چراٹ میں ایس ایس جی کی میٹنگ میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف مہمان خصوصی کے طور گئے چائنز کمانڈوز کے ساتھ پاکستانی کمانڈوز کی مشترکہ مشقوں کے اختتام پر بہت بڑی سرگری ہوئی۔ جنرل مشرف بھی یہاں کمانڈو تھے۔ میرے دوست ریٹائرڈ کرنل ضرار بھی یہاں رہے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ افواہیں بھی اڑائی جا رہی ہیں۔
انہی ایس ایس جی کے کمانڈوز نے یرغمال بنائے گئے اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اجمل خان کو بازیاب کرایا۔ انہیں پچھلے چار برسوں سے طالبان کے کسی گروپ نے اغوا کیا تھا۔ اے این پی کی صوبائی حکومت اور پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت انہیں بازیاب کرانے میں ناکام رہی تھی۔ یہ بہت بڑی عسکری کامیابی ہے۔ آئی ایس آئی کی نشاندہی پر کمانڈوز نے کارروائی کرکے انہیں بازیاب کرایا ہے وہ ریلیف سے جو سیاسی حکومت عسکری قیادت سے حاصل کرتی ہے۔ آج بھی سیاسی صورتحال میں حکومت کو فسیلی ٹیٹ (Facili Tate) کرنے کے لئے درخواست کی گئی ہے۔ حکومت کو اس طرح کا ریلیف کئی بار فراہم کیا گیا ہے۔
پروفیسر اجمل خان کی بازیابی آپریشن ضرب عضب کی بھرپور کامیابی کا ایک ثبوت ہے۔ پروفیسر اجمل میرے ہمنام ہیں میرے لئے کچھ زیادہ خوشی کی بات ہے۔ پروفیسر صاحب اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے ایک گفتگو میں کہا ہے کہ وہ حکیم اللہ محسود اور سجنا گروپ کے پاس رہے ہیں جنہوں نے ان پرکوئی تشدد نہیں کیا۔ ان کے لئے پروفیسر صاحب نے اچھے جذبات کا اظہار کیا ہے تو پھر وہ کون ہیں جو خودکش حملوں کے ذریعے بے خبر بے گناہ لوگوں پر قیامت ڈھاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ دہشت گردوں کے سرپرست وہ لوگ ہیں جو پاکستان میں انتشار اور افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں۔ یہ دشمنوں کے ایجنٹ ہیں اور ان کے خلاف کامیاب کارروائی کے لئے پاک فوج کو مبارکباد پیش ہے۔ آپریشن ضرب عضب کے لئے اطمینان بخش بات یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیاں تقریباً ختم ہو گئی ہیں۔ پروفیسر اجمل کے لئے تاوان بھی ادا کیا گیا مگر ان کی بازیابی ممکن نہ ہوئی۔ تاوان کو ان علاقوں میں تعاون کیا جاتا ہے۔ اس حیرت انگیز اور ولولہ انگیز کامیابی کے لئے پشاور کی سول سوسائٹی نے بھی بہت شکر گزاری کا اظہار کیا ہے۔ اس کے لئے ایس ایس جی کے کمانڈوز بھی مبارک کے مستحق ہیں۔
جنرل مشرف ان کے کمانڈروں میں سے ہیں یہ بھی سنا ہے کہ وہاں افسروں اور جوانوں نے کھل کر آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بات کی۔ سیاسی حلقوں میں پارٹی لیڈر سے بات کرنے کی جرات کارکنوں اور سیاستدانوں میں نہیں ہے۔ عسکری معاملات میں زیادہ جمہوری رویہ پایاجاتا ہے۔ یہاں کوئی جوان اور افسر جینوئن بات بہت آسانی سے کر سکتا ہے۔ اس پر بحث بھی ہوتی ہے اور فیصلے بھی مل جل کر ہوتے ہیں۔
ایس ایس جی کے کمانڈوز نے اس بات پر بے چینی کا اظہار کیا کہ وطن کے لئے جان دینے والوں کو غدار نہیں کہا جا سکتا۔ سیاسی حکومت ختم کرنے کیلئے مدد کو غداری کہنا مناسب نہیں ہے۔ ہم اور ہمارے کمانڈر غداری کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ آئین کو کبھی توڑا نہیں گیا۔ آج بھی وہی آئین پاکستان کی سیاست میں رائج ہے۔ اس میں سیاستدانوں نے کئی ترامیم کی ہیں۔
