جب پاکستان گئی تھی امریکہ میں صدر اوباما کی حکومت تھی ، سات ماہ بعد امریکہ واپس آئی تو ٹرمپ کا امریکہ بن چکا ہے۔ پوری دنیا سے پروازیں براہ راست امریکہ آتی ہیں سوائے پاکستان کے۔ پاکستان سے پروازوں کا براہ راست امریکہ میں داخلہ منع ہے۔ البتہ پاکستان کی قومی ائرلائن کو نیویارک سے براہ راست لاہور جانے کے اجازت ہے لیکن واپسی ڈائریکٹ فلائٹ کی سہولت میسر نہیں۔ امریکہ کو پاکستان پر اعتبار نہیں۔ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر پی آئی اے کو کسی یورپین ملک میں اتارا جاتا ہے۔ دوبارہ سخت سکیورٹی اور سامان کی تلاشی کا مرحلہ بھگتنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود پی آئی اے کے مسافروں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی مسافروں کی خاصی تعداد نے قومی ائرلائن پر سفر کرنا ترک کر دیا ہے۔ غیر ملکی ائرلائنز جن میں ابو ظہبی کی اتحاد اور ترکی ائرلائن مقبول ہو گئی ہیں۔ امریکی امیگریشن کا مرحلہ بھی بیرون ملک ہونے لگا ہے۔ جس کی وجہ سے امریکہ داخلہ کے وقت امیگریشن نہیں ہوتی۔ ہم نے ایک ماہ سعودی عرب اور چھ ماہ پاکستان میں گزارے۔ عوام کے ساتھ دن رات فلاحی کام کیا۔ امریکہ واپسی پر سوچا ٹرمپ کا امریکہ نہ جانے کیسا ہو گا۔ ہوائی اڈوں اور امیگریشن کے مراحل سے ٹرمپ کے امریکہ کا احساس نہیں ہوا۔ البتہ بیٹے نے کہا کہ وہ اپنے بچے کی ٹرمپ کے امریکہ میں پرورش کے بارے میں کنفیوز ہے۔لیکن بیٹا یہ بھی تو سوچو کہ ایک منافق معاشرے میں پرورش کرنے کی نسبت کافر معاشرے میں پرورش قدرے آسان ہے۔برائی اور بے راہ روی پر اپنے بچے کو یہ تو جواز پیش کرسکو گے کہ یہ غیر مسلم ہیں لیکن ایک نام نہاد مسلم معاشرے میں منافقت، گمراہی، بے راہ روی پر بچے کو کیا جواز دو گے ؟۔ بیٹے سے بات کرتے ہوئے میری یادداشت ماضی میں پلٹ گئی جب میں بھی اپنے بچوں کی پرورش کافر معاشرے میں نہیں کرنا چاہتی تھی اور اپنے شوہر کی اعلیٰ جاب چھڑا کر سعودی عرب ہجرت کی۔بچوں کو ریاض کے پاکستانی انگلش سکول میں داخل کرا دیا۔ امریکہ میں اسلامی سکول میں زیر تعلیم تھے۔ سعودی عرب کے اندرون خانوں میں ماشااللہ جو اسلام پریکٹس ہو رہا ہے اس نے ہم بڑوں کو بھی کنفیوز کر دیا۔ بچوں کے ننھے ذہنوں میں جنم لینے والی حیرانیوں کا حل فقط حرمین شریفین کی زیارت تھا۔ حرم شریف کے ماحول نے بچوں کو دلاسہ دئیے رکھا ورنہ اس ملک کے حالات امریکہ کی آزادی کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ پاکستان میں اس سے بھی پریشان کن ماحول ملا۔ہمارے لئے بچوں کو سمجھانا مشکل ہو گیا تھا کہ یہاں مسلمان کون ہے اور غیر مسلم کون۔ یہ بیچ والا معاملہ الا ما شا اللہ مسلم ممالک میں ہی ملے گا۔ مجھے خود اقبال کی طرح خدا مغرب میں ملا تو میں کیسے کہہ دوں کہ خدا کی تلاش کے لئے نام نہاد مسلم ممالک میں ہجرت کرنا لازمی ہے۔ جہاں ایمان سلامت وہی خطہ مومن ہے۔ اللہ کا احسان ہے کہ امریکہ میں پیدا ہونے والے ہمارے بچے بہترین انسان اور مسلمان ہیں۔ پہلی نسل سنور جائے تو دوسری نسل خود بخود سنبھل جاتی ہے۔ یہاں گمراہی نظر آتی ہے لیکن مسلمان ممالک میں گمراہی منافقانہ وار کرتی ہے۔ منشیات کا زہر امریکہ سے زیادہ مسلم ممالک میں ڈس رہا ہے۔کلمہ گو نسلوں کو نگل رہا ہے۔ امریکہ اور پاکستان میں بے راہ روی کا موازنہ کرنے لگے تو ندامت سے سر جھک جائے گا۔ امریکہ تو ہوئی کافر ریاست لیکن کلمہ گو پاکستان کی ریاست میں منافقت ، بے ایمانی ، منشیات ، گمراہی ، بد عنوانی کو کیا نام دیا جائے۔۔۔۔۔؟ہم تو پیدا پاکستان میں ہوئے۔ پاکستان میں پرورش پائی۔ زندگی کا زیادہ حصہ امریکہ میں گزار دیا لیکن دل پاکستان میں دھڑکتا ہے۔ہم جیسے ماضی پرستوں کارومانس پاکستان کے ساتھ جوان ہوا اور اسی کے ساتھ قبر میں جائے گا لیکن امریکہ میں پیدا اور پرورش پانے والی ہماری اولاد امریکہ سے رومانس نہ کر سکی۔ اس کی بنیادی وجہ ان کی ماں ہے جو ایک دن بھی دل سے امریکی نہ ہو سکی لیکن امریکیوں کے اوصاف اور اخلاق کی دل سے گرویدہ ہے۔امریکی قوم منافق نہیں۔ماضی کی سوچوں سے خود کو نکالا اور بیٹے سے کہا"امریکہ ٹرمپ کے باپ کا نہیں۔ جس طرح پاکستان بھٹو اور نواز شریف کے باپ کا نہیں۔ہمیں اپنے حقوق کی جنگ لڑتے رہنا ہے خواہ امریکہ ہو یا پاکستان۔ہم تو ٹھہرے تارکین وطن لیکن تم تو امریکی مسلمان ہو۔ ٹرمپ کی ایسی کی تیسی....
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024