بزرگ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں بات کرکے کمال کر دیا بلکہ قیامت قائم کردی۔ انہوں نے کہا کہ صحرائے تھر میں قحط کے ماحول میں ایک بچہ بھی بھوک سے نہیں مرا۔ غربت سے مرا ہے اور غربت سے بچے پنجاب میں بھی مرتے ہیں۔ ہم مزید کیا کریں۔ پچھلی حکومتوں نے بھی کچھ نہیں کیا تو ہم کیا کریں؟ غربت اور بھوک میں کیا فرق ہے۔ لوگ غریبی میں بھوکے رہتے ہیں اور مر بھی جاتے ہیں۔ غریبی میں بچے زیادہ کھا کے بدہضمی سے مرتے ہوں گے۔ یہ تھر کے ’’عظیم الشان ہسپتال‘‘ کے ڈاکٹروں کی تشخیص اور تحقیق ہو گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مٹھی تھر میں بچوں کا جو ہسپتال بنا ہے وہ کراچی کے سول ہسپتال سے کم نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ کراچی کے لوگ اپنے بچوں کو لے کر مٹھی تھر کے ہسپتال میں جانے لگیں گے اس ہسپتال میں کوئی لیڈی ڈاکٹر نہیں ہے۔ بچوں کے ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر کا نہ ہونا ایک قیامت ہے۔ اور قائم علی شاہ مزید قیامتیں قائم کر رہے ہیں۔
پچھلے برس تھر کے خوفناک قحط میں گندم کی سینکڑوں بوریاں گوداموں میں گل سڑ گئیں کہ سندھ حکومت کے پاس اس غیر اہم کام کے لئے فنڈز نہ تھے۔ پانی کی کئی بوتلیں بھی ضائع ہو گئیں۔ حکومت اور بیورو کریسی کے پاس قحط زدہ مرتے ہوئے بھوکے بلکہ غریب بچوں کے لئے چند ہزار روپے بھی نہ تھے۔ ایک ایک افسر اور حکمران کا ماہانہ خرچہ لاکھوں روپے ہے۔
2½ ارب روپے سے سندھ اسمبلی کی نئی عمارت بنوائی گئی ہے۔ اس میں صوفے بھی ممبران کی مرضی کے مطابق ڈلوائے گئے ہیں۔ سندھ اسمبلی کی پرانی عمارت بھی اتنی ہی شاندار تھی مگر تھر کے قحط زدہ اور سندھ کے غریبوں کے لئے کچھ نہیں ہے۔ ان کے گھر وسیع و عریض صحرا میں پتھر کے زمانے کی یاد دلاتے ہیں۔ کچے مکانوں کے لئے پتھر بھی نہیں ہیں۔ یہاں صرف مرنے والے بچوں اور بچوں کی ماؤں کی آنکھیں پتھرائی رہتی ہیں۔ جنگلوں کی جھگیاں بھی ان گھروں سے بہت بہتر ہوتی ہوں گی۔ کراچی میں بلڈنگوں کی کئی منزلوں میں جو عیش و عشرت کے لوازمات ہیں وہ دیکھ کے آدمی پریشان ہو جاتا ہے۔ امیروں اور وزیروں وغیرہ افسروں اور حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ ان بے آسرا بے یارو مددگار لوگوں کے لئے کچھ تو کریں۔
قائم علی شاہ تھر کے دورے پر پورے پروٹوکول اور سکیورٹی کے ساتھ گئے۔ وہاں میٹنگ بھی ہو گئی۔ انہوں نے سوئی ہوئی آنکھوں سے ہسپتال دیکھا ہو گا۔ وہ نجانے کس لحاظ سے کراچی کے سول ہسپتال سے بہتر ہے۔
’’صدر‘‘ زرداری نے اس بوڑھے کمزور آدمی میں کیا دیکھا کہ اسے دوبارہ وزیراعلیٰ بنا دیا یقیناً ان میں کچھ ایسی ’’خوبیاں‘‘ ہوں گی جو کسی دوسرے کو نظر نہیں آتیں۔ بلاول نوجوانوں کا لیڈر ہے تو کیا قائم علی شاہ بلاول کا نمائندہ ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے کہا کہ عمران خان باسٹھ سال کا بوڑھا ہے اور جوانوں کا لیڈر بنتا ہے؟ انہوں نے 72 سال کے بوڑھے کو وزیراعلیٰ بنایا ہے۔ اسمبلی میں کئی نوجوان لوگ اور عورتیں موجود ہیں۔ نوجوان لوگ اور نوجوان عورتیں کس کام کی ہیں؟ خدا کی قسم محترمہ شرمیلا فاروقی کو وزیراعلیٰ سندھ بنا دیا جائے تو بہت زبردست کام ہوں گے۔