اس حوالے سے چودھری شجاعت نے بھی کہا تھا کہ جنرل مشرف پر مقدمے کو غداری کے علاوہ کوئی اور نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کیلئے خون کا آخری قطرہ تک بہانے والے فوجی جوان اور فوجی افسران غداری کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس کیلئے جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ان کی ہر بات پر نظر ہے۔ وہ بیرونی اور اندرونی صورتحال کیلئے مکمل نگرانی کر رہے ہیں۔ پاکستان کے خلاف اور پاک فوج کے خلاف کسی طرح کی اجازت نہیں دیں گے۔ جنرل راحیل شریف نے جوانوں اور افسروں سے بہت دوستانہ اور پیشہ وارانہ انداز میں بات کی۔ انہوں نے پہلے بھی کسی مقام پر فوج کے وقار کا تحفظ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جب ایک مخصوص میڈیا کی حمایت حکومت کی طرف سے کی گئی اور نواز شریف زخمی صحافی کی عیادت کیلئے چلے گئے اس حملے میں آئی ایس آئی چیف جنرل ظہیر الاسلام کا نام بار بار لیا گیا تھا جو قابل مذمت ہے اور حکومت کو بھی اس کا نوٹس لینا چاہئے تھا۔ زخمی صحافی کی عیادت کے ساتھ مخصوص میڈیا کی اس ہرزہ سرائی کے بارے میں بھی بات کرنا چاہئے تھی۔ دوسرے دن آرمی چیف جنرل راحیل شریف آئی ایس آئی کے دفاتر میں جنرل ظہیر الاسلام کے پاس پہنچ گئے۔ فوج کے جنرل ظہیر ایک بہت محترم اور اعلیٰ پائے کے عزت کے قابل جرنیل ہیں۔ اس سے پوری قوم میں طمانیت کی لہر دوڑ گئی۔ پورے ملک میں پاک فوج اور آئی ایس آئی کے لئے بھرپور ریلیاں نکلیں اور لوگوں نے پاک فوج کے لئے یکجہتی کا اظہار کیا۔
ایک وزیر پرویز رشید نے کہا کہ ہم غلیل والوں کے ساتھ نہیں ہیں دلیل والوں کے ساتھ ہیں۔ اب یہی غلیل والے حکومت کو بچانے کیلئے بلائے گئے ہیں۔ انہوں نے غلیل نہیں چلائی مگر صورتحال اُن کے کنٹرول میں ہے۔ نام نہاد دلیل والے اب بھی بغیر دلیل کے بات کر رہے ہیں۔ پرویز رشید اب کہتے ہیں کہ میں نے پاک فوج کیلئے غلیل والے کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا مگر انہوں نے یہ نہیں کہا کہ دلیل والے مخصوص میڈیا ہے۔ اب کسی سیاستدان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔
اب تک سیاستدان کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکے۔ پندرہ دنوں سے انتہائی حساس سرکاری علاقے ریڈ زون میں افراتفری کا میلہ لگا ہوا ہے۔ سارے سیاستدان مل کر بھی اپنا یہ سیاسی مسئلہ حل نہیں کر سکے۔ سب لوگ آرمی چیف کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ الطاف حسین کہتے ہیں کہ 1977ء میں بھی سیاستدان اور لوگ آرمی چیف کی طرف دیکھ رہے تھے اور اب بھی دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے گاتے ہوئے فوج کے آنے کی بات کی مگر فوج سیاست میں نہیں آئے گی۔ براہِ راست تو کبھی نہیں آئے گی۔ سیاستدانوں سے مسائل اور معاملات قابو میں نہیں آتے تو؟ نواز شریف نے صدر زرداری کو بھی گھر بلایا مگر وہ کامیاب سیاستدان ہوتے ہوئے کچھ نہ کر سکے۔ کوئی سیاستدان کچھ نہیں کر سکا۔ چودھری سرور کی کوششیں قابل داد ہیں۔
