ہفتے کو میرے ساتھ احمد فراز کے بیٹے شبلی فراز کی ملاقات طے تھی، ایک نامور شاعر کا بیٹا اور وہ بھی پشاور سے تحریک انصاف کا رکن اسمبلی، میں اس سے ملنے کے لئے بے تاب تھا مگر نصف شب کو اس کا ایک ٹیکسٹ پیغام دیکھا جس میں اس نے ملاقات سے معذرت کر لی تھی، اس کا کہنا تھا کہ کپتان کا حکم ہے کہ واپس پشاور جائو اور ایک بڑا جلوس لے کر لاہور کے جلسے کی رونق دوبالا کرو۔
سرکاری جلسے اگر پٹواریوں اور تھانیداروں کے ذریعے بھرے جاتے ہیں تو اپوزیشن کے جلسے پارٹی کے ارکان یا ٹکٹ ہولڈر کے ذریعے بھرنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔
کیا لاہور میں عمران کے جلسے کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ آیا، وہ چھا گیا اور ا س نے لاہور فتح کر لیا۔
لاہور کے مینار پاکستان میں صرف لاہوری ہوتے یا ارد گرد کے چند شہروں کے لوگ، یعنی مرید کے، شیخوپورہ، للیانی ، بھائی پھیرو اورچھانگا مانگاتو عمران یہ کہنے میں حق بجانب تھا کہ لاہور نے اس کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ پھر بھی یہ جلسہ نہ تو کسی ریفرنڈم کا حصہ تھا ، نہ الیکشن کے عمل کا متبادل کہلا سکتا تھا، اس لئے دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے، عمران جو مرضی دعوے کرتا پھرے۔
وزیر اعظم کی تبدیلی یا حکومت کے خاتمے کا جہاں سے فیصلہ ہو سکتا ہے، عمران وہاں سے اپنے دیگر مٹھی بھر ارکان کے ساتھ مستعفی ہو کر چلا آیا ، اب نہ نو من تیل ہو گا ، نہ رادھا ناچے گی۔ عمران پارلیمنٹ کے اندر رہ کر دیگر پارلیمانی گروپوں کو ساتھ ملا کر کوئی آئینی ترمیم کروا سکتا تھا، کوئی اٹھاون ٹو بی جیسی ترمیم ، یا ان ہائوس تبدیلی، مگر اب تو دلی بہت دور کھسک گئی۔کسی بھی جتھے بندی کے بل بوتے پر حکومت کی تبدیلی کی گنجائش ملکی آئین میں تو نہیں، نیٹو کے بل بوتے پر افغان آئین پاکستان میں نافذ کر دیا جائے تو شاید عمران کو قومی حکومت کی تشکیل کا موقع مل جائے۔ عمران یہ دھمکیاں بھی دیتا ہے کہ وہ حملے کرتا رہے گا، ضرور کرے، مگر عمران جان لے کہ ابدالی، غوری کا زمانہ لد گیا،اگر بارہ برسوں میںتحریک طالبان پاکستان حملہ آور ہو کرا سلام ا ٓباد پر قبضہ نہیں جما سکی تو عمران کے دھرنوں اور جلسوں کے شرکاء سے کسی کو کیا خوف۔ ہاں، عمران جو کام آسانی سے کر سکتا تھا ، اس نے کر لیا، ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا۔چینی صدر کا دورہ منسوخ کرو ادیا، بیرونی سرمایہ کار پاکستان کا نام سن کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور اندرونی کاروباری طبقہ دکانوں، دفتروں اور کارخانوںمیں بیٹھا مکھیاں مار رہا ہے، مجھے نوید چودھری نے طعنہ دیا ہے کہ تمہارے اندر یہ جرات نہیں کہ عمران سے پوچھ سکو کہ بھائی کس باغ کی مولی ہو، کسے چیلنج کر رہے ہو، اس کا تجربہ دیکھو ، صرف کرکٹ ورلڈ کپ جیت کر تو ملک چلانے کا تجربہ حاصل نہیں ہو سکتا، نوید چودھری نے پھر مجھے ایک لمبا چوڑا لیکچر پلایا ہے کہ عمران نے دعوی تو کیا تھا کہ حکومت کا پہیہ جام کر کے رکھ دے گا مگر حکومت تو ملکوں ملکوں سیر سپاٹے کرتی پھر رہی ہے اور عمران کے ہاتھوں صرف عوام رل گئے ہیں، ان کے راستے بند ہیں، ہر طرف پی ٹی ا ٓئی کے جلوسوں کا راج ہے، گاہک دکان پر نہیں پہنچ سکتا ، ملازم دفتر تک نہیں پہنچ سکتا اور اس ہنگام میں لاہور کی بہترین ٹیلی فون ایکس چینج جل کر راکھ ہو گئی ،اب لاہور کے ستر اسی ہزار ٹیلی فون خاموش ہیں، انٹرنیٹ ناپید ہے، موبائل بھی کوئی کوئی ملتا ہے، یہی انقلاب ہے، یہی نیا پاکستان ہے تو نوید چودھری کا کہنا ہے کہ عمران اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔
مگر نہیں ، سچے لیڈر معیشت کا پہیہ جام نہیں کیا کرتے، وہ لوگوں کاراستہ نہیں روکتے،وہ کاروبار ٹھپ کرنے کے لئے باہر نہیں نکلتے۔
لاہور کے جلسے نے یہ ضرورثابت کیا کہ عمران ایک پاپولر لیڈر ہے، انڈیامیں جے للیتا بھی پاپولر لیڈر ہے، اس پر رشوت ستانی کا جرم ثابت ہو گیا اور اسے جیل میں ڈال دیا گیا تو جے للیتا کے پرستاروںمیں سے دس کو دل کا دورہ پڑا اور وہ چل بسے ، چھ پرستاروںنے اپنے آپ کو آگ لگا لی یا کوئی چھت سے کود گیا یا کسی نے بس کے آگے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی، یہ ہوتے ہیں پرستار۔تامل ناڈو کے لوگ جے للیتا کو اماں کے نام سے پکارتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ وہ ہماری ماتا کے برابر ہیں۔عمران خان کے پرستار کب اس پر جانیں چھڑکیں گے، یہ دیکھنے کی بات ہے، ابھی تو وہ اسے کبھی کرین سے زمیں پر پٹخ دیتے ہیں جس سے اس کی کمر ٹوٹ گئی اور کل لاہور کے جلسے میں بھی عمران کو ایک زور کا دھکا پڑا ۔ اس نے دھکا دینے والے کو دھکادے کر غصہ اتار لیا۔
جمہوریت پرست ،آئین پسند اور انسانی حقوق کے علم بردار کہتے ہیں کہ عمران کو دھرنوں اور جلسوں کا آئینی اور قانونی حق ہے مگر یہی آئین اور قانون ہر شہری کو نقل و حرکت کی ا ٓزادی بھی دیتا ہے، عمران نے اپنا حق استعمال کرنے کے لئے لوگوں کی نقل و حرکت کے بنیادی حق کو سلب کر رکھا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ عمران کا ٹارگٹ حکومت ہے یا عوام۔ سامنے کی بات ہے کہ عمران کی حرکتوں سے عام آدمی جس نے دیہاڑی کمانی ہے، روزگار پر جا نا ہے، ہسپتال پہنچنا ہے ، فلائٹ پکڑنی ہے،اس سے شدید منتفر ہو رہا ہے۔
پچھلے ایک ماہ کے دھرنے نے پاکستان کو اربوں کا ٹیکا لگا دیا ہے۔ انیس سو ستتر میںپی این ا ے کی تحریک میں ایک دوپہر کو میں لاہور ہائی کورٹ کے باہر جلوس میں گھوم رہا تھا کہ سامنے سے نقاد اور ادیب سعادت سعید نے میرا راستہ روک لیا، وہ مجھے پی این اے کا حصہ سمجھتا تھا، اس نے چھوٹتے ہی پوچھا کہ کیا روز روز کے جلسے جلسوں سے معیشت کو جو نقصان پہنچاچکے ہو ، اس کا ازالہ کرنے کے لئے اب ان درختوں پر پتوں کے بجائے ڈالرپھوٹا کریں گے اور شاید پھر بھی نقصان پورا نہ ہو۔ اس کی بات درست تھی، ضیاالحق کے دور میں معیشت کی بدحالی دیکھنے والی تھی ، وہ تو بھلا ہو سووئت روس کا کہ ا س نے افغانستان پر چڑھائی کر دی اور پاکستان کو جہاد میںجھونکنے کے لئے امریکہ نے ڈالروں کی بارش کر دی۔
اب ملکی معیشت کے لئے سہارا کہاں سے میسر آئے گا، بیرونی سرمایہ کار تو بدک گئے، اندرونی سرمایہ کاروںنے بھی ہاتھ ا ٹھا لیا۔میں ایک عام ا ٓدمی ہوں گھر سے نکل کر کہیںجانا چاہوں تو جلوسیوں نے میرا راستہ روک رکھا ہے، آدھا ملک سیلاب میں ڈوبا ہو اہے، شمالی وزیرستا ن کے دس لاکھ مہاجرین بے سہارا پڑے ہیں، بھارت کی ا ٓبی جارحیت کے خلاف حافظ محمد سعید کے سوا کوئی زبان نہیں کھولتا۔نوید چودھری ایک ا ور المئے کی طرف اشارہ کرتے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ میرے والد مرحوم کے دور سے ہم اپنے ڈیری فارم کے دودھ کا تیسرا حصہ روزانہ گلاب دیوی کو دان کرتے ہیں ، مینٹل ہسپتال کو کھانا فراہم کرتے ہیں مگر ہمارے وسائل سکڑ رہے ہیں اور ہم اس نیکی سے بھی محروم ہو رہے ہیں جو برسوں سے جاری تھی، عمران نے تو نیکی کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔
دھرنے اور جلسے ابھی جاری ہیں، انیس سو ستر میں بھاشانی اور مجیب کے جلسے ا ور دھرنے بھی رکنے کا نام نہیں لیتے تھے۔اللہ اس انجام سے بچائے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024