آج وطن عزیز کے ایٹمی قوت ہونے کے اٹھارہویں سال ملک کی سلامتی کیلئے کہیں سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آتے محسوس نہیں ہو رہے تو ہمارے لئے کوئی لمحۂ فکریہ تو ہونا چاہئے۔ اوبامہ نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی میں امریکہ کے ایٹمی قوت ہونے کے عملی مظاہرے کے 71 سال بعد ہیروشیما جا کر یہ اعلان کیا کہ وہ جاپان کے ان و شہروں پر ایٹم بم برسانے کے امریکی اقدام پر معافی ہرگز نہیں مانگیں گے۔ گویا انہوں نے امریکہ کے ایٹمی قوت ہونے کی پاسداری برقرار رکھنے کا اعلان کیا اور یہی امریکی زعم اپنی سالمیت کے تحفظ کیلئے دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں فوجی جنگی کارروائی کا اسے جواز فراہم کر رہا ہے۔ آج ہم نے وطن عزیز کا 18واں یوم تکبیر منایا تو ہمارے حکمرانوں کی جانب سے پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے پر کسی فخر و انبساط کا شائبہ تک نہیں پڑنے دیا گیا حالانکہ پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کے عملی مظاہرے کا کریڈٹ بھی موجودہ حکمران پارٹی کے قائد میاں نواز شریف کو حاصل ہے۔ اس کریڈٹ کو سنبھالے رکھنے اور اس کی بنیاد پر پاکستان کی سلامتی کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے والے اپنے بدنیت دشمن بھارت کو وطن عزیز کا دفاعی حصار مضبوط ترین ہونے کا ٹھوس پیغام دینے کی خاطر تو حکومت کو ملک کے کونے کونے میں بھی اور ملک سے باہر بھی ملک کی ایٹمی صلاحیتوں کا ڈھنڈورا پیٹنا چاہئے تھا اور یوم تکبیر کو سرکاری طور پر قومی دن کی حیثیت سے منانے کا تزک و احتشام سے اہتمام کرنا چاہئے تھا مگر ہماری طرف سے وطن عزیز کے ایٹمی قوت ہونے کا احساس کس انداز میں دلایا جا رہا ہے، اس کی چند جھلکیاں ملاخظہ فرمایئے:
1۔ آج 28 مئی کو پاکستان کے ایٹمی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے حوالے سے قوم کو یہ مایوسی بھرا پیغام دے رہے ہیں کہ وہ گزشتہ کئی برسوں سے گھر پر نظربند ہیں اور حکومت نے ان کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ ان کی نظربندی کے عرصہ میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا موجودہ تین سال کا عرصہ بھی شامل ہے۔ وہ حکومت جس کے وزیراعظم نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سالہا سال کی محنت شاقہ کے نتیجہ میں تیار ہونے والے ایٹم بم کا 28 مئی 1998ء کو چاغی کے پہاڑ پر ایٹمی بٹن دبا کر تجربہ کیا تھا، اس حکومت کے دور میں بھی ہمارا قومی ہیرو نظربندی کی زندگی بسر کر رہا ہے، کیا اس پر محض تاسف کا اظہار کر کے خاموشی اختیار کر لی جائے؟ تو بھائی صاحب! جرنیلی آمر مشرف کی اور آپ کی سوچ میں پھر کیا فرق ہوا۔ کم از کم اس مصلحت سے ہی قوم کو آگاہ کر دیجئے جس نے آپ کو ڈاکٹر اے کیو خان کی نظربندی برقرار رکھنے پر مجبور کیا ہے۔
2۔ وطن عزیز کے ایٹمی قوت ہونے کے اعلان کی منزل تک میاں نواز شریف کو امام صحافت محترم مجید نظامی کے اس ایک فقرے نے پہنچایا تھا کہ ’’میاں صاحب! ایٹمی دھماکہ کر دیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی، میں آپ کا دھماکہ کر دوں گا‘‘۔ میاں نواز شریف تو اس سرخروئی کے ڈیڑھ سال بعد مشرف کی جرنیلی آمریت کا ڈنک کھا کر اقتدار کی راہداریوں سے باہر نکل آئے اور پھر ایک سال کی نظربندی کی زندگی گزار کر خاندان سمیت جلاوطن ہو کر جدہ جا پہنچے جہاں انہوں نے عملاً آسائشات کی زندگی گزاری جبکہ پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کے اعزاز کے تحفظ کی ذمہ داری تنہا جناب مجید نظامی نے سنبھالے رکھی اور وطن عزیز کے ایٹمی ہیرو ڈاکٹر اے کیو خان کی مشرف کے ہاتھوں نظربندی کے بعد ان کی عزت و توقیر کی بازیابی کی تحریک نوائے وقت کے پلیٹ فارم پر مسلسل تین برس تک چلائی۔ ان کی رہائی کے تقاضے پر مبنی اشتہار روزانہ شائع کیا اور اس کس سزا اس پورے عرصہ کے دوران سرکاری اشتہارات کی بندش اور دوسری حکومتی سختیوں کی صورت میں بھگتی مگر میاں نواز شریف 11 مئی 2013ء کے انتخابی مینڈیٹ کے نتیجہ میں دوبارہ اقتدار میں آئے تو اس سال کے یوم تکبیر پر انہوں نے نظریہ پاکستان فرسٹ کے فورم پر آ کر جناب مجید نظامی کے پہلو میں بیٹھ کر یہ اعلان کر دیا کہ ایٹمی دھماکہ تو ہو چکا، اب ہم معاشی دھماکہ کریں گے! گویا ان کی جانب سے اہل وطن کو یہ پیغام تھا کہ ایٹمی دھماکے کا ڈھول پیٹنے کی اب کیا ضرورت ہے، ان کے اعلان کردہ معاشی دھماکہ کی تین سال میں نوبت آ پائی یا نہیں، گھمبیر لوڈشیڈنگ کے مسلط کردہ اندھیروں کے بڑھنے اور ملک کی مجموعی آبادی کا ساٹھ فیصد خط غربت سے نیچے چلے جانے سے اہل وطن اس کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ آج مجید نظامی انہیں دوبارہ چیلنج کرنے کیلئے اس دنیا میں نہیں ہیں تو ملک کی حکمران ان کی پارٹی نے دو قومی نظریئے کی آبیاری اور پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کے تسلسل کے ساتھ اظہار کیلئے ان کے قائم کردہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ساتھ بھی بے اعتنائی والا رویہ اختیار کر لیا ہے۔ انہیں تو جناب مجید نظامی کی رحلت کے بعد اس ادارے کا عملاً سرپرست بن جانا چاہئے تھا اور یوم تکبیر کی قومی سطح پر تقریب کیلئے نظریہ پاکستان ٹرسٹ ہی کو ذمہ داری سونپنی چاہئے تھی۔ بے شک آج یہ تقریب جناب محمد رفیق تارڑ کی سربراہی میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ہی ہوئی مگر حکمران پارٹی نے اس تقریب کیلئے ایک دوسرے فورم کے سر پر ہاتھ رکھا جہاں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی زیرصدارت ایک الگ تقریب کا اہتمام ہوا، کیا اس سے حکومت نے یوم تکبیر کا قبلہ تبدیل کرنے کا پیغام تو نہیں دیا۔
3۔ 28 مئی 1998ء کو پاکستان کے ایٹمی قوت سے ہمکنار ہونے کے بعد وطن عزیز کی اس سرخروئی کو اہل وطن کے دلوں میں تازہ رکھنے کی خاطر اس وقت کی حکومت نے جو میاں نواز شریف ہی کی حکومت تھی، ملک کے وفاقی دارالحکومت اور چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں مخصوص مقامات پر ایٹمی دھماکے کے بعد سفید ہوتے چاغی پہاڑ کے مال تیار کرا کے نصب کرائے تھے، لاہور میں اس ماڈل کیلئے ریلوے سٹیشن کے سامنے جگہ مخصوص کی گئی اور یہ ماڈل عوام کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ حکومت کو سرکاری سطح پر اس کی حفاظت و نگہداشت کا خصوصی اہتمام بھی کرنا چاہئے تھا تاکہ حکومت کی تبدیلی کی صورت میں بھی یہ اہتمام باقی رہتا جیسا کہ بھٹو دور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے اسلامی سربراہی کانفرنس کی یاد تازہ رکھنے کی خاطر نصب کیا گیا ماڈل آج بھی قائم و برقرار ہے اور کوئی سرد گرم اس پر اثر پذیر نہیں ہو سکا مگر پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کے اظہار کے ماڈلز کا کیا حشر ہوا، اہل وطن مایوسی کے ساتھ آج بھی اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں، تین صوبائی دارالحکومتوں لاہور، پشاور، کراچی میں نصب کئے گئے ماڈل کا وجود ہی برقرار نہیں رہا۔ کوئٹہ میں یہ ماڈل نصب ہے مگر حکومتی بے توجہی کا عملی نمونہ نظر آ رہا ہے۔ پہلے تو یہ عذر ہوتا تھا کہ ہماری حکومت کے خاتمے کے بعد آنے والے حکمرانوں نے چاغی ماڈل ہٹا کر ہم سے انتقام لیا ہے، اب تو پچھلے تین سال سے وفاق اور دو صوبوں میں آپ کی حکمرانی ہے، آپ نے اس ماڈل کی بحالی اور دوبارہ تنصیب کیلئے کیوں کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ حضور! ایسے سوالات کا سلسلہ شروع ہو گا تو بہت دور تک کے معاملات کی خبر لیتا جائے گا۔ آپ وطن عزیز کی سالمیت کے درپے اس مکار دشمن کو خوش رکھنے کی خاطر ایٹمی دھماکے کے کریڈٹ سے بھی گریزپا ہیں اور چاغی کے ماڈل کے احیاء کی جانب بھی توجہ نہیں دے رہے جبکہ یوم تکبیر کو قومی دن کے طور پر منانے کا معاملہ آپ کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا تو خدا خیر کرے! وطن عزیز کی سلامتی و خودمختاری کے تحفظ کی ذمہ داری نبھانے کیلئے قوم پھر کس سے توقعات باندھے گی۔
وزیراعظم صاحب اس وقت اپنی صحت کی آزمائش کے مراحل سے گزر رہے ہیں، خدا انہیں حفظ و امان میں رکھے اور مکمل صحتیابی کے ساتھ ملک واپس لائے مگر وہ واپس آ کر چاہے اپنے دل کے ساتھ ہی سہی، یہ ضرور سوچ بچار کریں کہ بطور سربراہ حکومت و مملکت وطن عزیز کی سالمیت کے تحفظ کا انہوں نے اب تک کون سا تقاضہ نبھایا ہے، اگر ان کے پاس اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں تو پھر وہ سسٹم کو کیوں ڈھال بناتے ہیں اور اس کے خلاف سازشوں کا کیوں رونا روتے ہیں؟
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024