عمران خاں نے ایک ا ور دھرنے کا اعلان کر دیا ہے، یہ چار اکتوبر کو ہوگا ۔مگر حکومت نے کہا ہے کہ وہ دھرنے میں رکاوٹ ڈالے گی۔
میرے خیال میں حکومت کو کہنا چاہئے تھا کہ دھرنا ضرور دو مگر ورکنگ باﺅنڈری پر، بھارتی توپوں کے دہانے کے سامنے۔
یاپھردہشت گردوںکے آخری ٹھکانے شوال میں۔ عمران ان لوگوں کو غیرت مند کہتا تھا۔ ان کے خلاف ڈرون حملوں پر احتجاج کرنے کے لئے جلوس نکالتا تھا، ان سے مذاکرات کے ذریعے قیام امن کی توقع کرتا تھا۔اس پس منظر میں شوال کا دھرنا دہشت گردوں کو رام کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔
عمران نے دھرنا نہ دینے کے لئے ایک شرط عائد کی ہے کہ الیکشن کمیشن کے ارکان استعفی دیں، اس کے خیال میں ان کی نا اہلی ثابت ہو چکی ہے۔جس طرح کی یہ نااہلی سامنے آئی ہے، اگر ہر حلقے کے تھیلے کھولے جائیں تو یہی بے ضابطگیاں ہر حلقے میں ملیں گی، اس کے لئے خورد بین کی ضرورت نہیں پڑے گی، پاکستان میں الیکشن اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ حالیہ الیکشن آسمانوں سے اتر کر فرشتوںنے نہیں کرایا۔ امریکہ میںمشینوں کے ذریعے ووٹنگ ہوتی ہے مگر ایک دھاندلی وہاں بھی سامنے ا ٓ گئی اوراس میں پاک صاف ہونے کے لئے جیتے ہوئے امیدوار ایل گور کو عدالت کا سہارا لینا پڑا۔ پاکستان میں حالیہ الیکشن کو ہر کسی نے دھاندلی زدہ کہا، عمرا ن نے کہا ، اس کے مد مقابل مولانا فضل الرحمن نے کہا، نواز شریف نے کہا،اس کے مقابلے میں پییلز پارٹی کے خورشید شاہ نے کہا، بلوچستان کی ہر جماعت کے لیڈر نے کہا، ایک الیکشن جس میں جیتنے والے ا ور ہارنے والے دونوں فریق کہہ رہے ہوں کہ یہ دھاندلی زدہ ہے، اس میں چند حلقے کھل جائیں تو نتیجہ وہی نکلے گا،جو بلیم گیم کے ذریعے سامنے آیا تھا، اس کے لئے قوم کو چاہئے کہ وہ باقی کام چھوڑ دے اور جب بھی الیکشن ہوں توسارے حلقوں کے تھیلے کھول لے، سبھی جیتنے والے دھاندلی زدہ پائے جائیں گے اور ایک بار پھر الیکشن یا ضمنی الیکشن، اس نسل کی عمر تو اسی کھیل تماشے میں گزر جائے گی، الیکشن دھاندلی کیا ہوتی ہے، صرف پولنگ کے روز نہیں، الیکشن کے ایک ایک مرحلے پر، عمران نے جیتنے والے امید وار اکٹھے کر لئے ہیں ،ا ن کے پاس روپوں کی بوریاں ہیں، ہوائی جہاز ہیں ، گدیاں ہیں، مزارعوں کے لشکر ہیں، ڈی جے بٹ کی دھنیں ہیں۔ رات کو ناچنے والوں کاہجوم ہے، یہ سب کچھ الیکشن دھاندلی کاحصہ ہے۔ دھاندلی تب ختم ہو گی جب روپے پیسے، اثرو رسوخ کے بغیر صرف ا ور صرف قابلیت، اہلیت اور دیانت کی بنا پر ووٹ ملیں گے یعنی آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کی پیروی اور عملداری ہو گی۔ گر یہ نہیں تو بابا، باقی کہانیاں ہیں، باقی تو پھر سیاست ہے،رقابت ہے، میںنہ مانوں ہے، نہ کھیلیں گے، نہ کھیلنے دیں گے ، ہے۔ادھر ہم ، ادھر تم ہے۔ جو اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہو گا، اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، ہے، جھرلو ہے، انجنیئرڈ ہے، کمپیوٹرائزڈ ہے۔ ایجنسیوں کا بکھیڑا ہے۔
