پنجاب پیپلز پارٹی کے صدر میاں منظور احمد وٹُو کی اطلاع کے مطابق ”پاکستان پیپلز پارٹی کے یومِ تاسِیس پر 30 نومبر کو چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لندن میں چھُٹیاں گزاریں گے اور اُن کے بجائے پارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف زرداری پارٹی کے یومِ تاسِیس کی صدارت کریں گے“۔ ظاہر ہے کہ چیئر مین بلاول کو لندن میں کوئی ضروری کام ہوگا۔ انہوں نے وٹُو صاحب کو پیغام پہنچا دِیا کہ
”تیرا پیغام بھی ضروری ہے
اور مجھے کام بھی ضروری ہے“
”باپ کا بیٹے کو سجدہ!“
ہندوستان میں خاندانِ غلاماں کے بادشاہ غیاث اُلدّین بلبن کے انتقال کے بعد اہلِ دربار نے 1286ءمیں مرحوم کے پوتے کیقباد کو ”معز اُلدّین“ کا خطاب دے کر بادشاہ بنا دِیا تھا۔ کیقباد کے سگے باپ (بلبن کے بیٹے) بغرا خان نے (جو صوبہ لکھنوتی کا گورنر تھا) اپنے بادشاہ بیٹے کی اطاعت کرکے اُسے سجدہ بھی کِیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی برآمدہ ( مبیّنہ) وصیّت کے مطابق جناب آصف زرداری نے (اہلِ دربار کے مشورے) سے اپنے بیٹے بلاول زرداری کو ”بھٹو“ کا خطاب دے کر پیپلز پارٹی کا چیئرمین بنا دِیا اور اُس کی ماتحتی قبول کر کے خود شریک چیئر مین بن گئے۔ بادشاہت میں باپ کا بیٹے کو سجدہ کرنے کا رواج تھا لیکن سیاست میں ایسا نہیں ہوتا۔ چیئرمین بلاول بھٹو اپنے ”بابا سائیں“ کی بہت عِزّت کرتے ہیں اور انہوں نے جنابِ زرداری کو پارٹی کے سارے اختیارات سونپ رکھے ہیں لیکن کبھی کبھی موصوف چیئر مین کے اختیارات کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے نانا جنابِ بھٹو کی پارٹی کے یومِ تاسیس میں شرکت نہ کرنے کی اطلاع میاں منظور وٹُو کو دے دی اور وٹُو صاحب نے میڈیا کو دے دی۔ اب جناب آصف زرداری جانیں اور اُن کا کام ؟
”کیا یہ خیرات پھر نہیں ہوگی؟“
25 مئی 2014 ءکو ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان لاہور میں منعقدہ تقریب میں صدارتی تقریر کرتے ہُوئے مجاہدِ تحریک پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی (مرحوم) نے کہا تھا کہ ”ہمیں اپنی صفوں میں موجود اُن بھارتی شردھالُوﺅں پر کڑی نظر رکھنا ہو گی جو مسئلہ کشمیر کو پسِ پشت ڈال کر ہمارے ازلی دُشمن بھارت سے دوستی اور تارت کا راگ الاپ رہے ہیں“۔ کٹھمنڈومیں سارک کانفرنس کے اختتام پر بھارتی وزیرِ اعظم شِری نریندر مودی سے وزیرِ اعظم نواز شریف کی سرسری ملاقات اور مصافحہ کو بھارتی شردھالُوﺅں کی طرف سے اُسے ”یادگار اختتام“ قرار دے کر ”امن کی آشا دیوی“ کے چرنوں میں عقیدت کے پھول چڑھائے جا رہے ہیں۔
وزیرِاعظم نواز شریف 26 مئی کو شِری مودی کی وزارتِ عظمیٰ کی تقریب میں شرکت کے لئے دِلّی گئے تھے تو انہوں نے مودی جی کو دورہ¿ پاکستان کی دعوت دی تھی جو انہوں نے قبول بھی کرلی تھی۔ 27 مئی کو ایک پاکستانی صحافی نے بھارتی وزیرِاعظم سے پُوچھا کہ ”وزیرِاعظم پاکستان سے آپ کی ملاقات کیسی رہی؟۔ آپ پاکستان کب آئیں گے؟“۔ توشِری نریندر مودی نے مُسکراتے ہُوئے اپنے دونوں ہاتھ جوڑے اور آگے بڑھ گئے۔ شاعر نے ایک ”شردھالو“ کی حیثیت سے اپنی محبوبہ سے کہا تھا
”آج کی رات پھر نہیں ہوگی
یہ مُلاقات‘ پھر نہیں ہوگی
اِک نظر مُڑ کے دیکھنے والے
کیا یہ خیرات پھر نہیں ہوئی؟“
"Free Economy?"
