عمران خان کو جس کسی نے دھرنے پہ آمادہ کیا،اس نے پاکستانی سیاست اور جمہوری نظام پر بڑا احسان کیا، اس دھرنے نے عمران خان کی اوقات ثابت کر دی۔بڑا لیڈر بنا پھرتا تھا۔
وہ محض ایک کھلاڑی ہے، سیاست کو بھی ا سنے کھیل سمجھ لیا تھا، کھیل بچوں کا ہوا، اس نے کھیل کی طرح یہاں بھی چوکے چھکے لگانے کی کوشش کی ا ور مخالف ٹیم کو آئوٹ کرنے کے لئے ایمپائر کی انگلی کی طرف دیکھا۔اسے کون سمجھاتا کہ بھولے بادشاہ ! یہ سیاست کا میدان ہے، یہاں عوام آئوٹ کرتے ہیں اور وہ بھی بیلٹ باکس کے ذریعے۔
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ لیک ہوئی تو میںنے عمران کا کچا چٹھا کھولا۔ پی ٹی آئی کے جنونیوںنے مجھے دھمکیاں دیں کہ خوب نبٹ لیں گے، اگلے روز وزیر اعظم نے تقریر جھاڑ دی، اس پر بھی میںنے کچھ لکھا ، اس بار حکومت کے لوگوںنے دھمکیاں دیں کہ خوب نبٹ لیں گے۔ کیسا وقت آیا ہے کہ لکھنے پر لوگ ناراض ہوتے ہیں حالانکہ انہیں اس آئینے میں اپنی شکل بری نظر آتی ہے تو شکل کو درست کریں ،ا ٓئینے کو توڑ نے سے شکل ٹھیک نہیں ہو سکتی۔
پچھلے چند دنوں کی ساری صورت حال پر نظر ڈالنے سے انسان کو ابکائی آنے لگتی ہے۔عمران نے بیان بازی کی حد ہی کر دی اور حکومت کا پیمانہ صبر بھی لبریز ہو گیا، وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وہ معاہدہ پارلیمنٹ کے ریکارڈ کے لئے پیش کر دیا جس پر عمران خان کے دستخط تھے اور جس کی پابندی ان کے لئے لازم تھی مگر زرداری نے ایک بار کہا تھا کہ معاہدے اور وعدے قرآن و حدیث تو نہیںہوتے، عمران ا ور اس کی پارٹی نے بھی زرداری کے قول پر عمل کیا۔ اور خجالت ان کے حصے میں آئی۔ اب پی ٹی آئی پر دبائو بڑھ گیا ہے، مولانا فضل الرحمن پی ٹی آئی کے ارکان کو اسمبلی کے اندر نہیں دیکھنا چاہتے، اس مقصد کے لئے ایک قرارداد بھی آ گئی ہے، یہ عمران اورا س کے ساتھیوں کے سر پہ ننگی تلوار ہے، ویسے اصولی بات تو یہ تھی کہ انہوںنے استعفے دیئے تھے تو گھر بیٹھتے یا پھر ڈی چوک میں جمے رہتے، یہ دونوں کام ان کے بس میںنہ تھے، انہو ںنے غیر حاضری کی تنخواہ بھی وصول کی، قومی خزانہ مال مفت ہے، جس کا جی چاہے،اس پر بے رحمی سے ہاتھ صاف کرتا ہے۔
جونیجو کی اسمبلی ٹوٹی، اسے عدالت میں چیلنج کر دیا گیا، اس اثنا ء میںنئے الیکشنوں کا بھی اعلان ہو گیا، عدلیہ نے فیصلہ دیا کہ اسمبلی تو غلط ٹوٹی تھی مگر نئے الیکشن ہو رہے ہیں ،ا س لئے بہتر ہے کہ نئی اسمبلی چن لی جائے، مردہ اسمبلی کو زندہ نہیں کیا جاسکتا۔ ٹوٹی ہوئی اسمبلی ا ور حکومت بحال نہ کی گئی۔ یعنی امر واقعہ کو تسلیم کیا گیا۔ دو روز پہلے بھارت میں ایک خاتون جج نے چودہ سالہ لڑکی کو ابارشن کی اجازت نہیں دی، ا سلئے کہ بھارتی قانون کے مطابق تین ماہ کے بعد ابارشن کی اجازت نہیں۔بے چاری لڑکی کے والد نے استدعا کی تھی کہ وہ ایک غریب شخص ہے اور اس ناجائز بچی کی پرورش کرنے سے قاصر ہو گا مگر جج نے فیصلے میں لکھا کہ ا مر واقع یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں بچے کاکوئی قصور نہیں، اس کے قتل کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے،ا س نے تو پیدا ہونے کی خودکوئی درخواست نہیں کی۔
اب جو ہو گیا ، سو ہو گیا، الیکشن منصفانہ ہوئے یا دھاندلی زدہ تھے۔ یہ ہو گئے، اسمبلیاں بیٹھ گئیں، حکومتیں بن گئیں ، یہ ایک امر واقعہ ہے۔ اسے ریورس نہیںکیا جاسکتا۔اس کے ساتھ ہی نباہ کرنا ہو گا۔اور جب عمران ا ورا س کی پارٹی نے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو تسلیم کر لیا تو پھر اس میں مینگیناں کیوں ڈال رہے ہیں۔اصل میں عمران سیاسی پرندہ نہیں، اس پر مستزاد یہ کہ اس کے مشیر غلط ہیں، بہت کچھ خلط ملط کر رہے ہیں، دوسری طرف حکومتی ٹیم میں ایک سے ایک گھاگ بیٹھا ہوا ہے، ایک پرویز رشید کا مقابلہ ممکن نہیں، پھر خواجہ سعد رفیق ہیں،خواجہ آصف ہیں ، چودھری نثار ہیں اور شہباز شریف ہیں۔ان کی چالیں خوب سوچی سمجھی ہیں،ان کی سوچ میں پختگی ہے،وہ زمانے کے گرم و سرد چشیدہ ہیں۔
