پولیس اور فوج کے طرز عمل میں ایک واضح فرق لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ لاہور میں کوئی بہانہ نہیں تھا مگر پولیس نے درجن بھر افراد شہید کر دئیے۔ دوسری طرف اسلام آباد میں پی ٹی وی کی بلڈنگ پر ہجوم نے قبضہ کیا تو فوج کے ایک دستے نے انہیں انگلی کے ایک اشارے سے باہر نکال دیا۔ اسی اسلام آباد میں پولیس نے پارلیمنٹ میں ہجوم کو داخل ہونے سے روکنے پر آنسو گیس پھینکی۔ ربڑ کی گولیاں فائر کیں اور بعض اطلاعات کے مطابق اصلی گولیاں بھی داغیں۔ فرق صاف واضح ہے۔
فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ کیا ملک کو پولیس اسٹیٹ بنانا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ ہم اسی طرف جا رہے ہیں۔ عمران خان نے 30 نومبر کے جلسے کی کال دی، اسے روکنے کے لئے پولیس کو کھلی چُھٹی دے دی گئی ہے، ملک بھر سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی گرفتاریاں عمل میں آ رہی ہیں۔ آخر عدالت کومداخلت کرنا پڑی ہے اور اس نے فیصلہ دیا ہے کہ جلسہ جلوس عوام کا حق ہے جس سے روکا نہیں جا سکتا اور پولیس کو گرفتاریاں کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی مگر کوئی ضروری نہیں کہ پولیس نے عدالت کے یہ احکامات مانے ہوں۔ اس لئے کہ وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ دس پولیس اہلکار بھیج کر دھرنی صاف کرا سکتے ہیں۔
پاکستان کب سے پولیس اسٹیٹ ہے، شاید آئی جی قربان کے جھرلو الیکشن سے، شاید بھٹو کی ایف ایس ایف گردی سے۔ نواز شریف کے پچھلے دور میں پولیس اخبار کی اشاعت روکنے کے لئے کاغذ کی ٹرالیاں تھانے میں بند کر دیتی تھی، محترمہ بے نظیر کے دور میں میاں شریف پر پولیس چھوڑی گئی جس نے اس مردِ ضعیف کو دھکے دے کر پولیس وین میں پھینک دیا۔ حسین حقانی ا ور نجم سیٹھی پر مظالم ہوئے۔ ارکان اسمبلی اور وڈیرے اپنے مخالفین کو پولیس کے ذریعے تنگ کرتے ہیں، جھوٹے پرچے، گرفتاریاں۔ عوام کو کبھی سکون کا سانس میسر نہیں آیا۔
عمران خان اتوار کو جلسہ کرے گا تو اس کے سامنے پولیس کی دیوار کھڑی کر دی گئی ہے۔ پہلے کی طرح تین حصار قائم نہیں کئے گئے، وزیرداخلہ نے فوج کو واپس بیرکوں میں بھجوا دیا ہے اور اس دوران پولیس کو ہجوم سے نمٹنے کی تربیت دینے کی خبریں شائع ہوتی رہیں۔ خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں، چین سے جدید سامان ہنگامی بنیادوں پر منگوایا گیا ہے۔
حکومت کے عزائم کیا ہیں اور عمران خاں کے عزائم کیا ہیں، اس کا پتہ تو اتوار کے روز چلے گا، اس وقت ہر کوئی یہی ایک سوال پوچھتا ہے، تیس نومبر کو کیا ہوگا۔ میرا تو جواب ہوتا ہے کہ وہی ہو گا جو تیس اگست کے آگے پیچھے ہوا، کچھ بھی نہیں ہوا، کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے۔ مارے گئے بے چارے منہاج کے بے گناہ کارکن جو کسی جلسے جلوس یا دھرنے میں شامل نہ تھے۔
حکومت تب بھی بدحواس دکھائی دیتی تھی اور اب پھر اس کے حواس پر عمران خان چھایا ہوا ہے، کام نہ کرنے کے لئے یہ ایک اچھا بہانہ تھا کہ عمران اور قادری نے دھرنا دے رکھا ہے، گویا یہ دھرنا نہ ہوتا تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں، بجلی کی کمی پوری ہو چکی ہوتی، لوڈشیڈنگ کے اندھیرے چھٹ چکے ہوتے، نوجوان برسرِ روزگار ہوتے اور راوی ہر سُو چین لکھتا۔
