میں نے تو پہلے کسی کالم میں لکھا تھا کہ 28 مئی کو قومی اور سرکاری سطح پر منایا جانا چاہئے۔ ایٹمی تجربے نے پاکستان کو ایک ایٹمی ملک بنا دیا۔ اس کا کریڈٹ بہرطور نوازشریف کو جاتا ہے۔ بھٹو صاحب نے اس کی بنیاد رکھی تھی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے یہ معرکہ آرائی کر دکھائی۔ نوازشریف نے ایٹمی دھماکے کر کے اس تاریخ ساز واقعے کو مکمل کر دکھایا۔ مگر کبھی کبھی بھارت کے لئے اور عمومی طور پر پاکستانی حکمرانوں کے رویے سے آدمی سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ پاکستان کو اب بڑی جرأت اور قومی غیرت کو محسوس کرتے ہوئے فیصلے کرنا چاہئیں۔
ایٹمی دھماکے جس ملک کے مقابلے میں کئے گئے تھے اس کے ساتھ مقابلہ کبھی ترک نہیں کرنا چاہئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو تو اس جملے کے بعد ووٹ ملے تھے۔ ہم بھارت کے ساتھ ایک ہزار سال لڑیں گے۔ یہ تو محاورۃً بات ہے مگر اس کا اثر کتنا ہوا۔
ایٹم بم بن گیا اور ایٹم بم بنانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نظرانداز کیا گیا۔ اس کے ساتھ ڈاکٹر ثمر مند نے بھی بہت کام کیا۔ ان سائنس دانوں کا سیاستدانوں سے کم مرتبہ نہیں ہے۔ بھارت کے ایٹمی سائنسدان کو بھارت کا صدر بنایا گیا۔ پارلیمانی نظام حکومت میں یہ منصب سب سے بڑا منصب ہے۔ اسے ہم نے مذاق بنا دیا ہے۔ اس میں کچھ سیاستدانوں کا بھی دخل ہو گا۔ کوئی نوٹیفکیشن صدر کے دستخط کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
مگر اب صدر ممنون حسین نے اپنی شخصیت کے اعتبار سے ایک مقام بنایا ہے۔ لوگ ان کی عزت کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ان کے بیانات لوگوں کے دل کی ترجمانی کرتے ہیں۔ وہ بہت بے تکلفی اور آسانی سے بڑی بڑی بات کر جاتے ہیں۔ جن پر حکمرانوں اور افسروں کو بھی غور کرنا چاہئے۔ میری ملاقات ان سے نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ہوئی تھی۔ وہ بہت باوقار شخصیت کے مالک ہیں۔ برادرم شاہد رشید سعودی عرب گئے ہوئے تھے۔
تقریب کی میزبانی مجھے کرنا پڑی۔ اس میں برادرم قمر الطاف نے مجھے کمپیئرنگ کے لئے دعوت دی۔ سٹیج پر صدر رفیق تارڑ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے کہا کہ آج کی محفل کتنی مبارک اور خوبصورت ہے کہ دو صدر سٹیج پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ میری اس بات پر صدر ممنون حسین مسکرائے تھے۔
ایٹم بم کے معاملات بھی صدر کے پاس ہوتے ہیں تو اس حوالے سے وہ بہت طاقتور آدمی ہوتا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ ان کے تعلقات اور روابط بہت آئیڈیل ہیں اور یہی پارلیمانی نظام کی شان ہے۔
برطانیہ کے مضبوط پارلیمانی نظام میں ملکہ ہی صدر ہے۔ وہاں صدارتی انتخاب پر کچھ خرچ نہیں آیا۔ ملکہ برطانیہ بڑی مدت سے برطانیہ کی ’’صدر‘‘ ہیں۔ وہاں جمہوریت اور بادشاہت کے اس امتزاج پر کسی کو اعتراض نہیں۔ یہ برطانیہ کے روایت پسند معاشرے کی ایک بہت بڑی خوبی ہے۔
پاکستان میں بھی صدر کے انتخاب کے لئے کوئی خاص متنازعہ بات کبھی دکھائی نہیں دی۔ جب جنرل مشرف نے نوازشریف کی حکومت کو منسوخ کر دیا تو بھی صدر رفیق تارڑ تھے۔ مجھے یہ بات عجیب لگی۔ میں نے کلثوم نواز سے پوچھ لیا۔ وہ ایک بڑی تحریک کے لئے ایک شفیق لیڈر کا کردار ادا کیا۔ کلثوم نواز نے کہا کہ ان سے ابھی ایک بہت بڑا کام لینا ہے اور صدر تارڑ نے ہی شریف خاندان کے سعودی عرب جانے کے معاہدے پر دستخط کئے تھے۔
جب کلثوم نواز اپنی ساری فیملی کو پاکستان سے لے گئی تو صدر رفیق تارڑ نے بھی ایوان صدر چھوڑ دیا اور اپنے چھوٹے سے گھر میں واپس آ گئے۔ وہ جی آر ون میں تو بعد منتقل ہوئے۔ میری ملاقاتیں دونوں جگہوں پر ان کے ساتھ ہوئیں مگر زیادہ اپنائیت ان کے ذاتی گھر میں محسوس ہوئی۔ اب مجید نظامی مرحوم کے بعد وہ اکثر نظریہ پاکستان ٹرسٹ تشریف لاتے ہیں۔
نظریہ پاکستان میں برادرم شاہد رشید نے یہ روایت ڈالی تھی کہ ہر تقریب کی صدارت مجید نظامی کرتے تھے۔ اب ان کی جگہ صدارت کے فرائض صدر رفیق تارڑ ادا کرتے ہیں۔ بڑھاپے کے باوجود وہ ہر تقریب میں تشریف لاتے ہیں۔
مجھے صدر ہونے کا افتخار ہمیشہ محسوس ہوتا ہے جب دوست مجھے کسی علمی ادبی تقریب میں صدر کی کرسی پر بٹھا دیتے ہیں۔ کسی محفل کا صدر ہونا بھی ایک آفر ہے جو میرے جیسا درویش بھی محسوس کرتا ہے۔ ملک کا صدر ہونا یقیناً ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ ہم صدر ممنون حسین کے لئے ممونیت کا اظہار کرتے ہیں۔
28 مئی کا دن قومی دن ہے۔ یہ 23 مارچ اور 14 اگست کی ایکسٹینشن ہے۔