عمران نے لاہور کے عظیم الشان جلسہ عام میں کہا کہ یہ جلسہ حکومت کے خلاف ایک ریفرنڈم ہے۔ یہ کئی اخبارات کی ہیڈ لائن ہے تو مجھے جنرل مشرف کا ریفرنڈم یاد آ گیا جس کے سیاسی سربراہ یعنی الیکشن/ ریفرنڈم ایجنٹ عمران خان تھے۔ اس کی کامیابی کے لئے بھی وہ اتنے ہی خوش تھے۔ تب جنرل مشرف نے انہیں وزیراعظم بنا دیا ہوتا تو لوگوں کو لگ پتہ گیا ہوتا کہ تبدیلی کس چڑیا کا نام ہے۔ پھر یہ تبدیلی آئی کہ اس انقلابی اقدام کے لئے عمران نے قوم سے معافی مانگ لی۔ معافی اب مافیہ بن چکی ہے۔ نواز شریف بے نظیر بھٹو اور اب بلاول بھٹو زرداری نے بھی معافی مانگی ہے۔ اس طرح سیاستدان صاف اور یکطرفہ بچ نکلتے ہیں۔ انہیں معافی دی گئی یا نہیں وہ بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ معافی کے ساتھ تلافی کبھی نہیں ہوئی۔ اب تلافی کا وقت ہے اور اگر لوگوں کے ساتھ زیادتیوں کا ازالہ نہ کیا گیا تو وہ کہاں جائیں گے؟ عمران خان کو یہ احساس دلانا بڑا ضروری ہے کہ لوگ بہت مایوس ہوں گے۔ اب مایوسی اس صورتحال کے لئے بہت چھوٹا سا لفظ ہے۔ اب تو لوگوں کی حالت یہ ہے:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
اب تو وہ پہچان گئے ہیں اب ان کا کیا بنے گا؟ پاکستان کا کیا بنے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہت بڑا جلسہ تھا۔ یہ بھی بڑی بات ہے کہ خواجہ آصف نے دل سے تسلیم کیا ہے کہ بہت بڑا جلسہ تھا مگر عمران کی باتوں میں تضاد ہے۔ تضاد کس کی باتوں میں نہیں ہے۔ انتخابی اور انقلابی تقریروں میں سیاستدان کچھ اور کہتے ہیں اور اقتدار میں آ کر انہی باتوں میں انہیں تضاد نظر آنے لگتا ہے۔ عمران بھی اقتدار میں آئے گا اور نواز شریف اور ’’صدر‘‘ زرداری سے مختلف نہیں ہو گا۔ نواز شریف کا موازنہ وزیراعظم گیلانی سے نہیں ہو سکتا۔ ان کا موازنہ راجہ پرویز اشرف سے کیا جائے۔ انہیں صدر نے وزیراعظم بنایا اور صدر ممنون کو وزیراعظم نے بنایا۔ فرق خود معلوم کر لیں۔
مجھے معلوم نہیں ہے کہ خواجہ سعد رفیق نے کیا کہا۔ اس حوالے سے مظہر عباس کی بات بہت بامعنی ہے۔ مسلم لیگ ن ابھی تک عمران کو سمجھ ہی نہیں سکی اور خواجہ سعد رفیق کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ اسے سمجھنا ہی نہیں چاہتی۔ پچھلے دنوں خواجہ سرائوں نے عمران خان کے خلاف پریس کانفرنس کر دی۔ ایک صحافی کہنے لگا کہ یہ پریس کانفرنس سننے کی کارروائی نہ تھی بلکہ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ جن لوگوں نے ان سے پریس کانفرنس کرائی وہ انہیں دھرنے میں لے جانے کا انتظام کرتے تو ان کے حق میں زیادہ مفید ہوتا۔ نیا پاکستان کا ایک پرانا شہری اپنے بچوں کو بتا رہا تھا کہ پاکستان تمہارے آباء و اجداد نے بہت قربانیاں دے کر بنایا۔ نیا پاکستان بنانے کے لئے بھی تمہاری ماں کئی دن مسلسل ناچتی رہی تھی۔ وہ تھک کر چور ہو گئی۔ اس قربانی کے بعد نیا پاکستان بن گیا۔