سارک میں ناکامی کے لئے بھی عمران کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جائے اور جو گالیاں مودی کو پڑنی چاہیئں، ان کا رُخ عمران کی طرف کر دیا جائے کہ اس کی وجہ سے کٹھمنڈو میں عزت سادات میں فرق پڑا۔ ایک محاورہ بڑا پرانا ہے کہ جس کی گھر میں عزت نہ ہو، اس کی باہر بھی کوئی عزت نہیں کرتا۔ تو عزت کرنا عمران کی ذمہ داری بنتی ہے، نواز شریف ملک کے وزیراعظم ہیں۔ مودودی اور نصراللہ خاں نے ایوب اور بھٹو کی عزت کی تو ایوب نے تاشقند اور بھٹو نے شملہ سمجھوتہ کیا ورنہ وہ خالی ہاتھ لوٹتے۔
تیس نومبر کو جو ہونا ہے دیکھا جائے گا مگر کوئی بتائے کٹھمنڈو میں کیا ہوا۔ ممبئی دھماکوں کی سالگرہ پر سارک کا اجلاس بلانا ہی پاکستان کے خلاف ایک سازش ہے جس پر ہمارا فارن آفس خاموش رہا اور یہ جو تھر میں آج بھی بچوںکی ہلاکت کی خبریں شائع ہوئی ہیں، اس کی ذمہ داری کس پہ ڈالی جائے۔ سیّدنا عمر فاروقؓ نے کہا تھا کہ کتا بھی بھوک یا پیاس سے مر جائے تو روزِ قیامت وہ جوابدہ ہوں گے۔ مگر آج ایسا حکمران کہاں سے لائیں، عمران اور قادری کی خواہش ہے کہ نظام میں اصلاح ہو اور باسٹھ تریسٹھ پر پورا اُترنے والے خدا ترس، لوگ پارلیمنٹ میں پہنچیں، الیکشن اصلاحات ہوں اور دھاندلی کا راستہ روکا جائے۔ اقربا نوازی بند کی جائے، اہلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر سرکاری مناصب دیئے جائیں۔ مگر ان دونوں رہنمائوںکی دال گلتی نظر نہیں آتی اس لئے کہ مفاد پرست طبقوں کا سخت گٹھ جوڑ ہے۔ وہ جمہوریت اور پارلیمنٹ و کو بچانے کے نام پر اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں ورنہ انہیں جمہوریت اور پارلیمنٹ سے جو عشق ہے، وہ سب پر واضح ہے۔ وزیراعظم اب پارلیمنٹ میں نہیں جاتے اور وزیر اعلی پنجاب صوبائی اسمبلی کا رُخ نہیںکرتے، سارے فیصلے جاتی امرا اور ماڈل ٹائون کی غلام گردشوں میں ہوتے ہیں۔ باقی صوبوںمیںکیا ہوتا ہے، اس کی کسی کو خبر ہی نہیں۔
اب پورے ملک کا مسئلہ نمبر ایک یہ ہے کہ تیس نومبر سے کیسے نمٹا جائے۔ وزیر داخلہ پُرعزم ہیں کہ ریاست اپنی رٹ قائم کرنا جانتی ہے۔ مگر عمران کو اس ایک روز روکا گیا تو وہ اگلی تاریخ کا اعلان کر دے گا، عمران چھچھوندر بن کر حکومت کو چمٹ گیا ہے۔ حکومت اس سے جان کیسے چھڑائے، حلقے کھولتی ہے تو دھاندلی بے نقاب ہوتی ہے، تین حلقوں میں دھاندلی کے ثبوت مل گئے تو عمران دس اور حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ کر دے گا، اس طرح ہو سکتا ہے کہ ٹھپ ٹھپ جاری رہے اور حکومت چلتی رہے مگر کوئی کام نہیں کر سکے گی کہ اس کے اعصاب شل ہو چکے ہیں۔
ملک ایک نئے مخمصے کا شکار ہے۔ بھٹو نے دھاندلی کی اور پی این اے نے احتجاج کیا، جس کے بعد مارشل لا آ گیا۔ پچاسی کے بعد آئین میں اٹھاون ٹو بی کی شق تھی جس کے ذریعے سیاسی بحران پر قابو پانے کے لئے صدر اسحاق اور صدر لغاری نے حکومتیں چلتا کیں اور نئے الیکشن کروا دیئے، اب نئے الیکشن کا کوئی راستہ نہیں، آئین ان کے راستے میں رکاوٹ ہے، حکومت تبدیل نہیںہو سکتی، آئین اس کے بھی خلاف ہے، گیلانی کو عدلیہ نے نکال باہر کیا، اب عدلیہ بھی اس موڈ میں نہیں ہے۔
پچھلے دھرنے میں فوج پر الزام لگا کہ وہ اس کے پیچھے ہے جو کہ غلط ثابت ہوا۔ فوج نے تو پارلیمنٹ کی حفاظت کی، اب فوج کو یہ ڈیوٹی بھی ڈر کے مارے نہیں دی گئی۔ یہ فوج کی نیک نامی کے لئے اچھا ہے مگر کوئی انہونی نہ ہو جائے، پولیس وہی کچھ نہ کرے جو ماڈل ٹائون میں کر چکی ہے۔ خدشہ یہی ہے۔ حکومت کے ارادے نیک نہیں لگتے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024