پاکستانی عوام کے ذہنوں سے ضرب عضب کی سرگرمیاں کھرچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔کراچی آپریشن کسی کو یاد تک نہیں رہا کہ وہاں نائن زیرو پر کوئی چھاپہ بھی پڑا تھا یا کراچی میں سینکڑوں مزدوروں کو آگ لگا کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ملک کے کور کمانڈرز اکٹھے ہوئے، انہوںنے واویلا کیا کہ را کے دہشت گردوں نے قیامت برپا کر رکھی ہے مگر ان حقائق کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔بس ایک شور ڈگریاں، ڈگریاں، ڈگریاں۔
نیو یارک ٹائمز نے کراچی کے بھتہ خوروں، شمالی وزیرستان کے دہشت گردوں اور بھارت کی تخریب کار ایجنسی را کے ایجنٹوں پر بہت بڑا احسان کیا ہے، یہ احسان اس اخبار کے ایک ایسے رپورٹر نے کیا ہے جسے پاک فوج کی شکائت پر ملک بدر کیا گیا۔ اس رپورٹر کو پاکستان میں تعلیم کی زبوں حالی اور جعلی ڈگریوں کے فراڈ سے کس قدر دلچسپی ہو سکتی ہے، اس کا اندازہ ایف آئی اے کی پھرتیوں اور میڈیا کی میرا تھون نشریات سے کیا جا سکتا ہے، یوں لگتا ہے کہ نیویارک ٹائمز نے پاکستان پر ایک احسان عظیم کیا ہو۔ اور اسے کسی ناقابل تلافی نقصان سے بچا نے کا عظیم الشان کارنامہ انجام دیا ہو۔
پہلی بات یہ ہے کہ ایف آئی اے کے پاس اگر کوئی صلاحیت ہے اور کافی فارغ وقت ہے تو اسے دہشت گردوں، تخریب کاروں، بھتہ خوروں، درندوں، قاتلوں اور انسانی سروں سے فٹ بال کھیلنے والوں کے سراغ لگانے پر مامور کیا جانا چاہئے۔کہیں قرآن پاک یا آئین میں نہیں لکھا کہ یہ سارے کام صرف اور صرف فوج یا رینجرز یا ایف سی کو انجام دینے ہیں اور ملک کی باقی سیکورٹی اور تفتیشی ایجنسیوں کو ویہلیاں کھانی ہیں۔مگر عملی طور پر ایسا ہو رہا ہے۔پولیس کسی وقت حرکت میں آتی ہے تو ماڈل ٹائون میں سیدھی گولیاں فائر کر کے انسانی سروں اور جبڑوں کانشانہ لیتی ہے یا ڈسکہ میں ایک وکیل کے جسم سے گن کر نو گولیاں پار کرتی ہے۔ایف آئی اے کی کوئی سابقہ سرگرمی یاد کرنے کی کوشش کیجئے، شاید خانانی اینڈ کالیا کے کمپیوٹر اس نے قبضے میں لئے تھے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ادارہ کسی کام کا نہیں، اس میں جدید علم و ہنر سے آراستہ نوجوان موجود ہیں اور وہ اپنے فرائض تن دہی سے انجام دے سکتے ہیں لیکن جب عملی طور پر ملک کے وزیر داخلہ کئی ماہ سے فعال ہی نہیں تو پھر تعجب ہوتا ہے کہ کس خود کار سسٹم کے تحت اس ادارے نے جعلی ڈگریوں کے ٹرک کی بتی کا تعاقب شروع کر دیا ہے۔کیا یہ محکمہ براہ راست وزیر اعظم کے احکامات کی اطاعت کرتے ہوئے ہارڈ ڈسکوں کو ڈی کوڈ کر رہا ہے مگر وزیر اعظم کیا جانیں کہ ہارڈ ڈسک کیا ہوتی ہے اور اسے ڈی کوڈ بھی کیا جا سکتا ہے یا نہیں، ہاں، وہ لیپ ٹاپ ضرور تقسیم کرتے ہیں، مگر وہ تو فائل تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے، کجا لیپ ٹاپ کو کھولیں اور اسے استعمال میں لائیں۔وزیر اعظم پاکستان کی سرکاری ویب ساٹ پر تا دم تحریر اٹھائیس مئی کی ایک بھی خبر موجود نہیں جبکہ وزیر اعظم بھارت کی ویب سائٹ پر ان کی تازہ تریںخبریں پوسٹ کی گئی ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم کی آخری وڈیو انیس مئی کی پوسٹ کی گئی ہے، کیا پچھلے دس دنوں میں وزیر اعظم نے کسی کیمرے کا سامنا نہیں کیا۔یہ حال ہے سرکاری شعبے کی آئی ٹی کی مہارت اور سرگرمی کا۔
