمہوریہ چِین کی جغرافیائی مجبوری تھی/ ہے اور بھارت کی پاکستان سے دشمنی کی پالیسی نے پاکستان کو چِین کے قریب کردِیا ۔ پاکستان کے حکمرانوں / سیاستدانوں نے فیشن کے طور پر چِین سے دوستی کا لبادہ اوڑھ لِیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے خود کو پاک چِین دوستی کا معمار ظاہر کِیا وہ اپنے سرپرمائو کیپ سجا کر، بند گلے کا چینی کوٹ اور پتلون پہن کر اور مائو کے انداز میں عوامی جلسوں میں اپنے دونوں ہاتھ بلند کر کے تالیاں بجاتے اور بھوکے ننگے اور بے گھر عوام کو اُن کے حق میں اِنقلاب کا نعرہ بلند کرتے تو اُنہوں نے بھٹو صاحب کو اپنا مسیحا سمجھ لِیا لیکن بھٹو صاحب اور اُن کے جانشینوں کی نِیتوں میں فرق تھا/ ہے۔ وہ غریبوں کے حق میں انقلاب لانا ہی نہیں چاہتے تھے اور نہ ہی وہ لوگ جو سوشلزم ، کمیونزم ، مائو اِزم اور بھٹو اِزم کے پیروکار نہیں تھے/ ہیں۔
کرپٹ حکمران / سیاستدان پاکستان کا کوئی بھی تشخص قائم نہیں کر سکے ۔ پاکستان ایٹمی طاقت تو بن گیا لیکن یہاں کے 60 فی صد مفلوک اُلحال عوام روٹی ، کپڑا اور مکان سے اب بھی محروم ہے۔ بھارت ہمارا دشمن ہے لیکن ہمارے حکمران / سیاستدان اُس سے تجارت اور دوستی کی بھیک مانگتے ہیں۔ قوم دو طبقوں میں تقسیم ہے ایک طبقہ جو قومی دولت لُوٹ کر ملک سے باہر لے گیا ہے اور اُس کی اولاد نے وہاں اپنی جائیدادیں بنا لی ہیں۔ اُس نے اپنی اولاد کوبھی سیاست پر مسلط کردِیا ہے ۔ جب اُس کا اور اُس کے خاندانوںکا کوئی تشخص نہیں تو پاکستان کا تشخص کیا ہوگا ؟۔ علاّمہ اقبالؒ نے ہر مسلمان کو اپنا تشخص قائم کرنے کا درس دیتے ہُوئے کہا تھا کہ …
خودی کو کر بلند اِتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے؟
جب کاتبِ تقدیر ( اللہ تعالیٰ) نے خودی سے سر شار اپنے ہر بندے کو اُس کی مرضی کے مطابق اُس کی تقدیر لِکھنے کا وعدہ کر لِیا تھا تو کیا کسی کمزور قوم کا لیڈر اپنا اور اپنی قوم کا بوجھ کسی طاقتور دوست قوم کے کندھوں پر ڈال کر اعلان کرسکتا ہے کہ ’’ہمارے دوست نے ہمارے تشخص کی حفاظت کا ذمہ لے لِیا ہے ؟ ‘‘۔
عوامی جمہوریہ چِین سے ہم علوم و فنون سِیکھ سکتے ہیں لیکن دیانتداری کا سبق تو ہمیں اپنے اسلاف سے سِیکھنا ہوگا اور اپنے کردار کو بھی اُن کے کردار کے مطابق ڈھالنا ہوگا ۔ صِرف خلیفہ راشد اوّل حضرت ابو بکر صدیقؓ کی مثال پیش خدمت ہے۔ جو مدینہ کے عام مزدور کی آمدن کے برابر تنخواہ لیتے تھے اور اُنہوں نے وصیت کی تھی کہ ’’ مَیں نے اپنے دَورِ خلافت میں بیت اُلمال سے جو 6 ہزار درہم بطور تنخواہ وصول کئے ہیں وہ میری جائیداد فروخت کر کے بیت اُلمال میں جمع کرادئیے جائیں‘‘
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024