وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ کشمیر کی آزادی پاکستان کے ہرفرد کی اولین دلی خواہش ہے، مسئلہ کشمیر پر حکومت کا موقف پاکستان کے عوام کی ترجمانی کرتا ہے، پاکستان کشمیریوں کی سفارتی ، سیاسی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا، وزیراعظم کی کشمیر کےلئے سب سے زیادہ قربانیاں ہیں، واجپائی کو لاہور لانے اور بھارت کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کےلئے آمادہ کرنے والے نواز شریف ہی تھے، واجپائی کے منہ سے نکلوانا کہ 99ءکا سال مسئلہ کشمیر کے حل کا سال ہے، بڑی کامیابی تھی۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور قتل عام کے معاملے پرپاکستان نے دو اگست کو پارلیمنٹ کا مشترکا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ روز وزارت خارجہ نے پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کی توجہ مبذول کرانے کے لیے امریکہ، یورپ اور دیگر ملکوں میں وفود بھی بھیجے جائیں گے جو بھارت کے وادی میں تازہ ترین تشدد کے واقعات اور کشمیر کاز کو اُجاگر کرنے میں مدد دیں گے۔ ایک اور افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے اور اس کے مظالم کو دنیا کے سامنے آشکار کرنے کے لئے فیس بک پر جو مواد ڈالا جا رہا تھا‘ فیس بک انتظامیہ اسے فیس بک سے ہٹاتی جا رہی ہے۔ تاہم یہ مواد اتنا زیادہ ہے اور ہر پاکستانی اسے اتنا شیئر کر رہا ہے کہ فیس بک بھی اپنے مقاصد میں اس طرح کامیاب نہیں ہو سکی جس طرح بھارت کشمیر میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کے باوجود کامیاب نہیں ہو سکا۔
ہم بھارت کے سیکولر ہونے کو روتے تھے‘ اب فیس بک نے وہی کام شروع کر دیا ہے۔ مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کے خلاف ہر جگہ گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ فیس ب±ک سے کشمیریوں کی حمایت میں پیغامات اور تصاویر ہٹانے پر اس کے مالک مارک ذکربرگ کے خلاف عالمی عدالت میں درخواست دی جانی چاہیے کیونکہ فیس بک پر اس طرح کا حقیقی مواد بھی شیئر کرنا جرم ہے اور اسے بھی فیس بک انتظامیہ برداشت نہیں کر سکتی تو پھر کس منہ سے یہ امریکی اور یورپی لوگ اپنے آپ کو آزادی رائے کا قدر دان گردانتے ہیں۔ ان کے اپنے ملک میں پٹاخہ چل جائے تو یہ مرے جاتے ہیں اور یہاں لوگوں کی جانوں‘ عصمتوں کو لوٹا جا رہا ہے لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ فیس بک انتظامیہ کو اس سلسلے میں غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ایک طرف بھارت دن کی روشنی میں کشمیر میں بے پناہ مظالم ڈھا رہا ہے‘ چھرے والی ممنوعہ بندوقوں سے سیدھے فائر کر کے سینکڑوں لوگوں کی بینائی چھین چکا ہے‘ انہیں عمر بھر کے لئے معذور کر رہا ہے اس پر بھارتی غنڈہ گردی کی پردہ پوشی عالمی سطح پر بھی جاری ہے۔ فیس بک مقبول سوشل میڈیا ہے اس پر اظہار رائے کا حق سب کو حاصل ہونا چاہیے، فیس بک پر عوام کی پوسٹس سے عالمی برادری کو سبق سیکھنا چاہئے۔ مقبوضہ کشمیر میں پیلٹ گن کے استعمال سے بہت سے لوگوں نے اپنی بینائی کھو دی ہے۔
شکر ہے کہ حکومت پاکستان نے کشمیری عوام کیلئے ہر فورم پر آواز بلند کرنے کی ٹھان لی ہے۔کشمیر کو پاک بھارت تمام تنازعات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اور بھارت کے ساتھ مذاکرات میں کشمیر کو بنیادی حیثیت حاصل رہے گی۔
ادھر مقبوضہ کشمیر میں 21 ویں روز بھی کشیدگی برقرار رہی۔ وادی میں کرفیو نافذ ہے۔ حریت رہنماﺅں کی جانب سے بھارتی مظالم کے خلاف ہڑتال جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض انتظامیہ کا ظلم وستم تھما نہیں ، گزشتہ روز بھی مظاہرین اور بھارتی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں ، وادی میں تعلیمی ادارے اور ٹرانسپورٹ بند ہے ،حریت رہنما سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کو گھروں میں نظر بند کردیا گیا ہے۔ ایک جانب بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے او ر دنیا کو یہ بتاتا ہے کہ کشمیری نہ تو خودمختاری چاہتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواہشمند ہیں بلکہ وہ صرف اور صرف بھارت کے ساتھ الحاق کے متمنی ہے۔ کوئی بھارت سے یہ پوچھے کہ اگر کشمیری بھارت کی محبت میں اتنے ہی مرے جا رہے ہیں تو پھر کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوجی کیا کر رہے ہیں۔ کیا وہ وہاں پر سیروتفریح کے لئے گئے ہیں ۔ اگر کشمیری عوام کو بھارت سے کوئی گلہ نہیں ہے تو پھر آئے روز وہ آزادی کے لئے جلوس کیوں نکالتے ہیں۔ کیوں وہاں پاکستانی پرچم لہرائے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کو یادداشتیں کس چیز کی پیش کی جاتی ہیں۔ بھارت جتنا مرضی تشدد کر لے وہ حقیقت کو نہیںجھٹلا سکتا اور حقیقت یہی ہے کہ کشمیری عوام بھارتی تسلط اور غاصبانہ قبضے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کے ساتھ الحاق تو کیا اس کی وادی میں ذرا بھر بھی مداخلت گوارا نہیں کرتے۔ اس نے کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ سفاکانہ،وحشیانہ، اذیت ناک اورانسانیت سوز سلوک روا رکھا ہوا ہے۔ کشمیری پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں لیکن انہیں سفاک مودی حکومت حق خود ارادیت دینا نہیں چاہتی۔ اس بار تو انتہا کر دی گئی اور پاکستانی پرچم تھامنے اور حق مانگنے پر دو سو سے زائد کشمیریوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔اس کے باوجود ان کے جوش و جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی۔
کشمیر کے حوالے سے حکومت پاکستان کا موقف بالکل درست ہے کہ کشمیریوں کی منشاءکے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے۔ کشمیریوں کو حق خودارادیت دیتے ہوئے ان پر فیصلہ چھوڑ دیا جائے ۔ صرف کشمیری ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمان بھارتی جارحیت سے تنگ آچکے ہیں۔ آئے روز بھارت کی ریاستی تشدد کے واقعات سن کر ہر ذی روح کا خون کھول اٹھتا ہے۔ بھارت آزادی کا علمبردار بنا پھرتا ہے مگر وہاں مسلمانوں کو گوشت کھانے اور خریدنے پر قتل کردیا جاتا ہے۔ یہ کیسی آزادی ہے۔ جس مسلمان کو ٹارگٹ کرنا مقصود ہو، اس پر یہ الزام لگا دیا جاتا ہے کہ اس نے گائے کا گوشت کھایا یا پھر گائے ذبح کی۔ ایسے متعدد واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں اور عالمی برادری کے سامنے لائے بھی گئے ہیں لیکن دوسری طرف سب کو سانپ سونگھ چکا ہے۔
بھارتی سیکولر سٹیٹ نے مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ، فون، اخبارات اور میڈیا سمیت تمام رابطوں کے ذریعے کیوں بند کر دیئے ہیں؟ بھارتی فوج کی نہتے کشمیریوں پر فائرنگ، شیلنگ سے علاقے کی زندگی اجیرن کیوں کر دی گئی ہے؟ کئی دنوں سے وہاں کرفیو نافذہے۔ اجناس، روزمرہ کی اشیاءختم ہو چکی ہیں لیکن درندہ صفت بھارت کو کشمیری نوجوانوں تو کیا بچوں‘ بوڑھوں اور خواتین کی بھی پروا نہیں۔ وہ انہیں بھوکا مارنا چاہتا ہے۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم نواز شریف کشمیر پر دوٹوک موقف اختیار نہ کرتے تو بھارت آپے سے باہر ہو جاتا۔سشما سوراج نے اس مسئلے پر پاکستانی حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کی کوشش کی تو سرتاج عزیز اور دفتر خارجہ نے بھی سخت ردعمل ظاہر کر کے اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ آزاد جموں کشمیر میں پاکستان مسلم لیگ نواز شریف کی کامیابی سے بھی بھارت کو پیغام گیا ہے کہ کشمیری متحد ہیں۔
بھارت صرف ظلم کرنا جانتا ہے‘ وہ کشمیریوں کی آواز جتنی دبائے گا یہ اتنا ہی پھیلے گی۔ کشمیر پر یوم سیاہ‘ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس اور بیرونی دنیا میں وفود بھیجنے جیسے اقدامات سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کا موقف کھل کر سامنے آئے گا اور عشروں سے وادی میں جاری بھارتی جارحیت سے بھی پردہ اٹھانے میں مدد مل سکے گی۔ جب تک کشمیری بھائیوں کو ان کا حق نہیں مل جاتا‘ پاکستانی حکومت اور عوام بھی چین سے نہیں بیٹھیں گے۔