دھرنا دے کے تو دیکھ لیا، اس کا مقصد نظام کی اصلاح ہوتی تو اس کے لئے پارلیمانی کمیٹی بن گئی تھی، اس میںکتنی دلچسپی لی، کیوں لیتے جب مقصد ہی یہ تھا کہ حکومت کا بستر بوریا گول کرنا ہے اور اس کے ساتھ جمہوریت کو بھی بلا ٹکٹ بحیرہ عرب میں دھکا دینا ہے۔اور پاکستان کی معیشت کو برباد کرنا ہے، چین کے صدر آ رہے تھے، کھربوں کے معاہدوں کے لئے، انکو اسلام آٓباد نہیں اترنے دینا اور قوم کو پتھرکے دور میں واپس دھکیلنا ہے، طاہرا لقادری کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، ان کے اثاثے بیرون ملک تھے، ان کے مرید اور پیرو کار کرہ ارض میں جگہ جگہ پھیلے ہوئے تھے، وہ تو گلوبل قائد تھے، عمران خاں بھی ورلڈ فیم کا مالک تھا، کرکٹ کا بے تاج بادشاہ۔روپے پیسے کی فراوانی جو اسے وراثت میں تو نہیں ملی تھی۔وہ منتخب ہو کر نہیں ، ایمپائر کی انگلی کے اشارے پر ملک کی باگ ڈور سنبھالنا چاہتا تھامگر صد حیف! اسے کوئی ایمپائر نہیں ملا، جو بھی ایمپائر تھا، ا سنے بے اصولی کا راستہ اختیار نہیں کیا اور قادری ا ور عمران جی ایچ کیو سے بے نیل و مرام واپس لوٹے۔ اس کے بعد تو وہ ڈھیٹ ہو کر دھرنے میں بیٹھے رہے، ان کے لوگ وہاں سے جا چکے تھے کہ ان کی امیدیں دم توڑ چکی تھیں، یہ اکیلے وہاں کیا کرتے، ایک نے بیماری کی آڑ میں کینیڈا کی راہ لی، دوسرے کو فیس سیونگ کے لئے پشاور کا سانحہ مل گیا ، اگرچہ یہ بھاری قیمت تھی،معصوم بچوں کا لہو۔ بہت بڑی قیمت تھا۔عمران چاہتا تو اس کی بھی قدر نہ کرتا ، مگر اسے اپنی قدرو قیمت بھی معلوم ہو جاتی اور وہ پاکستان میںکسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتا، اس نے بچوں کے خون کی قیمت پر اپنی عزت بچا لی۔
مگر اب پھر اس کے جذبات بھڑک اٹھے ہیں، آخر کو نسی چیز ہے جو اسے نچلا نہیں بیٹھنے دیتی، ا س نے ساری عمر کرکٹ کھیلی، خود بھی ڈسپلن کی پابندی کی اور اپنی ٹیم کو بھی کس کے رکھا، کسی کو اونچا سانس نہیں لینے دیا ،مگر سیاست میں آ کر ،منہ زور بنا ہوا ہے۔اس کی وجہ ، کوئی عمران سے پوچھے،ا سکے قریبی ساتھیوں سے پوچھے، روپے پیسے کے ڈھیر والوں سے پوچھے اور اس کے میڈیا کے نو رتنوں سے پوچھے جو جنونیوں کی طرح ہر ایک کی پگڑی اچھالنے کو صحافت سمجھتے ہیں۔جو جاگتے میں ڈراﺅنے خواب دیکھتے ہیں اور سوتے میں ان خوابوں کی تعبیر ڈھونڈتے ہیں۔
عمران خان الیکشن کمیشن کا استعفے مانگتا ہے،ا سے استعفوں کا ہیضہ ہو گیا ہے، اس کی سیاسی لغت میں استعفے کے سوا کوئی لفظ ہی نہیں ، استعفے، دھرنا،دھاندلی، شاید یہی تین الفاظ۔اس محدود سوچ کے ساتھ وہ پاکستان کی حکومت مانگتا ہے ا ور وہ بھی بغیر الیکشن لڑے، جہاں اسے حکومت مل چکی، وہاں اس نے دودھ اور شہد کی ندیاں نہیں بہائیں،باقی ملک میں کیا چاند چڑھائے گا۔
عمران کو اس وقت بھارت کے عزائم کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اس کے تربیت یافتہ دہشت گردوں نے اندرون ملک ایک مافیا کا روپ دھار لیا ہے، وہ خون پی رہے ہیں، مال بنا رہے ہیں ، ملک کو سیکورٹی ا ور معیشت کے اعتبار سے غیر مستحکم بنا رہے ہیں۔اوپر سے بھارت نے سرحدوں پر دباﺅ بڑھا دیا ہے، بے گناہ شہریوں کو گولہ باری کا نشانہ بنا رہا ہے۔اس وقت ملک کو یک جہتی، اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے، انتشار کی نہیں۔
مگر یہ نئے دھرنے کے لئے چارا کتوبر کی تاریخ کا مطلب کیا ہے، میرے جیسے ڈرپوک تو سہمے بیٹھے ہیں اور نجومی کہہ رہے ہیں کہ یہ تاریخ بھارت نے پاکستان پر نئی جنگ مسلط کرنے کے لئے چن رکھی ہے، عمران بھی بھارت کے عزائم کو پڑھنے کی کوشش کرے، اس کے عزائم کا حصہ نہ بنے۔بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان پر حملہ نہ کرے۔