عالمی منڈی میں پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتیں 4 سال کی کم ترین سطح میں آنے کے بعد وفاقی حکومت نے بھی پٹرول‘ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتیں کم کرنے کا فیصلہ کِیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اِس کے بعد اشیائے خورو نوش کی قیمتیں بھی کم خود بخود کم ہو جائیں چاہئیں لیکن ایسا نہیں ہوگا۔اِس سے پہلے بھی کبھی ایسا نہیں ہُوا۔ 1956 ءمیں برطانیہ اور فرانس نے مصر کی نہر سویز پر حملہ کِیا تو خبر شائع ہُوئی کہ ”لاہور میں گوبھی کی قیمت بڑھ گئی ہے“۔ ہمارے پیارے پاکستان میں ہربار ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں وفاقی وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار سے ایک اینکر پرسن نے پُوچھا کہ ”یورپی ممالک میں دس دس‘ پندرہ پندرہ سال تک اشیائے خورو نوش کی قیمتیں نہیں بڑھتیں۔ کیا پاکستان میں ایسا نہیں ہو سکتا؟“ تو جنابِ ڈار نے کہا تھا کہ ”جی نہیں! ہمارے یہاں "Free Economy" ہے “۔ اینکر پرسن نے ڈار صاحب کو نہیں بتایا کہ یورپ کے تو ہر مُلک میں "Free Economy" ہے“۔
مسلم لیگ ن کا خصوصی میڈیا سیل ؟
خبر ہے کہ ”وزیراعظم ہاﺅس میں جدید سائنسی بنیادوں پر‘ خصوصی میڈیا سیل بنانے کا فیصلہ کر لِیا گیا ہے“۔ خبر کے مطابق یہ خصوصی میڈیا سیل‘ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا مقابلہ کرنے اور حکومتی اقدامات کو اجاگر کرنے کے لئے میڈیا سٹریٹجی پر غور کِیا کرے گا‘ میڈیا سٹریٹجی پر غور کرنے کے لئے ہر پندرہ دِن بعد وزیرِاعظم میاں نواز شریف کی صدارت میں اجلاس ہُوا کرے گا۔ میڈیا سیل بنانے کے لئے وزیرِ اعظم ہاﺅس میں جو اجلاس ہُوا ¾ اُس میں وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید ¾ کئی دوسرے وفاقی وزراء¾ مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل جناب اقبال جھگڑا ¾ ارکانِ پارلیمنٹ اور مریم نواز بھی شامل تھیں۔
بے شک اِقتدار میں آنے کے ڈیڑھ سال بعد ہی سہی ¾ مسلم لیگ ن کا خصوصی میڈیا سیل بنانے کا فیصلہ اچھا ہے۔ یہ بھی ثابت ہُوا کہ میڈیا سٹریٹجی کو کامیابی سے سنبھالنا ”کلّے بندے دا کم نئیں“ تھا۔ یوں تو سینیٹر پرویز رشید بہت ذہین وفطِین سیاست دان ہیں اور شب و روز مختلف نیوز چینلوں پر اپوزیشن لیڈروں کو تُرکی بہ تُرکی جواب دینے اور جُگت بازی میں بہت مہارت رکھتے ہیں لیکن چونکہ اُن کی قیادت میں وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات اور وزیرِاعظم ہاﺅس میں بیورو کریسی کے ”ماہرِینِ ابلاغیات“ کا خصوصی سیل“ میڈیا سٹریٹجی کو ”سائنسی بنیادوں پر“ استوار نہیں کر سکا اِس لئے وزیراعظم صاحب نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوصف ہر پندرہ دِن بعد مسلم لیگ ن کے خصوصی سیل کے اجلاس کی صدارت کا فریضہ بھی سنبھالنے کا فیصلہ کِیا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ ”اچھا کام جب بھی شروع کر لِیا جائے تو‘ اُس میں برکت پڑتی ہے“۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024