خواجہ سرائوں کی عمران خان کے خلاف پریس کانفرنس سے لگتا ہے کہ حکومت اپنے خواجہ صاحبان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔ یہ سیاسی خواجہ صاحبان کے ساتھ زیادتی ہے۔ اوپر سے خواجہ آصف نے کہہ دیا ہے کہ لاہور میں عمران کا جلسہ بڑا تھا۔
میرا ایک دوست ہے بابر بھائی۔ وہ فزیو تھراپسٹ ہے۔ اس نے بتایا کہ موٹر سائیکل ہم نے ایم اے او کالج کے پاس چھوڑی اور پیدل میٹروبس والی سڑک سے مینار پاکستان پہنچے یہ کئی کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ مینار پاکستان کی پارک میں تو تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ لفظ دھرنے پر غور کریں۔ میٹرو بس والے پل پر کھڑے ہو کے ہم دوستوں نے جلسہ دیکھا۔ عمران نظر تو نہیں آ رہا تھا اس کی آواز تو نظر آ رہی تھی۔ شاہی مسجد سے لے کر داتا دربار تک لوگ تھے۔ گھروں کی چھتوں پر بھی عورتیں اور بچے تھے۔ جلسے میں پوری کی پوری فیملیز تھیں۔ خاندان کے سارے آدمی اور عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ۔ بچے بھی اور بوڑھے بھی۔
اب تو عمران پر سب کو اعتبار ہے۔ یہ اعتبار ٹوٹا تو کیا ہو گا۔ اس بار قیامت ہو گی۔ عمران نے کہا کہ یکساں نظام تعلیم ہو گا۔ انگلش میڈیم اردو میڈیم سے مختلف نہیں ہو گا۔ سب سکولوں کالجوں میں ایک نصاب تعلیم ہو گا۔ لوگوں نے یہ آواز تو سنی۔ انہیں عمران خان کے ساتھ خورشید محمود قصوری کھڑے ہوئے نظر نہیں آ رہے تھے۔ ہم ٹی وی چینل پر تو دیکھ رہے تھے۔ ہمیں یقین تھا اگر عمران کا یقین بھی پکا ہے تو قصوری صاحب اسی وقت کہہ دیتے کہ میں بیکن ہائوس کو ایک عام پبلک سکول بنانے کا اعلان کرتا ہوں۔ وہاں ہزاروں روپے فیس میں سے چند سو روپے ہی کم کر کے دکھائیں۔ کیا یکساں نظام تعلیم کے لئے عمران کا ساتھی خورشید محمود قصوری اجازت دے گا۔ وہ نجانے کیا سوچ کر عمران خان کے ساتھ آئے ہیں۔ اس کے لئے فوزیہ قصوری کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ بیکن ہائوس کو عام سکول بنانے کے لئے حکومت میں آنے کی ضرورت بھی نہیں ہے مگر؟
گیارہ کروڑ پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ یہ اعداد و شمار عمران خان نے خود دیے ہیں۔ انہیں اس لکیر کی قید سے آزاد کرانے کے لئے اوپر اٹھانے کا اعلان عمران نے کیا۔ وہاں عمران خان کے ساتھ جہانگیر ترین موجود تھا۔ وہ کھرب پتی ہے اور بھی کئی کھرب پتی عمران خان کے ساتھ ہیں۔ عمران کے ساتھیوں میں کوئی بھی غربت کی لکیر کے نیچے نہیں ہے۔ تو کیوں یہ مظاہرہ نہیں ہوتا کہ یہ دولت بانٹ دی جائے۔ اس سے کچھ تو غربت کا خاتمہ ہو گا۔
