ورلڈ الیون کی آمد آمد ہے، پاکستان کرکٹ بورڈ اس حوالے سے تیاریوں میں مصروف ہے۔ اس دورے کے کامیاب اور پرامن انعقاد کے بعد ہی سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کے دورہ پاکستان کی راہ ہموار ہو گی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں، صوبائی حکومت اور اس عمل میں شامل تمام افراد اور اداروں پر ورلڈ الیون کے دورے کو کامیاب بنانے کے لیے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ رواں سال کے شروع میں ہم پاکستان سپر لیگ فائنل کے کامیاب انعقاد سے بیرونی دنیا کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوئے تھے ایسی ہی کارکردگی کی اب بھی ضرورت ہے بلکہ انتظامات میں مزید بہتری ہو تو مستقبل میں غیر ملکی ٹیموں کو قائل کرنے میں زیادہ آسانی ہو سکتی ہے۔ ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی بہر حال خوش آئند ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے دو ہزار نو سے ابتک بین الاقوامی کرکٹ سے محروم رہنے کی وجہ سے ہمیں بہت نقصان پہنچا ہے۔ ورلڈ الیون کے خلاف میچز کی تیاریاں ہر جگہ ہو رہی ہیں۔ میڈیا بھی اپنا کردار مثبت انداز میں نبھاتے ہوئے نظر آ رہا ہے گزشتہ دنوں پاکستان ٹیلیویڑن لاہور سنٹر سے اس حوالے سے راجہ اسد علی خان نے ایک خصوصی پروگرام کی میزبانی بھی کی۔ پروگرام میں لاہور کے مئیر کرنل ریٹائرڈ مبشر جاوید،لاہور ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن اور پی سی بی گورننگ بورڈ کے رکن خواجہ ندیم احمد،سابق چیف سلیکٹر اظہر خان کے ساتھ ہم نے بھی شرکت کی۔ میئر لاہور کا کہنا تھا کہ وہ اس تاریخی موقع پر بھرپور انتظامات کریں گے۔ لاہور کی ثقافت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا بہترین موقع ہے۔ مہمان نوازی میں زندہ دلان لاہور عالمگیر شہریت رکھتے ہیں اور ہم اس روایت کو برقرار رکھیں گے۔ خواجہ ندیم احمد کا کہنا تھا کہ لاہور ریجنل ایسوسی ایشن بھی کرنٹ بورڈ سے مکم تعاون کرے گی۔ ورلڈ الیون کی پاکستان آمد سے ملک میں غیر ملکی ٹیموں کی آمد کا سلسلہ آسان ہوگا۔ اظہر خان کہتے ہیں کہ ستارز سے سجی ٹیم کا قذافی سٹیڈیم میں کھیلنا نیک شگون ہوگا۔ نجم سیٹھی کہہ رہے کہ ہم پر زیادہ تنقید نہ کریں اور نہ ہی زیادہ تعریف، ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔ کامیابی ملتی ہے تو کرکٹرز کی واہ واہ ہوتی ہے ناکامی کی صورت میں کرکٹ بورڈ افسران کو برا بھلا کہا جاتا ہے روایت ختم ہونی چاہئے۔اسی طرح الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر ورلڈ الیون کی آمد پر خصوصی تیاریاں جاری ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے ورلڈ الیون کے خلاف تین ٹونٹی ٹونٹی میچوں کے لئے ٹکٹوں کی قیمتوں کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس مرتبہ قیمتیں کم رکھی گئی ہیں۔ عید الاضحیٰ کے بعد مختلف انکلوژرز کی ٹکٹیں شائقین کرکٹ چھ ہزار، چار ہزار، پچیس سو اور پانچ سو روپے میں خرید سکیں گے۔ ٹکٹوں کی فروخت کے لیے موبائل یونٹس قائم کیے جائیں گے جبکہ آن لائن بھی ٹکٹیں فروخت کی جائیں گی۔ بینک آف پنجاب کی مختلف شاخوں پر بھی پاکستان اور ورلڈ الیون کے مابین کھیلے جانے والے میچوں کی ٹکٹیں دستیاب ہونگی۔ پاکستان سپر لیگ فائنل کے موقع پر ٹکٹوں کی قیمتیں بہت زیادہ تھیں اس مرتبہ شائقین کرکٹ کو اس حوالے سے بھی خوشخبری ملی ہے۔ ٹکٹوں کی قیمتوں میں کمی خوش آئند ہے انکی فروخت میں بھی شفاف طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ سٹیڈیم آ کر ان تاریخی لمحات سے لطف اندوز ہو سکیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس موقع پر معذور افراد اور کرکٹرز کو مفت ٹکٹس جاری کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ جہاں درجنوں اہم شخصیات کو وی آئی پی باکسز میں بیٹھ کر میچ دکھانے کا بندوبست کرتا ہے۔ اس موقع پر بورڈ کو ایک باکس اپنے سابق کرکٹرز کے لیے بھی مختص کر دینا چاہیے۔کیا یہ طریقہ سابق کھلاڑیوں کو دو دو ٹکٹیں بھیجنے سے بہتر نہیں ہے۔ کرکٹرز ساتھ مل بیٹھیں گے ماضی کی یادیں تازہ کریں گے اور ٹیلیویژن پر دیکھنے والے بھی اس منظر سے لطف اندوز ہونگے۔
جہاں ورلڈ الیون کی پاکستان آمد پر خوشی کا سماں ہے وہیں اس موقع پر کرکٹ بورڈ پر بھاری مالی اخراجات کے حوالے سے بھی خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں زمبابوے کی پاکستان آمد پر بھی کرکٹ بورڈ کو مالی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ کیا جب بھی غیر ملکی ٹیم پاکستان آئے گی ہمیں ایسی ہی صورتحال کا سامنا رہے گا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اس حوالے سے ٹھوس منصوبہ بندی کیوں نہیں کرتا۔ جہاں تک ورلڈ الیون کے خلاف میچز کا تعلق ہے اس سیریز کے سپانسرز کی کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں مل رہی۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو ملک کے مقبول ترین کھیل کے لیے بھی بڑے سپانسرز تلاش کرنے اور انہیں قائل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ حیرت ہے یہ حساب کتاب، گفتگو اور مالی معاملات پر گہری نگاہ رکھنے والے بورڈ کے نو منتخب چیئرمین نجم سیٹھی کی آنکھوں سے کیوں اوجھل ہے؟؟؟ ورلڈ الیون کی آمد خوش آئند ہے لیکن اس خوشی میں ممکنہ مالی نقصان کو نظر انداز کرنا کیا درست ہے اسکا فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