بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے جبری قبضے کو ختم کرنے کے لیے گزشتہ ساٹھ سال میں کئی تحریکیں چلی ہیں۔ 1987ءمیں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میںانتخابات کرائے اور یہ تاثر دیا کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں نے جمہوری انداز میں ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرلئے ہیں۔ نئی دہلی کی کوشش یہ تھی کہ دنیا کو خاص طور پر امریکہ اور یورپ کو یہ تاثر دیا جائے کہ کشمیریوں نے اپنی قیادت منتخب کرلی ہے۔ یہ ایک طرح کا ریفرنڈم ہے۔ مقبوضہ کشمیریوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ بھارتی یونین کے اندر رہ کر اپنی حکومت منتخب کریں گے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کشمیر کو اپنے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے استصواب رائے کرانے کا جو فیصلہ کیا تھا اس پر عمل ہورہا ہے ۔ لیکن 1887ءکے ان انتخابات میں کشمیریوں نے یہ دیکھا کہ کشمیریوں کے ساتھ کس قدر بھونڈا مذاق کیا گیا ہے۔ انہی انتخابات میں حزب المجاہدین کے راہنما پیرسید صلاح الدین بھی ایک امیدوار تھے۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے راقم کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان انتخابات میں بھارت نے اس خوفناک حد تک دھاندلی کی تھی کہ انتخابی نتائج کو سو فیصد بدل دیا تھا۔ اس دھاندلی کے بعد سید صلاح الدین اوران جیسے دوسرے کشمیریوں نے بیلٹ کی جگہ بلٹ "Bullet" کے ذریعے حالات کو بہتر بنانے کا فیصلہ کیا۔ وہ اور ان کے ساتھی اس نتیجے پر پہنچے کہ کشمیریوں کے ساتھ جو فراڈ کیا جا رہا ہے اسے ختم کرنے کے لیے انہیں اب بندوق اٹھانا پڑے گی ۔1987ءکے ان فراڈ انتخابات کے بعد کشمیر میں بندوق کے ذریعہ بھارت کا جبری قبضہ ختم کرانے کی تحریک کا آغاز ہوا۔ اگلے دس برس تک کشمیری نوجوان بھارتی فوج کے ساتھ برسر پیکار رہے۔ اس تحریک کے دوران ایسا مرحلہ بھی آیا جب مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مجاہدین کی یلغار سے بچنے کے لیے بھارتی فوجی اپنی جان بچانے کیلئے صلح بھی کرتے رہے اور ان کے مطالبے بھی مانتے رہے۔ اس تحریک کے دوران بھارت مجبور ہوا کہ وہ کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان اور کشمیری لیڈروں سے بات چیت کرے ۔ نوے کی دہائی میں کشمیر پرپاکستان اور بھارت میں بات چیت کی کئی راو¿نڈ پر منعقد ہوئے۔اس دور میں پاک بھارت جامع مذاکرات "composite dialogue" کی شروع ہوا۔
1998ءمیں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی جو کہ پی جے بی کے سربراہ تھے پاکستان آئے اور انہوں نے مینار پاکستان پر آکرپاکستان کی حقیقت کو تسلیم کیا۔ یہ کشمیری مجاہدین کا دباو¿ بھی تھا کہ جس نے پی جے بی کو مجبور کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر پر بات چیت کرے۔ اچانک نائن الیون کا واقع رونما ہوا۔ دنیا بدل گئی۔ امریکہ یورپ اور ساری دنیا کی توجہ دہشت گردی پر مرکوز ہوگئی۔
بھارت کو موقع مل گیا کہ دہشت گردی کی آڑ میں کشمیریوں کی تحریک آزادی کو طاقت کے ذریعہ کچل ڈالے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں چلنے والی مسلح تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دیا اور یہ دعویٰ کیا کہ اس تحریک کو لائن آف کنٹرول کے پار سے یعنی پاکستان کی طرف سے مدد دی جا رہی ہے۔ کراس بارڈر ٹیررازم کی اصطلاح وجود میں آئی۔ دہشت گرد امریکہ پر وار کر چکے تھے اس نے فوراً بھارت کی ہاں میں ہاں ملا دی اور کشمیر میں حالات بدلنے لگے۔ پاکستان میں جنرل مشرف نے اقتدار سنبھال لیا۔ بھارت نے بڑی چالاکی کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر باڑ لگا دی۔ امریکہ اور مغربی ملکوں کی حمایت سے لائن آف کنٹرول کے ”تقدس“ کو یقینی بنانے کیلئے ایک سمجھوتہ بھی کر لیا۔
ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیریوں نے بھارت کے جبری قبضہ کے خلاف جدوجہد جاری رکھی۔ یہ جدوجہد مختلف شکلیں اختیار کرتی رہی۔ پرامن مظاہرے‘ جلسے جلوس اور ریلیاں شروع کی گئیں۔ ان پرامن ریلیوں پر گولیاں برسائی گئیں اور کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا جاتا رہا۔ بھارت کے تمام تر جبر کے باوجود گزشتہ برس نوجوان کشمیری راہنما مظفر وانی کی شہادت نے کشمیر میں ایک نئی اور تازہ دم تحریک آزادی کو مہمیز لگائی۔ یہ تحریک زور پکڑتی جا رہی ہے۔ بھارتی فوج کے بدترین تشدد اور پیلٹ گنوں کے استعمال کے باوجود مظفر وانی کے خون سے چلنے والی تحریک آگے بڑھ رہی ہے۔ اب تو بھارت نے کشمیریوں کا قتل عام شروع کر دیا ہے۔
دو روز قبل دو کشمیری جو ایک زمانے میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف تحریک میں سرگرم رہے ہیں۔ دفتر میں راقم سے ملنے آئے ان کشمیریوں کے چہروں پر دکھ تھا۔ ان میں سے ایک کشمیری راہنما نے جو اب اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں‘ جذباتی ہوتے ہوئے کہا کہ ”کشمیریوں نے مظفر وانی“ کی شہادت کے بعد شہادتوں کی انتہا کر دی ہے۔ وہ بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر دفن کر رہے ہیں۔ وادی کشمیر میں ہر جگہ پاکستانی پرچم لہراتے نظر آ رہے ہیں۔ کم سن کشمیریوں کو چن چن کر بھارتی فوج شہید کر رہی ہے۔ ان کی ما¶ں بہنوں کی عزت محفوظ نہیں۔ پاکستان ہماری کب مدد کرے گا؟
میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ میں نے دل ہی دل میں کہا کہ کم از کم نواز شریف حکومت میں تو ان کے لئے کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ حکومت تو بھارت کے ساتھ اچھے ہمسایوں کے تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38