بجلی کے بل تو جلائے جاتے ہیں مگر بجلی سے محروم لوگوں کی بے چارگی پر رحم نہیں کھایا جاتا۔ اس کے لئے بھی حکومت میں آنے کی ضرورت نہیں ہے؟ کچھ کام عمران خان حکومت میں آنے سے پہلے کرے تاکہ حکومت والوں کوبھی پتہ چلے کہ کام کس طرح ہوتا ہے۔ صوبہ خیبرپختون خوا میں عمران کی حکومت ہے۔ وہاں یہ سب کچھ ہوتا جو وہ تقریر میں کہتا ہے۔ وہاں کچھ ہوا ہو گا مگر وہ ایسا نہیں ہے جو عمران کی تقریر میں نظر آتا ہے۔ جینوئن اور ممتاز صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کہتے ہیں کہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی تسلی بخش بھی نہیں ہے۔ تعلیم کا شعبہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومت کے پاس ہے تو یہاں نصاب تعلیم ایک ہو جانا چاہئے تھا۔ پرویز خٹک کی پرفارمنس صرف دھرنے میں نمبر ون ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ خٹک ڈانس تو اچھا ہے۔ تھوڑا سا اٹک ڈانس بھی کرو۔
بلاول بھٹو زرداری کو خطرہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے محروم مظلوم محکوم لوگ تحریک انصاف میں جا رہے ہیں۔ انہیں ان کے پارٹی لیڈروں کی کوتاہیوں اور زیادتیوں کی معافی کے لئے اب تحریک انصاف میں وہی کشش دکھائی دے رہی ہے جو کسی وقت بھٹو کی پیپلز پارٹی میں نظر آتی تھی۔ وہ پیپلز پارٹی میں آ گئے تھے۔ انہیں کچھ نہ ملا۔ نہ روٹی نہ کپڑا نہ مکان۔ انہیں عمران کی تحریک انصاف میں بھی صرف کشش ملے گی اور کچھ نہیں ملے گا۔ تو پھر وہ کہاں جائیں گے۔ میری ان سے گذارش ہے کہ وہ بلاول کی معافی قبول کر کے پیپلز پارٹی میں ہی رہیں۔ اللہ انہیں توفیق دے کہ وہ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے وعدوں کو ارادوں میں بدل کے دکھا دیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری بھی بہت کچھ کر سکتے تھے۔ انہوں نے خود مجھے کوٹ لکھپت جیل میں بتایا تھا کہ لوگ ابھی سے میرے ساتھ بہت توقعات رکھنے لگے ہیں۔ میں نے انہیں عرض کیا کہ وہ ان کی توقعات پر پورا اتر کر دکھائیں اور وہ یہ کر سکتے ہیں مگر پھر ایوان صدر میں شاید میری بات ان کو بھول گئی۔ انہیں سرکاری باتیں بتانے والے اور فائدے اٹھانے والے بہت تھے۔ اپنے ہی لوگ ہر حکمران کو مل جاتے ہیں۔ عمران حکمران ہو گا تو اس کے آس پاس بھی ایسے ہی لوگ ہوں گے؟
بلاول دل کشادہ کریں اور عام لوگوں اور کارکنوں سے محبت کریں۔ میں نے محسوس کیا کہ لوگ بھی اس سے محبت رکھتے ہیں۔ ایسی ہی باتیں برادرم منور انجم کے گھر پر ہوئیں جہاں کراچی سے ڈپٹی سپیکر سندھ شہلا رضا بھی موجود تھیں۔ ہم تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کا موازنہ تو نہ کرتے رہے مگر جو گفتگو تھی اس میں ایسی ہی کوئی گمشدہ آواز تھی۔ شہلا بی بی نے بلاول اور ’’صدر‘‘ زرداری کے لئے بہت اچھے خیالات کا اظہار کیا۔ بلاول کے لئے محبت میں شہید بی بی کے جذبوں کی تصویر تھی۔ میں اس کے لئے الگ کالم لکھوں گا۔ عمران سے لوگ مایوس ہوں گے تو پھر بلاول کی باری ہے۔ شاید یہ باری پہلے ہی آ جائے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024