وہ بہت مستعد متحرک معتبر اور معزز خاتون ہیں۔ بہادر اور کمپلیکس فری ہیں قائم علی شاہ سے بہتر تو ڈپٹی سپیکر شہلا رضا ہیں۔ 28 اکتوبر کو قائم علی شاہ اسمبلی میں بزرگانہ چال چلتے ہوئے اپنی سیٹ بھول بیٹھے اور شرجیل میمن کی سیٹ پر جا بیٹھے۔ اس وقت سپیکر درانی صاحب شرجیل میمن کو وزیراعلیٰ کی سیٹ پر بٹھا دیتے تو وہ خود بخود وزیراعلیٰ بن جاتے مگر ایک بیرے نے قائم علی شاہ کو اشارے سے بتایا کہ جناب آپ کی سیٹ وہ ہے۔ وہ شرمندہ ہو کے اٹھے اور وزیراعلیٰ کی سیٹ پر اس طرح بیٹھے کہ کوئی ان کے نیچے سے چھین نہ لے۔
قائم علی شاہ ذہنی طور پر حاضر نہیں رہتے صرف سیاسی طور ’’صدر‘‘ زرداری کے سامنے حاضر جناب رہتے ہیں۔ ذہنی طور پر فارغ البال آدمی کیا حکومت چلائے گا۔ ان کے سر پر بال پہلے سے نہیں ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ ’’صدر‘‘ زرداری نے پشاور میں بلاول ہاؤس بنانے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کبھی کوئی ہسپتال بنانے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ ظاہر یہ نیک کام بحریہ ٹاؤن والے ملک ریاض کر کے دیں گے۔ انہوں نے ’’صدر‘‘ زرداری کے کہنے پر بحری قزاقوں کے لئے انصار برنی کو کئی ارب روپے دے دیئے تھے۔ نجانے اس میں برنی صاحب کا کتنا حصہ تھا؟ انہوں نے ایدھی صاحب کو لٹنے کے بعد پانچ کروڑ دے دیئے ہیں۔ بہت اچھے کام انہوں نے کئے ہیں۔ وہ ’’صدر‘‘ زرداری کو ہسپتال بنانے کا مشورہ دیں۔ وہ مان جائیں گے۔ انہیں کیا تکلیف ہے بنا کے تو ملک صاحب نے دینا ہے۔
مجھے یاد آیا کہ ’’صدر‘‘ زرداری کے اپنے ضلع نواب شاہ میں بچوں کی ایک بس کے حادثے میں کئی بچے مر گئے تھے کئی زخمی ہوئے۔ نواب شاہ کے ہسپتال میں زخمی بچوں کے لئے کچھ انتظام نہ تھا۔ انہیں حیدر آباد لے جایا گیا وہاں بھی مناسب بندوبست نہ تھا تو انہیں کراچی لایا گیا اس دوران کئی بچے مر گئے مگر قائم علی شاہ کہتے ہیں کہ مٹھی تھر کا ہسپتال کراچی کے سول ہسپتال سے بہتر ہے۔ توکیا اس ہسپتال میں انہوں نے کبھی اپنے کسی نواسے اور پوتے کا علاج کرایا ہے۔
بلاول کا کراچی جلسہ بڑا تھا مگر اس کے لئے کروڑوں روپے لگ گئے ہوں گے۔ پچھلے دنوں انہوں نے سندھ ثقافتی میلے کا بندوبست کیا۔ اس کے لئے بھی کروڑوں روپے کا بندوبست قائم علی شاہ نے کیا ہو گا۔ سندھ حکومت نے ایک ہیلی کاپٹر خریدنے کے لئے 146 ارب روپے منظور کئے ہیں۔ جبکہ اس سے بہتر ہیلی کاپٹر اس سے آدھے روپوں میں مل سکتا ہے۔ یہ ہیلی کاپٹر صرف حکمرانوں کے کام آئے گا۔ اس میں تھر کے مرتے ہوئے بچوں کو کراچی لانے کی اجازت نہیں ہو گی۔
کیا کوئی ممبر اسمبلی قحط زدہ علاقے میں مرتے ہوئے بچوں کے پاس گیا ہے۔ قائم علی شاہ کی بیٹی نفیسہ شاہ کو تو وہاں جانا چاہئے اور اپنے والد کی بے حسی اور تھر کے بچوں کی بے حسی کا کوئی علاج کرنا چاہئے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کو قائم علی شاہ کا اتنا ہی خیال ہے تو اس کی بیٹی نفیسہ شاہ کو وزیراعلیٰ سندھ بنا دیں۔ وہ اپنے بوڑھے باپ سے تو بہتر حکومت چلائیں گی۔
شرجیل میمن بہت بولتے ہیں۔ انہوں نے کیا کیا ہے؟ ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی‘ حیدر عباس رضوی‘ فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن سے خاص طور پر گزارش ہے کہ وہ سندھ کے وارث بنیں اور تھر کے بچوں کے پاس جائیں۔
ساتھ میں بھارت کا علاقہ ہے۔ اسے بھی تھر کہتے ہیں وہاں اس طرح کا قحط کبھی نہیں آیا۔ وہاں سرسبز و شاداب علاقے ہیں اور بچے غربت سے نہیں مرتے غربت کا لفظ بزرگوار شاہ صاحب کو بہت پسند ہے غربت بھارت میں بھی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024