میںنے تو کمبل سے جان چھڑانے کی کوشش کی تھی، مگر مصیبت یہ ہے کہ کمبل میری جان نہیں چھوڑتا۔
تنہائی کاذکر چھڑا تو عمرعیار کی زنبیل کی طرح دراز تر ہوتا چلا جا رہا ہے، دارالحکومت میں ایک سیمینار منعقدہوا جس میں کوئی یہ کہہ بیٹھا کہ ملک ایک مہلک تنہا ئی کا شکار ہے، ہماری معیشت بھارت ا ور چین تو کیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش سے بھی کم تر پوزیشن پر ہے۔
اسی سیمینار میں طارق فاطمی بھی موجود تھے، انہوں نے وہی کہا جو اگلے روز سرتاج عزیز نے کہا تھا اور سرتاج عزیز نے یہ بات کہنے کے لئے ملک بھر سے اخبار نویسوں کو دارالحکومت مدعو کیا تھا۔ یہ بات وہ ایک سرکاری بیان میں بھی کر سکتے تھے بلکہ نہ بھی کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا اور کہیں تنہائی میں جنرل عاصم باجوہ سے مل کر ان کو سمجھا دیتے کہ برخوردار! میرے محکمے کی باتیں آپ جرمنی جا کر ان کے ریڈیو پر نہ کریں۔
مگر مشاعرہ چل نکلا ہے اور مصرع طرح جنرل عاصم باجوہ نے اٹھایا ہے تو اس پر طارق فاطمی نے بھی زور بیان صرف کرنے میں پھرتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اس کے قومی مفادات کے تابع بنائی گئی ہے، بھارت سے مذاکرات کا سلسہ وہیں سے شروع کرنا چاہتے ہیں جہاں ننانوے میں ٹوٹا تھاجب واجپائی لاہور آئے تھے۔عرب ممالک سے دوستانہ روابط قائم ہیں اور قطر نے ایک لاکھ پاکستانیوں کو روزگار کی پیش کش کی ہے۔ایران کے ساتھ مل کر پشاور تا چاہ بہار موٹر وے بنا رہے ہیں۔اور افغانستان کے راستے پشاور تا وسط ایشیا موٹروے پر کام ہو رہا ہے۔ افغانستان سے تعلقات کی بنیاد یہ اصول ہے کہ جب تک اس ہمسائے میں امن قائم نہیںہوتا ، تب تک پاکستان میں بھی امن قائم کرنا ممکن نہیں۔این ایس جی کی رکنیت کے لئے ہم نے گو آخری وقت درخواست دائر کی۔ پھر بھی گیارہ ملکوںنے ہماری حمائت کی۔ چین سے تعلقات میںقربت ا سکے باوجود بڑھ رہی ہے کہ امریکہ کو یہ ادا پسند نہیں۔ طارق فاطمی کا تعلق وزارت خارجہ سے ہے ا ور یہ سول محکمہ ہے جسے دفاعی امور کی شد بد نہیں ، اگر میں اس حق میں نہیں ہوں کہ جنرل باجوہ خارجہ امور پر تبصرہ کریں تو اسی ا صول کی بنیاد پر میں طارق فاطمی کو یہ حق نہیں دے سکتا کہ وہ نازک دفاعی مسائل پر لب کشائی کریںا ور یہ فرمائیں کہ اگر ہم نے افغانستان میںمتحارب طالبان کو پناہ دی اور انہیںمسلح کیا تو دنیا ہماری ا س حرکت کو سخت ناپسند کرے گی۔ یہ تبصرہ فرمانے سے قبل اگر طارق فاطمی جی ایچ کیو سے استفسار فرمالیتے کہ کیا ہم نے افغان طالبان کو پناہ دے رکھی ہے ا ور انہیں مسلح کر رہے ہیں تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ طارق فاطمی یہ بات کر نے کے بجائے ا لٹا دنیا کو جھاڑ پلاتے کہ وہ سراسرافترا پردازی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ مگر اب تیر ترکش سے نکل چکا اور دنیا کو جھاڑ پلانے کے بجائے طارق فاطمی نے اپنے ہی ملک کو جھاڑ پلا دی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ضرب عضب شروع کر نے سے قبل جنرل عاصم باجوہ لاہور کے میڈیا کے ساتھ مل بیٹھے۔ ویسے اس کے بعد انہوں نے لاہور ہی کیا، ملکی میڈیاہی سے دوری اختیار کر لی، خیر اس میں بھی کوئی حکمت ہو گی۔ اس میڈیا بریفنگ میں جنرل عاصم باجوہ سے یہی تلخ سوال پوچھا گیا تھا کہ کیاآپریشن ضرب عضب میں گڈا ور بیڈ طالبان کا فرق ملحوظ رکھا جائے گا تو جنرل موصوف نے صاف گوئی سٔے کام لیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ایک ڈیڈ لائن دے رہے ہیں کہ فلاں تاریخ تک فلاں علاقہ خالی کر دیا جائے،ا سکے بعد وہاں جو بھی موجود ہو گا، وہ ہمارا دشمن ہو گا اور ہمارے نشانے پر ہو گا۔جنرل عاصم باجوہ سجھانے کی خاطر یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ جب بھاری توپخانہ فائر داغے گا یا ایف سولہ بم گرائے گا تو ان گولوں اور بموں میں کوئی ایسی آنکھ نصب نہیں جو گڈا ور بیڈ طالبان میں تمیز کر سکے ۔یہ گولیاں ا ور بم تو حشر نشر کر دیں گے اور فاٹا کا فلوجہ بن چکا ہے، اگر یہ حال نہ ہوا ہوتا تو ان علاقوں کے مہاجرین کبھی کے اپنے گھروںمیں جا چکے ہوتے، جب وہاں کوئی گھرنام کی کوئی چیز ہی نہیں، (یہ میں تصور کر رہا ہوں )، تو پھر واپس جانے کا امکان کہاں !
