پاکستان پیپلز پارٹی اورایم کیو ایم میں کئی سال سے انگریزی ضرب المثل کے مطابق ’’Love Hate Relation Ship‘‘ چلی آ رہی ہے۔ سیانے لوگ اسے جمہوریت کاحسن قرار دیتے ہیں جناب داغ دہلوی چونکہ سیاستدان نہیں تھے اس لئے زندگی کے بارے میں ان کا نقطہ نظر مختلف تھا کہتے ہیں…؎
نہ مزہ ہے دشمنی میں، نہ ہے لطف دوستی میں
کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتا
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ممتاز رہنما سید خورشید شاہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے چار بار لفظ ’’مہاجر‘‘ کو گالی کہا۔ شاہ صاحب نے معافی مانگ لی اور کہا کہ میرے بزرگ مہاجر تھے۔ لیکن معاملہ طول پکڑ گیا اور اب بات ’’توہین رسالتؐ‘‘ تک پہنچ گئی ہے۔ ایم کیو ایم کے ایک صوبائی وزیر جناب روف صدیقی صاحب کا کہنا ہے کہ ہماری جماعت سیکولر ضرور ہے لیکن ہم لادین نہیں ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ممتاز رہنما بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن نے کہا کہ ایم کیو ایم نے سید خورشید شاہ کے بیان کو مسئلہ بنایا ہے۔ اس پر سب کو دکھ ہوا ہے۔ نئے صوبے کے لئے مذہبی انتہا پسندی کا راستہ نہ اختیار کیا جائے ہم سب مہاجرین مکہ کے غلام ہیں۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مہاجرین مکہ میں پیغمبر انقلابؐ، خلفائے راشدینؓ بھی شامل تھے لیکن ان میں سے کسی نے بھی اپنے نام کے ساتھ ’’مہاجر‘‘ کا لاحقہ نہیں لگایا اور نہ ہی ان کی اولاد نے اس بات پر زور دیا کہ ہم مہاجرین مکہ کی اولاد ہیں۔ سب کے سب مسلمان کہلاتے تھے یا ان کی شناخت ان کے قبیلوں کے نام سے تھی یہ درست ہے کہ پیغمبر انقلابؐ اور ان کے ساتھیوں کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان میں مستقل قیام کے لئے ہندوستان کے مسلمانوں نے ہجرت کی لیکن قائد اعظمؒ کی قیادت اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے مغربی پنجاب سندھ، بلوچستان، صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ) اور سابقہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے مسلمان بھی ہندوستان کے مختلف صوبوں کے مسلمانوں کے ساتھ قیام پاکستان کی جدوجہد میں شریک تھے۔ اس لئے پاکستان بنانے والوں کی اولاد دسمبر 1971ء کے بعد بچے کھچے پاکستان کے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں پھیلی ہوئی ہے۔
جناب الطاف حسین 17 ستمبر 1953ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ وہ ’’By Birth‘‘ پاکستانی ہیں۔ ان کے والدین مہاجر تھے۔ وہ پاکستان بنانے والوں کی اولاد ہونے کا دعوی بھی کر سکتے ہیں۔ جناب الطاف حسین نے کراچی کے اردو سپیکنگ مہاجروں کی جماعت مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) 1978ء میں قائم کی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پاکستان کی دوسری قومیتوں کی طرح ’’مہاجر‘‘ بھی ایک الگ ’’قومیت‘‘ ہیں۔ اس کے بعد وہ مہاجروں کوایک ’’قوم‘‘ بھی کہنے لگے۔ 1984ء میں جناب الطاف حسین نے مہاجر قومی موومنٹ کا نام متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) رکھ دیا۔ یعنی انہوں نے اپنی سیاسی جماعت کی مہاجرین کی جماعت کی شناخت ختم کر دی۔ اس طرح ایم کیو ایم قومی دھارے میں آگئی لیکن جب بھی موقع ملتا۔ مہاجروں کے ساتھ بے انصافی پر احتجاج کیا جاتا اوراب پھر ’’مہاجر صوبہ‘‘ کے قیام کامطالبہ کیا جا رہا ہے۔
