رئوف کلاسرا کے کالم کا عنوان ہے ’’ہمارے ادیب واپس کر دو‘‘ میں سمجھا کہ وہ صحافت کا آدمی ہے اسے لٹریچر کا کیا پتہ۔ وہ کالم نگاری کو ادب سمجھتا ہو اور یہ کہنا چاہتا ہو کہ عرفان صدیقی ایک قابل ذکر کالم نگار تھا جب سے مشیر ہوا ہے اسے کوئی مشورہ ہی نہیں دیتا کہ تم نے اپنے آپ سے کیا کیا۔ قصیدوں میں یہ شعر لکھ کر بادشاہ سلامت کو بے وقوف بنا لینا غالب ہی کا کام تھا
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
اسے مبالغہ نہ سمجھیں تو کہوں کہ کالم وہی تھے جو برادرم عرفان صدیقی نے نوائے وقت میں لکھے تھے۔ وہ بڑے اہل آدمی ہیں مگر اہل دل نہیں ہیں۔ انہیں شاید معلوم ہو کہ میں کالم نگاری کو سالم نگاری سمجھتا ہوں اور یہ بھی سمجھتا ہوں کہ کالم جلدی میں لکھا ہوا ادب ہے۔ جلدی کرنا برا نہیں ہے مگر جلدی جلدی مچانا اچھا نہیں ہے۔ اس سے جلد بازی جنم لیتی ہے اور میں کسی بھی بازی کو بازیگری سمجھتا ہوں۔ میں نے سمجھا تو میں نے دل میں اطمینان محسوس کیا کہ ہمارے ادیب/ کالم نگار واپس کر و رئوف کلاسرا کی اس دعا کے بعد آمین کہوں۔ اگر یہ مطالبہ ہے تو اس کی حمایت کروں مگر ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں ہمارے مطالبے مانے نہیں جاتے۔
یہ تو میری غلط فہمی تھی جو کلاسرا کے کالم سے پیدا ہوئی۔ اس سے ایک مطلب تو یہ ہے میں کلاسرا کو پڑھتا ہوں۔ اسے سنتا نہیں ہوں۔ میں ڈاکٹر بابر اعوان کو سنتا ہوں ڈاکٹر رئوف کلاسرا کو دوست رکھتے ہیں۔ پروگرام کے آخر میں شاعری بھی سناتے ہیں بالعموم دوسروں کی شاعری ہوتی ہے سناتے اپنی شاعری کی طرح ہیں؟
میں آج بھی عرفان صدیقی کے لئے محبت محسوس کرتا ہوں۔ وہ میرے گھر دوچار بار آئے تھا۔ ایک بار تو میجر عامر بھی ساتھ تھے۔ میرے گھر میں میری امی سے میری بیٹی کو قرآن پڑھتے دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔ پھر وہ کبھی نہ آئے ان کا قصور نہیں ہے۔ پھر وہ مشیر یعنی آدھے وزیر شذیر یعنی ایک چوتھائی حکمران ہو گئے۔ ان کا شکریہ کہ وہ میرے گھر نہیں آئے۔
رئوف کلاسرا کے کالم میں جو چیز مجھے بری لگی وہ یہ تھی کہ وہ کراچی کے مہاجر یعنی اردو سپیکنگ بیوروکریٹ کی اجارہ داری کی بات کرتے کرتے مہاجر ادیبوں تک آ پہنچے۔ یہ سفر ہی غلط ہے؟ یہ کبھی نہیں ہوا۔ اگر کوئی اکا دکا بیوروکریٹ ادیب و شاعر ہوا بھی ہے تو وہ پنجاب کا بیوروکریٹ تھا۔ قدرت اللہ شہاب، الطاف گوہر، مختار مسعود بہت اردو بولنے والے تھے مگر وہ رہے ہمیشہ لاہور میں۔ رئوف نے ضرور پڑھا ہو گا۔ میں نے بیوروکریسی کو براکریسی کہا۔ سرائیکی رئوف کلاسرا انجوائے کرے گا۔ چنگا نہ کریسی بُرا کریسی۔