جسے قیادت کہتے ہیں وہ عسکری قیادت بھی ہے جس کا رویہ اپنے ادارے میں زیادہ جمہوری ہے۔ سیاسی قیادت ابھی جمہوری روئیے سے آشنا نہیں ہے۔ قومی لیڈر کیا ہوتا ہے، کون ہوتا ہے، ہمارے ہاں لیڈر قائداعظم کے بعد سیاسی میدان میں نہیں آیا۔ ہمارے ہاں سیاستدان حکمران بنتے ہیں لیڈر نہیں بنتے۔ لیڈر صرف قائداعظم تھے وہ پہلے گورنر جنرل تھے انہیں کوئی سابق گورنر جنرل نہیں کہتا۔ ہر کوئی قائداعظم کہتا ہے۔ ہمارے ہاں دو سال وزیر بننے والا ساری عمر کیلئے سابق وزیر بن جاتا ہے۔
نواز شریف استعفیٰ دے دیتے تو وہ لیڈر ہوتے مگر وہ حکمران ہیں۔ اسمبلی میں سارے سیاستدان ہیں کچھ حکمران ہیں۔ اسمبلی میں عسکری قیادت سے تعاون کیلئے درخواست کو اس طرح سیاسی بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ عمران اور قادری صاحب بھی عاصمہ جہانگیر کے بقول پاک فوج کی طرف سے ایک کال پر آرمی چیف کے پاس بھاگتے ہوئے پہنچے۔ وہاں وزیر داخلہ چودھری نثار بھی موجود تھے۔ وزیراعظم نواز شریف آرمی چیف جنرل راحیل سے کئی بات ملاقات کر چکے ہیں۔ اُن سے کسی تعاون کی ضرورت نہیں ہے تو ان ملاقاتوں کا مقصد کیا ہے؟
محمود اچکزئی کی اسمبلی میں گفتگو کو میں کوئی اہمیت نہیں دیتا کہ وہ نواز شریف کی ’’جمہوریت‘‘ سے بہت فائدے اُٹھا چکے ہیں۔ خورشید شاہ کے لیڈر صدر زرداری بھی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ اُن کی نواز شریف نے مدد کی۔ وہ نواز شریف کو بچا رہے ہیں۔ خورشید شاہ نام کے اپوزیشن لیڈر ہیں۔ اپوزیشن تو اسمبلی کے دروازے پر پچھلے پندرہ دنوں سے بیٹھی ہوئی ہے اور کسی میں جرأت یا سیاسی کمال نہیں کہ کوئی حل نکالا جا سکے۔ آخرکار وہ فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ فوج ان کی مدد کرنا چاہتی ہے مگر گندی سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہتی۔ سیاستدان اچھے جرنیلوں کے ماتحت نہ ہوں مگر مشکور تو ہوں۔
خورشید شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ جلا دو، سیکرٹریٹ جلا دو، سب کچھ راکھ کر دو مگر ہم آئین کا ایک صفحہ بھی جلانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ وہی آئین ہے جسے جنرل ضیا اور جنرل مشرف نے ’’جلا‘‘ دیا تھا اور کوئی کچھ نہ کر سکا تھا۔ سیاستدانوں کی نااہلی اور ناکامی سب کے سامنے ہے۔ تب خورشید شاہ یہاں تھے جب جنرل ضیا نے کہا تھا کہ آئین ردی کا ایک کاغذ ہے اس کیلئے کسی سیاستدان کا ردعمل سامنے نہ آیا۔ اسی آئین کے تحت خورشید شاہ، محمود اچکزئی، نواز شریف، عمران خان ایم این اے ہیں۔ خورشید شاہ نے اپنے ساتھی افضل چن کی وہ بات ٹی وی چینل پر نہیں سنی کہ ہمارے دور حکومت میں بھی پوری جمہوریت نہ تھی۔ بلاول بھٹو زرداری نے خورشید شاہ کو شاباش دی ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں خوب بولے ہیں۔ خورشید شاہ ایک سینئر آدمی ہیں انہیں یہ جونیئر شاباش مبارک ہو۔
آخر میں برادرم کرنل ضرار کی ایک بات کہ ہم اپنے بچوں سے کہیں گے کہ تمہاری دادیاں مائیں بہنیں پارلیمنٹ کے سامنے پندرہ سولہ دن ناچتی رہی تھیں تو یہ نیا پاکستان بنا تھا۔ کرنل ضرار نے ایک لیڈر کے لئے بہت جامع اور بامعنی بات کی ہے۔ جن میں عسکری قیادت اور سیاسی قیادت دونوں نظر آتی ہیں۔ قومی قیادت کے حوالے سے ایک لیڈر کو کیسا ہونا چاہئے۔ اگلے کالم میں تحریر کیا جائے گا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38