عمران کو جلدی سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا میں جہاں کہیں جمہوریت ہے، وہاں زیادہ تر دو پارٹیاں ہیں۔ اس کو مک مکا کہہ لیں یا جمہوریت کا حسن کہہ لیں، امریکہ میں بھی باری باری کا سسٹم چل رہا ہے، برطانیہ میں یہی نظام ہے اور ہمارے پڑوس بھارت میں بھی یہی کھیل دیکھنے کو ملتا ہے۔ جمہوریت میں تیسری جنس کو چانس کم کم ہی ملتا ہے اور اتنا چانس تو پی ٹی آئی کو مل چکا، ایک صوبے کی حکومت کر لی، اور کیا چاہئے، وہاں قابل تقلید حکومت چلا لیتے تو آگے چل کر ایک چانس اور مل سکتا تھا مگر اس کارکردگی کے ساتھ تو اب عمران سے خالی خولی ہمدردی کرنے ولا بھی کوئی نہیں،ا سکی پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، نامی گرامی ساتھی آمادہ بغاوت ہیں، اور جسٹس وجیہہ الدین نے تو پارٹی کا کچھ نہیں چھوڑا تھا، مگر پی ٹی آئی اب بھی اترا ر ہی ہے ، نجانے کیوں اترا رہی ہے۔اسے تومنہ چھپانے کی ضرورت تھی۔
پی ٹی آئی سیاسی پارٹی کبھی نہیں بن سکی، یہ ایک ٹرانزٹ پارٹی کا کام دے رہی ہے، دوسری جماعتوں کے بھگوڑے ا سے شجر سایہ دار سمجھ کر اس کی چھائوںمیں آجاتے ہیں،۔ جیسے صحرا میں پیاسا سراب پر قناعت کرتا ہے۔ اس پارٹی کو تحلیل ہونا ہے، آج نہیں تو کل۔محض پیسے کے زور پر تو پارٹیاں نہیں چلتیں اور نہ دھرنے بازی سے کچھ ہاتھ آتا ہے۔ دھرنے نے عمران کو ایک نئی بیوی ضرور دی۔ سوشل میڈیا اس اضافی شخصیت کے لتے لے رہا ہے، کبھی اسے سیلاب زدگان کا چارٹرڈ جہاز سے مسکر امسکرا کر جائزہ لیتے دکھاتا ہے ، کبھی بنوں کی طرف جاتے سینکڑوں گاڑیوں کے پروٹوکول کا منظر سامنے لاتا ہے ا ور دل جلے ان پر وہ کمنٹ کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ! یہ سب کچھ سننے اور سہنے کے لئے پہاڑ جیسا حوصلہ چاہیے، عمران نے اپنی کتاب میںلکھا ہے کہ اس کی پہلی بیوی جمائمہ کے لئے یہ ماحول ناقابل برداشت تھا۔اب ریحام خان کے حوصلے اور برداشت کا امتحان ہے۔یہ خاتون پارٹی بھی چلانا چاہتی ہے، پارٹی پر عمران کا دبائو کچھ کم نہیں تھا۔ اب یک نہ شد دو شد۔پارٹی اس بوجھ تلے کراہ رہی ہے، یہ بنی گا لہ کے وسیع وعریض لائونج کا ڈیکو ریشن پیس بننے سے انکاری ہے۔
وزیر اعظم نے ٹھیک کہا تھا کہ الزامات کی سیاست کو پیچھے چھوڑ کر اکٹھے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، عمران خاں کومفاہمت کی سیاست کی طرف آنا ہو گا، ورنہ فنا کو گلے لگانا ہو گا۔وزیر اعظم جیسا حوصلہ کہاں سے آئے گا، عمران زخمی ہوا تو نواز شریف نے اس کی عیادت کی، وہ بنی گالہ میں چائے پینے بھی چلے گئے، اب عمران کو جاتی امرا جانا ہی پڑے گا۔ بقاا ور فنا میں سے اسے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ وہ جوشیلا ہے، اس کے کارکن جنون سے لبریز ہیں مگر ا سکے ساتھی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں، انہیں عمران کے مفاد سے کوئی غرض نہیں، کیا عمران کو بھی ان کے مفاد سے لا تعلق نہیں ہو جانا چاہئے، تحریک انصاف کی صحت کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے، ورنہ تحریک انصاف، عمران ا ور اس کے ساتھیوں کے لئے تضحیک انصاف ثابت ہو گی۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024