وزیراعظم نواز شریف ایک ماہ قبل میڈیکل چیک اَپ کے لئے لندن گئے اور وطن واپس آ کر اُنہوں نے مختلف مقامات پر عام جلسوں سے خطاب کر کے اپنے سیاسی مخالفین کو چیلنج کر کے مسلم لیگ ن کے ساتھیوں اور اپنے اتحادیوں کی خوب حوصلہ افزائی کی لیکن جب وہ میڈیکل چیک اپ کے لئے دوبارہ لندن پہنچے تو ماہرین امراضِ قلب نے باہمی مشورے کے بعد بتایا کہ ”وزیراعظم پاکستان کی تو "Open Heart Sergery" ہو گی“۔ (یعنی دِل کی جراحی جِس میں دِل کو روک کر دورانِ خون کے لئے متبادل راہ بنائی جاتی ہے)۔ خبروں کے مطابق وزیراعظم کی بیماری دَرحقیقت ہے کیا؟ ”وہ لندن میں مُقیم اُن کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز اور دونوں بیٹے حسن نواز اور حسین نواز ہی جانتے ہیں“۔ کسی بھی طبقے کا کوئی بھی شخص جب چھوٹی یا بڑی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو اُس کے اہل خانہ اور اُس کے چاہنے والے اُس کی صحت یابی کے لئے اللہ تعالیٰ سے دُعائیں کرتے ہیں۔ اِس لئے جنابِ وزیراعظم کے اہلِ خانہ اور اُن کے چاہنے والوں کی دُعاﺅں میں بہت ہی زیادہ خلوص ہوگا۔
جنابِ وزیراعظم کے والد صاحب میاں محمد شریف (مرحوم) اُن کے لئے خلوصِ دِل سے دُعائیں کِیا کرتے تھے اور ماشاءاللہ اُن کی بقیدِ حیات والدہ صاحبہ اب بھی اُن کے لئے دُعائیں کرتی ہیں۔ صدر جنرل ضیاءاُلحق نے میاں نواز شریف کو اپنا مُنہ بولا بیٹا بنا رکھا تھا۔ ایک بار پاکستان کے عوام کو گواہ بنا کر صدر جنرل ضیاءاُلحق نے اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کی تھی کہ ”یااللہ! میری عُمر بھی نواز شریف کو عطا کر دے!“۔ دُعا قبول ہُوئی اور ضیاءالحق کے ہوائی حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد میاں صاحب تین بار وزیراعظم منتخب ہُوئے۔
اِسی طرح کی دُعا ہندوستان کے مُغل بادشاہ ظہیر اُلدّین بابر نے اپنے سگے بیمار بیٹے شہزادہ نصر اُلدّین ہمایوں کے لئے کی تھی۔ بادشاہ بابر نے یہ دُعا کی تھی کہ ”یااللہ! میرے بیٹے ہمایوں کی بیماری مجھے دے دے لیکن اِسے تندرست کر دے!“۔ دُعا قبول ہُوئی، بادشاہ بابر کا انتقال ہوگیا اور تندرست ہو کر شہزادہ ہمایوں بادشاہ بن گیا۔ مَیں نے کوئی ایسا واقعہ نہیں پڑھا جِس میں کسی بادشاہ کے بیٹے یا بھائی نے بیمار بادشاہ کی صحت یابی کے لئے اِس طرح کی دُعا کی ہو؟۔ قدیم ہندوستان میں راجا یا عام شخص کے مرنے کے بعد اُس کی ایک یا کئی بیویاں اُس کے ساتھ ہی چِتا میں بیٹھ کر اُس کے ساتھ ہی جل کر مر جاتی تھیں لیکن اب قانون کی رُو سے یہ رسم ختم کردی گئی ہے۔ اِس رسم کو ”ستی“ کہا جاتا ہے۔
ہمارے یہاں سیاسی دشمن/ مخالف کے لئے دُعا کرنے کی رسم ہے۔ 4 اپریل 1979ءکو سپریم کورٹ کے حکم سے معزول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش میں ”بڑے ملزم“ کی حیثیت سے پھانسی دی گئی تو بھٹو صاحب کے کئی سیاسی دشمنوں/ مخالفوں نے بھی بھٹو صاحب کو ”شہید“ کہا اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے خوش دِلی سے اُنہیں MRD میں شامل کر لِیا تھا۔ بعض سیاسی مخالفین محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو کر مراعات یافتہ اور نامور ہُوئے۔ اُنہوں نے بھی ”بھٹو شہیدکی وراثت“ میں اپنا حِصّہ وصول کِیا۔ 27 دسمبر 2007ءکو لیاقت باغ راولپنڈی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کِیا تو اُن کو بھی اُن کے مخالفین نے ”شہید“ تسلیم کِیا اور اب تک کہتے ہیں۔ محترمہ کے قتل پر سب سے زیادہ غم و غصّہ کا اظہار میاں نواز شریف نے کِیا تھا اور بعض سیاسی عُلماءنے بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کو ”شہادت کے مرتبے پر“ فائز کر دِیا۔