پھر رئوف نے کراچی کے ادیبوں شاعروں کی تعریفیں شروع کر دیں۔ مجھے اس پر اعتراض نہیں۔ اس نے جو نام لئے وہ میرے اتنے شناسا نہیں ہیں۔ میں خیال امروہوی کو جانتا ہوں جو رئوف کے سرائیکی علاقے لیہ میں جا بسے۔ وہاں کے ایک نسیم لیہ بھی تھے شاید ان کا نام رئوف نے نہیں سنا ہو گا۔ جمیل الدین عالی، رئیس امروہوی مگر جون ایلیا اور مشتاق یوسفی اور فاطمہ حسن کو وہ بھول گئے۔ شکیل عادل زادہ کا ’’سب رنگ‘‘ بہت یاد رہا رئوف کلاسرا کو مگر سب رنگ میں ادب شائع نہیں ہوتا تھا۔ اسے ادب نما بھی نہیں کہا جا سکتا ایک طویل فہرست ہے نیم ادبی کیفیتوں کی جس نے رئوف کو میچور کیا اسے رومانس سکھایا۔ رئوف بتائے کہ گائوں کی الہڑ مٹیار کو رومانس کراچی کے کس نیم ادیب نے سکھایا۔
مجھے رئوف کے جس جملے نے بہت دکھ دیا اور اس میں کوئی تعصب نہیں میں کراچی کے شعر و ادب والوں کو سلام کرتا ہوں مگر تفریق کیوں پیدا ہوئی۔ اس نے کہا کہ پنجاب میں کراچی والوں کے پائے کا ادیب شاعر پیدا نہ ہو سکا اور اس نے غیر ادیب فنکاروں کی مثال دے دی۔ عمر شریف، معین اختر، حسینہ معین، انور مقصود وغیرہ وغیرہ۔
تو پھر سہیل احمد عزیزی کہاں کا ہے۔ دلدار بھی، امان اللہ، قوی خان، استاد امانت علی، ملکہ ترنم نور جہاں۔ میں رئوف کلاسرا کی خدمت میں بابائے صحافت ظفر علی خاں کا ایک شعر پیش کرتا ہوں۔ کراچی میں بابائے صحافت اور شورش کاشمیری کے مرتبے کا کوئی آدمی ہے
حاسدان تیرہ باطن کو جلانے کے لئے
تجھ میں اے پنجاب اقبال و ظفر پیدا ہوئے
اگر حاسدان تیرہ باطن کو برادرم رئوف نہیں جانتے تو پھر میں کیا کروں؟ علامہ اقبال کو ساری دنیا مانتی ہے مگر کراچی والے علامہ اقبال کو نہیں مانتے کہ وہ پنجابی ہے۔ کلاسرا بھائی ان سے منوا لیں تو مانیں!
مجھے برادرم رئوف کلاسرا کا یہ پیراگراف بہت پسند آیا۔ اس میں وہ درد اور اذیت بھی ہے جو یہ کالم لکھتے ہوئے اس کے لہو میں رینگتی رہی ہے۔ ’’اور پھر تشدد شروع ہوا۔ ایک دوسرے کے گلے کاٹے، خون بہایا اور اب کوئی بھی کراچی میں نہیں رہا۔ باقی چھوڑیں شکیل عادل زادہ تک نے ’’بازی گر‘‘ لکھنا چھوڑ دیا اسد محمد خان نے ’’ناخدا‘‘ لکھنا بند کر دیا۔ اس نے شکیل سے کہا کہ ’’سب رنگ‘‘ کیوں بند کر دیا۔ شکیل عادل زادہ بولا کوئی بچا ہی نہیں لکھنے والا۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ اب ادیب نہیں رہے جو متحدہ ہندوستان کے وقت سے چلے آ رہے تھے۔ وہ نہ رہے تو ادب بھی اپنی موت آپ مر گیا۔ ان کی جگہ کسی لولے لنگڑے کانے کن ٹٹے نے لے لی۔ کسی کے ہاتھ میں ٹی ٹی پستول آ گیا تو پھر چل سو چل۔ کسی نے آواز اٹھائی تو دوسرے دن اس کی بوری بند لاش ملی۔ کوئی سڑک کنارے مارا گیا کسی کو گھر میں گھس کے مار دیا گیا۔ کہتے ہیں مہاجروں نے پاکستان بنایا تھا۔ یہی لوگ دشمن ملک سے پیسے لے کر دہشت گردی کر رہے ہیں۔ جس ملک سے آزادی لے کے وہ کراچی آئے تے اسی کے روپوں سے غلامی بانٹنا شروع کر دی۔اردو ہماری قومی زبان ہے۔ علامہ اقبال میر و غالب سے بھی بڑا شاعر ہے۔ منیر نیازی جیسا تاریخ اردو ادیبات میں نہیں ہے مگر انہیں صرف پنجابی سپیکنگ کہہ کر نظرانداز نہ کریں۔ اردو سپیکنگ نے آج تک اردو زبان کے لئے کچھ کیا ہے اسے ایک علاقائی جماعتی زبان بنا کے رکھ دیا ہے؟ ایم کیو ایم کراچی یونیورسٹی میں چند طلبہ نے بنائی تھی۔ وہ آج تک سیاسی جماعت نہیں بن سکی۔ مشرف، زرداری، نواز شریف سے اقتدار شیئر کیا لیکن انداز آج بھی وہی کراچی یونیورسٹی والا ہے۔ پھر مشرف کے این آر او کے تحت اپنے دس ہزار مقدمات ختم کروائے۔
فوجی عدالتوں کے خلاف بات کرنے والے بتائیں کہ این آر او بھی فوجی عدالت کا فیصلہ ہے جسے سب نے تسلیم کیا ہے۔ جنرل مشرف کو ایم کیو ایم آج بھی استعمال کر رہی ہے رئوف صاحب آخر میں کہتے ہیں کہ خدارا ہمیں اپنے ادیب واپس دے دو۔ اس کے لئے اس نے متحدہ ہندوستان والوں کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ ہمیں نہیں چاہئیں ہندوستانی ادیب شاعر۔ ہم پاکستانی ادیب اور شاعروں کی بات کرتے ہیں۔ پنجاب کے شاعر ادیب پاکستانی ادیب شاعر ہیں۔ اشفاق احمد، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، انور مسعود۔ سرائیکی رئوف کلاسرا نے شاکر شجاع آبادی کا نام سنا ہے۔ ان جیسا ایک شاعر بھی کراچی سے لائیں۔ میں کراچی اور لاہور کا موازنہ نہیں کر رہا ہوں۔ اب تو اسلام آباد بھی ایک ادبی مرکز بن رہا ہے۔ کراچی لاہور اسلام آباد کی تقسیم مناسب نہیں ہے۔
آخر میں رئوف کلاسرا کے شہر اسلام آباد راولپنڈی کے ایک بے پناہ شاعر اور استقامت والے نظریاتی اور صاحب نظر دانشور جلیل عالی کی ایک نظم دیکھیں جو انہوں نے ہارٹ بائی پاس کے فوراً بعد لکھی۔ تب عالی کے پاس ایک جینوئن اور عظیم مزاح گو گہرا اور پکا شاعر جو ہنسی میں بھی معنویت اور درد کی کیفیتیں گھول دیتا ہے ورنہ لطیفے منظوم کرنے والے جعلی شاعر سیاسی وفاداری کے انعام کے طور پر بڑے بڑے عہدے پانے والے کو جلیل عالی کے احساس کا کب پتہ چلے گا
یہ آئینے سے مجھ کو کون تکتا ہے
شباہت میرے جیسی ہے مگر یہ اور ہے کوئی
لہو کی حیرتیں چہروں پہ کب تصویر ہوتی ہیں
کہانی میں سفر کرتی کہانی نے نیا جو موڑ کاٹا ہے
وہ کیسے عکس بن جائے
ارمانوں سے دماغ اندر دھری ہر چیز نے اپنی جگہ تبدیل کر لی ہے
میں گِرد و پیش کی ہر شے بہت نزدیکیوں
اور بے نہایت دوریوں سے دیکھ سکتا ہوں
مرے سینے کے ڈربے میں نہیں آنکھوں کے اندر دل دھڑکتا ہے
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38