میں، بیرسٹراعتزاز اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی ’’مہاجر‘‘ ہیں۔ دونوں بھائی قیام پاکستان کے بعد پیدا ہوئے البتہ ان کے والد امرتسر کے مہاجر ضرور تھے۔ ایک دور میں مولانا کوثر نیازی نے جالندھر کے مہاجر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کو ’’مہاجر کامارشل لائ‘‘ قرار دیا تھا۔ میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ جنرل ضیاء الحق جالندھر کے مہاجر ضرور ہیں لیکن ان کا ’’Domicile‘‘ تو صوبہ سرحد کا ہے اور ان کے مارشل لاء کو بھی فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کے مارشل لائوں کی طرح پختون کا مارشل لاء ہی کہا جانا چاہئے جنرل پرویز مشرف کامارشل لاء ’’مہاجر مارشل لائ‘‘ نہیں تھا اور جب پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد ’’قائد عوام‘‘ ذوالفقا علی بھٹو سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنائے گئے تو ان کے مارشل لاء کو ’’سندھی کا مارشل لائ‘‘ نہیں کہا گیا۔ مارشل لاء تو مارشل لاء ہوتا ہے۔ اسی طرح مہاجر، جالندھر یا امرتسر کا ہو یا لکھنو اور دلی کا ’’مہاجر‘‘ ہی ہوتا ہے لیکن ’’مہاجرت‘‘ اس وقت ختم ہو جاتی ہے۔ جب وہ کسی وطن کی وطنیت اختیار کر لیتا ہے۔
ایم کیو ایم کے قائدین جب قیام پاکستان کے لئے مہاجرین کی جانی و مالی قربانیوں کا ذکر کرتے ہیں تومشرقی پنجاب کے مہاجرین کی نمائندگی کا دعوی بھی کرتے ہیں۔ جو مناسب نہیں ہے۔ 1947ء میں تحریک پاکستان کے دوران ہندوئوں کی فسطائی تنظیموں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور ہندو مہا سبھا نے سکھوں کے ساتھ مل کر 10 لاکھ مسلمانوں کو شہید کر دیا تھا اور 55 ہزار مسلمان عورتوں کو اغواء کر کے ان کی عصمتوں کو لوٹ لیا تھا۔ ہزاروں مسلمان ان غنڈوں سے لڑتے ہوئے بھی شہید ہوئے۔ مشرقی پنجاب کے مہاجرین نے آہستہ آہستہ مہاجرین کی حیثیت سے اپنی شناخت ختم کر دی تھی۔ ان کی طرف سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ مشرقی پنجاب کے کسی مہاجر لیڈر کو وزیر اعلیٰ یا گورنر پنجاب لازمی طور پر بنایا جائے۔ جس کسی کو بھی بنایا گیا میرٹ پر یا ’’Party Base‘‘ پر بنایا گیا۔
گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العباد بھی ’’مہاجر‘‘ ہیں یا ان کے والدین مہاجر تھے۔ پہلے مہاجر قومی موومنٹ اور اس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے سرگرم رکن اور عہدیدار رہے جب ایم کیو ایم نے جنرل پرویز مشرف کی حمایت شروع کی تو انہوں نے 27 دسمبر 2002ء کو ڈاکٹر عشرت العباد کو گورنر سندھ مقرر کر دیا۔ صدر آصف علی زرداری نے اپنے دور میں ڈاکٹر صاحب کو گورنر سندھ کے عہدے پر برقرار رکھا۔ جب کبھی بعض معاملات پر ایم کیو ایم پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی اور صوبائی حکومت سے ناراضی ہو جاتی صدر زرداری اس کے تحفظات دور کر دیتے۔ اس دور کے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کا ایک پائوں اسلام آباد میں اور دوسرا لندن میں ہوتا۔ الطاف بھائی مان جاتے تو دونوں پارٹیاں پھر شیر و شکر ہو جاتیں۔ ڈاکٹر عشرت العباد کے پاس نہ جانے کون سی گدڑ سنگی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف بھی ان کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہو گئے ہیں۔ یہ بات مجھے سمجھ میں نہیں آ رہی کہ (بقول قائدین ایم کیو ایم) سید خورشید شاہ نے لفظ ’’مہاجر‘‘ کو گالی قرار دیا اور ایم کیو ایم سندھ حکومت سے الگ بھی ہو گئی تو ڈاکٹر عشرت العباد نے گورنر شپ سے استعفاء کیوں نہیں دیا؟ کیاکوئی فقہی مسئلہ ہے؟
میں عام طور پر تصورات کی دنیا میں رہتا ہوں اور ’’فرض کیا‘‘ کی بنیاد پر نتائج بھی اخذ کر لیتا ہوں تو قارئین وقاریات! فرض کیا کہ چاروں مہاجرین مکہ خلفائے راشدینؓ میں سے کسی ایک کے دور میں مہاجرین مکہ یا انصار مدینہ میں سے کوئی ایک مسلمان کسی عیسائی مملکت کے بادشاہ کی وفاداری کاحلف اٹھا لیتا تو کیا وہ خلیفہ راشدؓ اسے ریاست مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت دے دیتے؟ علامہ طاہر القادری ’’انصار جھنگ‘‘ میں سے ہیں اور ’’شیخ الاسلام‘‘ بھی کہلاتے ہیں اور الطاف بھائی مہاجر دونوں نے ملکہ الزبتھ دوم کی وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ کیا کہتے ہیں علمائے دین بیچ اس مسئلے کہ دونوں لیڈروں کو یہ سہولت دینے والی آئین پاکستان کی شق شریعت کے مطابق ہے یا نہیں؟
میں مشرقی پنجاب کا مہاجر ہوں۔ 1947ء میں میرے خاندان کے 26 افراد سکھوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے میرے والد صاحب رانا فضل محمد چوہان کی تین شہروں میں جائیداد تھی لیکن انہوں نے کوئی کلیم ہی داخل نہیںکیا اللہ تعالی نے انہیں پاکستان میں بہت کچھ دیا۔ مجاہد تحریک پاکستان ڈاکٹرمجید نظامی کی سرپرستی اور تحریک پاکستان کے ممتاز رکن ڈاکٹرکرنل (ر) جمشید احمد ترین کی چیئرمین شپ میں سرگرم عمل ’’تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ کی طرف سے تحریک پاکستان میں خدمات انجام دینے پر میرے والد صاحب کو گولڈ میڈل دیا گیا بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن کے والد گرامی چودھری محمداحسن سمیت کئی وزرائے اعظم و وزرائے اعلیٰ اور تحریک پاکستان کی دیگر ممتاز شخصیات کو بھی اسی طرح کے گولڈ میڈلز دیئے گئے اس میں ’’مہاجرین‘‘ بھی تھے اور ’’انصار‘‘ بھی۔ اعتزازاحسن ’’انصار گجرات‘‘ میں سے ہیں اور سیاستدان بھی لیکن میں یکے از مہاجرین مشرقی پنجاب ’’مہاجر صوبہ‘‘ بنائے جانے کے خلاف ہوں البتہ آئین کے تقاضے پورے کرتے ہوئے انتظامی بنیادوں پر سندھ یا کراچی میں جتنے بھی صوبے بنائے جائیں، کیا ہی اچھا ہو کہ الطاف بھائی 1984ء کی ’’متحدہ قومی موومنٹ‘‘ کو پورے پاکستان میں پھیلا دیں جس کا ہر رکن یہی کہے کہ ’’میں مہاجر نہیں پاکستانی ہوں‘‘۔ میرے سمیت مہاجرین ہندوستان میں سے کوئی بھی شخص مہاجرین مکہ کے پیروں کی خاک کے بھی برابر نہیں ہو سکتا۔ چہ نسبت خاک رابا عالم پاک؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024