پرویز رشید نے کہا ہے کہ عمران خان نے بجلی کا جعلی بل جلا کے قوم کو دھوکہ دیا ہے۔ یہ بات میں اپنے کالم میں لکھ چکا ہوں۔ اس طرح کی حرکت لوگوں کو یہ بتانے کے لئے کی جاتی ہے کہ میں بہت بڑا عوامی لیڈر ہوں حالانکہ یہ بات اخبارات میں شائع ہو چکی تھی کہ عمران نے بل جمع کرا دیا ہے۔ شیخ رشید نے بھی بجلی کا بل ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا بل میرے ملازم نے مجھے بتائے بغیر ادا کر دیا۔ اس پر میرا جملہ یہ تھا کہ شیخ صاحب نے اپنے ملازم سے کہا کہ تم بجلی کا بل مجھ سے پوچھے بغیر ادا کر دیا کرو اور اس نے بل جمع کرا دیا۔ اس دوران جہانگیر ترین کے لئے بھی خبر آئی اور تحریک انصاف کے نمبر دو یعنی دو نمبر سیاستدان شاہ محمود قریشی ایک صحافی پر برہم ہوئے جس نے بجلی کے بل کے حوالے سے سوال کر دیا۔ اس پر برادر سہیل احمد عرف عزیزی نے شاہ محمود بن کے جو بات کی وہ بھی بہت برجستہ ہے۔ یہ جواب سن کر صحافی کا سوال بھی زندہ ہو گیا ہو گا۔ شاہ محمود کے بھیس میں سہیل احمد عزیزی نے بتایا کہ میری جیب کٹ گئی۔ اس میں بجلی کا بل بھی تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ یہ بل شاہ محمود قریشی کا ہے۔ وہ میرا مرید تھا۔ وہ واقعی میرا مرید تھا کہ وہ جیب کاٹنے میں اتنا ماہر ہے کہ مجھے بھی پتہ نہ چلنے دیا۔ اس نے بل جمع کرا دیا۔ اتفاق سے جیب میں میرا بٹوا بھی تھا۔ اس میں پچاس ہزار روپے تھے اور بجلی کا بل اڑتالیس ہزار روپے تھا۔ بل جمع کرا کے ادا شدہ بل اور بقیہ دو ہزار روپے مجھے واپس کر دیے۔ یہ دیکھیں کہ میرے مرید کتنے ”دیانت دار“ اور میرے عقیدت مند ہیں۔ عزیزی نے بہت خوبصورت اور برمحل اداکاری کی۔ وہ مجھے شاہ محمود کے روپ میں اچھا نہیں لگا جبکہ وہ ہر روپ میں مجھے اچھا لگتا ہے۔ زمان پارک لاہور والی عالی شان کوٹھی کے لئے عمران خان کا بجلی کا بل ان کے بہنوئی نے ادا کر دیا۔ یہ بہنوئی کالم نگار اور عمران کے محسن حفیظ اللہ نیازی ہیں۔ وہ عمران کی زیادتیوں کی وجہ سے دو سال کے عرصے میں یہ محل چھوڑ چکے ہیں مگر بجلی کا بل وہی ادا کرتے ہیں۔ وہ ایک اخبار میں اپنے کالموں کے ذریعے عمران کو ایکسپوز کرتے رہتے ہیں۔ وہ پڑھے لکھے آدمی ہیں مگر لکھنے کے معاملے میں کنجوس تھے جبکہ آج کل کے پڑھے لکھے لوگ پڑھے کم اور لکھے زیادہ ہوتے ہیں۔ حفیظ اللہ خان پڑھے زیادہ اور لکھے کم ہیں۔ عمران نے ہی انہیں کالم لکھنے کے لئے کہا اور ایک متنازعہ بڑے اخبار میں سفارش کر دی۔ حفیظ کے کالم پسند کئے جانے لگے۔ وہ بہت متوازن انداز میں عمران کی حمایت کرتے تھے۔ جب اختلاف ہوا تو حفیظ اللہ نے عمران کے خلاف کچھ سخت کالم بھی لکھے کہ وہ اندر کی کہانی جانتے ہیں۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ ابھی اصل بھید حفیظ اللہ نے بیان نہیں کئے۔ عمران نے اخبار والوں سے کہا کہ حفیظ اللہ کا کالم بند کر دو تو انہوں نے کہا کہ ہم کسی کی سفارش پر بندہ رکھ تو سکتے ہیں مگر نکالتے نہیں۔ حفیظ کے بہادر بھائی سعیداللہ خان نیازی شائد واحد آدمی ہیں جو تحریک انصاف کے بانی ممبران میں سے تھے۔ اس سے عمران خان ڈرتا بھی ہے۔ اس نے ایک بار مجھے کہا تھا کہ میں عمران خان کے خلاف پارٹی کے اندر الیکشن لڑوں گا مگر پاکستان میں پارٹی لیڈر اپنی سیاسی جماعتوں کو جاگیر کی طرح سمجھے ہیں۔ حفیظ اللہ کے دوسرے بھائی انعام اللہ خان مسلم لیگ ن کی طرف سے ایم پی اے اور ایم این اے بھی رہے ہیں۔ حفیظ اللہ خان کے اصرار پر وہ تحریک انصاف میں چلے آئے۔ سعیداللہ خان نے اس کی سخت مخالفت کی تھی۔ ان کو صرف عائلہ ملک کی خوشنودی کے لئے ٹکٹ نہ دیا گیا۔ انعام اللہ اگر ن لیگ میں ہوتا تو وزیر ہوتا۔ ٹی وی چینلز پر عمران کی سب سے موثر حمایت انعام اللہ کی طرف سے ہوتی تھی۔ میں نے اسے منع کیا تھا کہ ن لیگ کی قیادت کے خلاف سخت باتیں مت کرو مگر انعام کے الزام چلتے رہے۔ ہماری سیاست میں الزام کو انتقام کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی کام آج کل عمران خان کر رہا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اسے پسند کرنے والوں کی بھی کمی نہیں اور ناپسند کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ وزیراعظم بن گیا تو لوگوں کو بہت زیادہ مایوس کرے گا۔ مایوس نہ ہونے والوں میں پہلے نمبر پر شاہ محمود قریشی ہو گا۔ حالانکہ وہ نمبر ون بننے کے لئے نمبردو یعنی دو نمبر بھی بننے کے لئے تیار ہے۔ جہانگیر ترین اور شیخ رشید مگر بے چارے لوگ اور بے چاری عورتیں۔ میں یہ افسوس کرتے کرتے کیسے کیسے افسوس میں پھنس گیا ہوں۔ بہادر آدمی جاوید ہاشمی کو بھی ن لیگ سے تحریک انصاف میں لانے والا حفیظ اللہ نیازی ہے۔ شاید اب تحریک انصاف سے جانے کا مشورہ بھی ہاشمی کو نیازی نے دیا ہو۔ اس سے گذارش ہے کہ وہ ہاشمی کو اب ن لیگ میں واپس جانے کا مشورہ نہ دے ڈالے۔ میں نے تو لکھا تھا کہ ہاشمی اپنی جماعت بنائے ورنہ اپنی پرانی اور اصلی جماعت اسلامی میں چلا جائے۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا صدر تھا۔ حفیظ خان بھی جمعیت کی طرف سے قائداعظم یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا صدر تھا۔ دونوں جماعت اسلامی چھوڑ چکے ہیں۔ عمران نے بجلی کا بل تو جمع کرا دیا مگر قومی اسمبلی میں اپنا استعفیٰ جمع نہیں کرایا۔ یہ بات اے این پی کے صدر اسفند یار ولی نے بتائی ہے۔ اسفند یار ولی یہ بتائیں کہ آج تک پاکستان کی سیاست میں کسی نے استعفیٰ دیا ہے۔ دھرنا ناکام ہوا اور قومی اسمبلی کی سیٹ بھی گئی تو عمران خان کیا کرے گا۔استعفیٰ نہ دینے کا مشورہ عمران کو شاہ محمود قریشی نے دیا ہے۔ وہ استعفیٰ جمع کرانے کے باوجود پارلیمنٹ میں جا کے تقریر کر آیا۔ اس نے بتایا کہ اس تقریر کا جو مزا آیا وہ کنٹینر پر ساری تقریروں سے بڑھ کر تھا۔ اس نے پارلیمنٹ میں ان سب باتوں کی تردید کر دی جن کی تصدیق عمران خان کرتا رہتا ہے۔ شاہ محمود قریشی اب کسی طرح عمران خان سے کم اپنے آپ کو سیاستدان نہیں سمجھتا یہ خبریں کس نے لگوائی تھیں کہ آخر کار تحریک انصاف شاہ محمود چلائے گا۔ اب تو اور بھی آسانی ہے کہ جاوید ہاشمی بھی اس کی سازشوں کوششوں اور خواہشوں سے چلا گیا ہے۔ سازش کوشش اور خواہش بہت نیگٹو ہو جائیں تو ایک ہو جاتی ہیں کراچی میں جاوید ہاشمی کے لئے باغی باغی کے نعرے گونجتے تھے۔ عمران کے بعد سب سے زیادہ پذیرائی بہادر آدمی کی ہوئی تھی۔ اور یہ بات شاہ محمود کو پسند نہ تھی۔ اب یہ پسند ہے کہ باغی کے لئے داغی کے نعرے اس نے لگوائے مگر لوگوں کا جوش و خروش دیکھنے میں نہ آیا۔ ٹی وی چینلز پر کپڑوں کی دھلائی کے لئے یہ اشتہار شاہ محمود قریشی کو پسند نہیں ہے۔ وہ اسے بند کروانے کے کوشش کر رہا ہے۔ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔ میں اس کے لئے پورا کالم لکھوں گا مگر ایک شعر فیض احمد فیض کا عرض ہے یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرراہ سیاہی لکھی گئییہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرکوئے یار چلے گئے
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024