ہمارے قلم کار دوست شوکت علی شاہ نے بلوچستان میں اجنبی کے عنوان سے کتاب لکھی ،مگر اب تو ہم اپنے دیس میں اجنبی ہوتے چلے جا رہے ہیں۔یکہ و تنہا۔ ہر پہچان سے محروم۔ہمارے شناختی کارڈ جعلی ثابت کرنے میں صرف آج کا دن باقی ہے۔گاڑی کا ٹوکن ٹیکس ادا کرنے کا بھی آ ٓج آخری دن ہے،اسکے بعد تو ہم سب نے جیلوں میں جانا ہے، کم از کم اشتھارات سے تو یہی ڈر لگتا ہے۔
طارق فاطمی نے ایران اور عربوں سے قربت کی خوش خبری سنائی ہے۔ یہ ایک گزرے زمانے کی بات ہے جب شاعر نے کہا تھا کہ اے چین وانڈو نیشیا، پائندہ ہے تم سے امن ایشیا، اس سے پہلے بھی ایک شاعر ہو گزرے ہیں، جنہوں نے یہ بشارت دی تھی کہ چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا۔مگر آج اس بھری دنیا میں ہمار ا کوئی نہیں، اس لئے نہیں کہ ہم کسی کے بھی نہیں۔ میںکتنی بار کہوں کہ ہم نے بحرین کے بادشاہ کو انگوٹھا دکھایا، بعد میں سعودی عرب کے ولی عہدکو بھی انگوٹھا دکھایا اور اسی پر کیا موقوف، ہم نے پارلیمنٹ اور ٹی وی چینلز پر ان بدووں کی وہ پٹائی کی کہ عرب امارات کے ایک وزیر نے جواب میں ہمیں جلی کٹی سناڈالیں۔ایران ہمارے مقابل کھڑ ا ہے ،ہماری ایک گوادر کے سامنے چاہ بہار اور بندر عباس کی دو بندر گاہیں کھڑی کر رہا ہے، ایک ہمارے ہمسائے بھارت کے تعاون سے ،ا ور دوسری ہمارے ایک اور ہمسائے چین کی مدد سے۔
تنہائی کا سوال ایسا ہے کہ جنرل عاصم باجوہ کی سنیں توجی چاہتا ہے کہ ان پر یقین کریں اور اگر فاطمی ا ور سرتاج کی سنیں تو سارا سچ یہی لگتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ تینوں ایک میز پر سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور فیصلہ کر لیں کہ کیا ہم تنہا ہیںیا نہیں اور اگر ہیں تو کیا ہم اپنی ا س تنہائی کا علاج کرنے کے موڈ میں ہیں یا نہیں اور کیا ان تینوںمیں سے کسی کے پاس اس کا علاج ہے بھی یا نہیں۔
ہم تنہا ہیں یا نہیں، اس کی بحث تو ہوتی رہے گی مگر ایک بات طے ہے کہ کشمیر ی بے چارے یکہ و تنہا ہیں، پاکستان بھی ان کو بھول گیااور عالم ا سلام کو بھی ان کی کوئی ہوش نہیں۔ کوئی اور تنہا ہے تو وہ فلسطینی ہیں۔
اور اگر کوئی تنہا نہیں تو وہ افغان مہاجرین ہیں جن کی میزبانی کے لئے پاکستان پچھلے چالیس برس سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیںکر رہا، کس قدر خوش قسمت ہیں یہ افغان مہاجرین، ان کے شناختی کارڈ اصلی اور ہمارے شناختی کارڈ بھی جعلی۔ اگلے روزمیں ایک آبادی میںکسی سے ملنے گیا تو اس کے دروازے پر کھڑے پہریداروں نے کہا کہ شناختی کارڈ دکھائو، میںنے جیب ٹٹولی، نوائے وقت کا کارڈ نکل آیا، اس پر میرے مرشد محترم مجید نظامی کے دستخط ہیں، میرے لیے یہ جان و دل سے زیادہ عزیز ہے،، گارڈ نے حقارت سے یہ کارڈ واپس گاڑی میں پھینک دیا اور درشت آواز میں بولا، قومی شناختی کارڈ۔اور مجھے کیا معلوم کہ میری قوم کیا ہے۔میں وہاں سے واپس چلا آیا، شاید یہ پاکستان سے باہر کی کوئی آبادی تھی۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024