11 مئی 2013ءکے عام انتخابات سے5 دِن قبل پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان لاہور کے جلسہ¿ عام کے سٹیج پر جاتے 15 فٹ کی بلندی سے گر کر سنبھل گئے تو اُن کے چاہنے والوں نے اُن کی خیریت کے لئے دُعائیں کِیں اور میاں نواز شریف نے تو اپنی انتخابی مہم بھی منسوخ کردی تھی۔ لندن میں جنابِ وزیراعظم کی ”اوپن ہارٹ سرجری“ کی خبر سُن کر اُن کی صحت یابی کے لئے سب سے پہلے جناب عمران خان نے اور پھر چیئرمین بلاول بھٹو نے ”رسمِ دُعا“ ادا کی اور پوری قوم سے دُعاﺅں کی اپیل کی۔ اِس کالم کی اشاعت سے پہلے ہی جنابِ وزیراعظم کے دوسرے سیاسی مخالفین ”رسمِ دُعا“ سے فارغ ہو چکے ہوں گے۔
پاکستان میں اگر بادشاہت ہوتی تو میاں نواز شریف لندن میں رہ کر اطمینان سے علاج کراتے اور اُن کے صحت یاب ہونے تک حسن نواز، حسین نواز یا مریم نواز میں سے کوئی ایک اُن کا قائم مقام ہوتا۔ ایک پرائیویٹ نیوز چینل کے اینکر پرسن کے مطابق ”وزیراعظم نواز شریف کو علاج کے لئے کم از کم 20 دن تک لندن میں رہنا پڑے گا اور اِس لئے اُنہوں نے اپنے سمبندھی ( پنجابی میں کُڑم) وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کو امورِ مملکت انجام دینے کے لئے نامزد کر دِیا ہے ۔
سینٹ میں قائدِ ایوان راجا ظفر الحق ہیں۔ راجا صاحب صدر جنرل ضیاءاُلحق کے دورِ حکومت میں اُن کے "Opening Batsman" کہلا تے تھے۔ اِس لحاظ سے راجہ صاحب (جونیجو) مسلم لیگ میں میاں نواز شریف سے بھی سینئر تھے لیکن مرضی تو ” بڑے صاحب“ کی ہوتی ہے۔ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان پیپلز پارٹی میں تاحیات ”بڑے صاحب“ ہی رہے۔ اُن کے بعد نامزد چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو اور اُن کے بعد جنابِ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری ہیں؟ میاں نواز شریف جنابِ بھٹو سے متاثر ہیں۔ جوانی میں کہی گئی میری ایک غزل کا شعر ہے....
”ہمارے حُسنِ نظر کی کرشمہ سازی ہے
کہ جِس کو پیار سے دیکھا، وہ بے مثال ہُوا“
میاں نواز شریف کی جلاوطنی کے دَور میں راجا ظفر الحق مسلم لیگ ن کے چیئرمین تھے (شاید اب بھی ہوں) جنابِ وزیراعظم نے اُن کے کندھوں پر مزید بوجھ نہیں ڈالا۔ جنابِ اسحاق ڈار کے کندھے بہت مضبوط ہیں۔ جب وہ تیسری بار بھاری بجٹ اٹھانے اور اُسے عوام کے سروں پر لادنے کی طاقت رکھتے ہیں اور جنابِ وزیراعظم وطن سے دُورہوں تو ڈار صاحب ”امورِ مملکت کا بوجھ“ کیوں نہیں اٹھا سکتے؟ جنابِ ڈار ”رموزِ مملکت“ میں بھی طاق (ہُنرمند، اور ماہرِ فن) ہیں۔ رموز مملکت میں طاق ہونے کے باوجود آخری مُغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے اُستاد محمد ابراہیم ذوق نے کہا تھا کہ....
” قِسمت سے ہی بیزار ہُوں، اے ذوق وگرنہ!
سب فن میں ہُوں مَیں طاق، مجھے کیا نہیں آتا؟“
مَیں نے بھی کل جنابِ وزیراعظم کی صحت یابی کے لئے ”رسمِ دُعا“ ادا کی۔ آج کالم لِکھ کر بھی ادا کر رہا ہوں۔ اگر کوئی میرا نُکتہ چِیں اِسے میری کج ادائی یا کج بحثی سمجھ لے تو اُس کی مرضی۔ اُستاد شوق قدوائی نے میری حمایت میں بہت پہلے کہہ دِیا تھا کہ....
”جنوں میں اُٹھتی ہیں نازک مزاجِیاں کِس کی؟
مجھے تو اپنی ہی کج بحثییوں کی تاب نہیں“
”جمہوریت کے تسلسل“ کے لئے وزیراعظم میاںنواز شریف کے لئے ” دُعا اور رسمِ دُعا“ دونوں بے حد ضروری ہیں۔