نیو یارک ٹائمز نے بڑی عیاری سے ایک ایسا تانا بانا بنا ہے جس میں پاکستان کے حقیقی اور سنگین تریں مسائل پس پردہ چلے گئے ہیں اور ایک ایسی الف لیلی تراشی جا رہی ہے جس سے متاثر ہونے والا کوئی ایک پاکستانی کسی تھانے میں شکائت لے کر نہیں پہنچا اور نہ کسی امریکی نے حکومت پاکستان سے اپنے سفارت خانے کے ذریعے ابھی تک کوئی شکائت کی ہے۔
مگر میں یہ نہیں کہتا کہ اس فراڈ پر پکڑ نہ کی جائے، ضرور کی جائے لیکن اس فراڈ کے غبارے میں اتنی ہوا نہ بھری جائے کہ ملک کے سنگین مسائل آنکھوں سے اوجھل ہو جائیں جو کہ ہوتے جا رہے ہیں۔ کراچی کے آپریشن کی کوئی خیر خبر سامنے نہیں آرہی اور ضرب عضب کے مجاہد کیا کیا قربانیاں پیش کر رہے ہیں، اس سے ہمارا میڈیا بے خبر ہے، صرف کسی شہید کی تدفین کی خبر آ جاتی ہے مگر اس شہید کے کارنامے کو سامنے لانے میں کسی کو کوئی دلچسپی نہیں، ضرب عضب ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، یہ بقا اور فنا کا سوال ہے، جعلی ڈگریوں سے موت واقع نہیں ہو جائے گی مگر اس رائی کو پہاڑ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اور ضرب عضب اس رام لیلی کے سونامی کے سامنے گہنا گئی ہے۔
وزیر اعظم نے ضرب عضب اور قومی ایکشن پلان پر غورو خوض کے لئے اجلاس بلایا، اس کی دو سطری خبر اور جعلی ڈگریوں کا سیاپا بیس گھنٹوں پر محیط۔اور اخبارات کے صفحوں پر صفحے کالے سیاہ۔ کیا ہمارا مستقبل دہشت گردی کے خاتمے میں مضمر ہے یا ڈگریوں کے فساد کی کہانیاں بیان کرنے سے ہمارا مستقبل محفوظ ہو سکتا ہے۔میں ایف آئی اے کی افسر شاہی سے زیادہ عقلمند نہیں ہوں مگر مجھے وزیر داخلہ چودھری نثار سے عرض کرنا ہے کہ اگر وزیر اعظم سے ان کی شکایات نہ بھی رفع ہوئی ہوں تو کم از کم اس قوم اور ملک سے تو ان کو کوئی شکائت نہیں ہو گی، قوم نے انہیں ہمیشہ عزت دی، ہمیشہ مینڈیٹ دیا، خدا کے لئے وہ قوم اور ملک کے مفاد کی خاطر اس غوغا آرئائی کو اس کے دائرے میں لائیں، یہ حکائت طولانی ہوتی چلی جا رہی ہے اور اس میں کوئی چاشنی بھی نہیں، جبکہ قومی بقا کو سنگین خطرات لاحق ہیں، دہشت گردوں کی طرف سے، ان کے سرپرستوں کی طرف سے، بھارت کی را کی طرف سے، کراچی کے بھتہ مافیا کی طرف سے، وزیر داخلہ کو پتہ ہے کہ ہم چو مکھی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس جنگ کو جیتنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ادھر ادھر نہ بھٹکیں، ساری توجہ اصل ہدف پر مرکوز کریں۔وزیر داخلہ اشاروں کو بھی سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، براہ کرم وہ قوم کو اس بخار سے نجات دلائیں اور اصلی بیماری کا علاج دریافت کریں۔ایف آئی اے کی صلاحیتیں جانچنے کے لئے اسے ایک ٹاسک دیں کہ روزانہ طالبان کے ترجمان خراسانی صاحب کے جو دعوے ای میلز کی شکل میں ہزار ہا ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کو موصول ہوتے ہیں ، ان کو تو بند کرائیں، یہ کام تو پلک جھپکنے میں ہو سکتا ہے۔رہا ڈگریوں کا جھنجھٹ تو اس کے لئے بھی محکمے کا ایک سیکشن کافی ہونا چاہئے۔پوری ایف آئی اے کی توانائیاں تو اس میں غرق نہ ہونے دیں۔یہ ایک قومی ادارہ ہے اور اسے قومی ترجیحات کا ساتھ نبھانا چاہئے۔ہماری فوج اور رینجرز نے اپنے آپ کو دائو پر لگا رکھا ہے، ان کے دائیں بائیں مورچے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور یہ فریضہ چودھری نثار بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں کہ ان کا تعلق مارشل ایریا سے ہے اور ان کے عزیز فوج میں اعلی درجات پر قابل قدر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024