سیاستدانوں کی لوٹ سیل کا موسم پھر لوٹ آیا۔ الیکشن کی تیاریاں سر چڑھ کر بول رہی ہیں۔ لاہور والے سندھ اور سندھ والے لاہور آکر گرج برس رہے ہیں۔غریب کا اس تماشے سے کیا تعلق۔بھٹو بھی زندہ شریف بھی زندہ ، غریب مر گیا۔ موٹر وے پر موٹر والے جاتے ہیں ، غریب کا موٹر وے سے کیا کام ؟ سائیکل پر امرود کی چھابڑی لگانے والا بسنت کی گڈیاں بنا کر روزی کماتا تھا۔ بسنت پر پابندی اچھی بات ہے لیکن کسی بھی کام پر پابندی لگانے سے پہلے اس غریب کے روزگار کا متبادل بھی دیا ہوتا ؟ امرود کے موسم میں امرود لگا تا ہے ، موسم کے حساب سے پھل لگا لیتا ہے غریب لیکن اس کی غریبی کا موسم سدا بہار ہے۔بمشکل پانچ سو روپے دیہاڑی بنا لے تو گھر لوٹ جاتا ہے اور کرپٹ امیر طبقہ پانچ کروڑ بھی روزانہ بنا لے اس کی ہوس اور کرپشن کا پیٹ نہےں بھرتا۔پانچ سو روپے دیہاڑی میں خاندان پال رہا ہے۔ اس ملک میں الیکشن الیکشن کھیلنے والوں کی جرابوں کا ایک جوڑا اورگلے کا پھندا عرف ٹی ہزاروں روپے کے ہیں اور وہ بھی امپورٹڈ ، پانچ سو روپے میں دیہاڑی بنیاد پر خاندان پالنے کا تصور کر سکتے ہیں یہ نواب ؟برانڈڈ اور امپورٹڈ ملبوسات پرس اور جوتے پہننے والی شہزادیاں ایک غریب عورت کے تن پر کپڑے کی حقیقت کا ادراک کرسکتی ہیں ؟ کچرے کے ڈھیر سے رزق تلاش کرنے والوں کو الیکشن اور ووٹ سے کیا دلچسپی ؟ پاکستان کا غریب دنیا کی پرسکون خلقت ہے۔ تمام دن سائیکل پر چھابڑی لگانے والا جوانی میں بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن شام کو جھونپڑی میں اپنے بچوں کے جھرمٹ میں بیٹھا بنی گالہ ، جاتی امرا یا بلاول ہاﺅس کے مکینوں سے زیادہ پرسکون اور مطمئن دکھائی دیتا ہے۔ میں نے پاکستان میں غریب سے زیادہ سکون قلب نامی نعمت کہیں نہےں دیکھی۔سیاستدانوں نے ان کی کمر توڑ دی لیکن پھر بھی یہ بھوکے بیروزگار مہنگائی کے مارے کھلکھلا کر ہنستے ہیں۔ گہری نیند سوتے ہیں۔کوڑے کے ڈھیر سے ظہرا نہ اور عشائیہ کرتے ہےں۔ شام کومل بیٹھتے ہیں تو اپنی باتیں کرتے ہےں یا سیاستدانوں اور حکمرانوں کو لعن طعن کرتے ہےں۔غلطی سے کسی بنجارن سے پوچھ بیٹھی کہ اس بار کس کو ووٹ دو گی؟۔ "کھسماں نوں کھا ون بی بی سارے" کوڑے سے نان کا ٹکڑا اٹھا کر کاندھے پر لٹکے تھیلے مےں ڈالتے ہو ئے پھر بولی "بی بی جو بھی آئے جائے ہمارا نصیب کوڑا کھانا ہے۔میری ماں نے بھی ہمیں کچرے سے رزق کھلایا ، میں بھی اپنے بچوں کو کچرے سے رزق دیتی ہوں اور میری بیٹیاں بھی یہی کام کر تی ہیں۔ ہماری تقدیر میں کوڑے سے رزق چن کر کھانا ہے۔ ہماری جوتی پر الیکشن ولیکشن۔۔۔۔۔۔ کوڑے سے خالی ڈبے اور بوتلیں مل جاتی ہیں ، کباڑ ئے کو بیچ کر دو سو روپیہ روز کا بنا لیتی ہوں۔۔۔۔ غریبوں کی آواز لگانے والا ذوالفقار بھٹو بھی ان غریبوں کے نام پر ووٹ لیتا رہا اور آگے ان کی نسلیں بھی غریب کو گولی دے رہی ہےں۔ جاتی امرا اور اسلام آباد کے شاہی محل کے مکین بھی غریبوں کو لالی پاپ دینے گھروں سے پھرنکل پڑے ہیں اور بنی گالہ محل کا مالک بھی غریبوں کو انصاف دلانے نکلا ہواہے۔ دو سو دیہاڑی بنانے والے غریب کا ووٹ دو ہزار روپے میں بک جاتا ہے۔ زید آئے بکر آئے ، غریب کی بلا سے۔ چند نوٹ میں اس کا ووٹ کوئی بھی خرید لیتا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل کے ایک تعلیمی ادارے کا مالی بولا " پچھلی بار مولانا فضل الرحمان کا بندہ دو ہزار روپے دے کر ووٹ ڈلوا نے ساتھ لے گیا تھا ، اس مرتبہ عمران خان کا بندہ پانچ ہزار روپے دے کرووٹ ڈلوانے لے گیا۔ نہ کوئی آئے نہ میں جاتا ہوں۔ سب ایک جیسے ہیں۔ میرے بچے نہ مولانا نے پڑھائے نہ خان صاحب نے۔ مالی تھا مالی رہوں گا۔ یہ لوگ خدمت عوام کی کرنے آتے ہیں اور انہیں اپنی خدمت سے ہی فرصت نہیں ملتی۔۔۔۔۔مالی سے ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ تیری حالت نہیں بدلی تو تبدیلی کے نام پر ووٹ دے دیا ؟ بولا "اگلی مرتبہ بھی ووٹ خریدنے آئے تو دیہاڑی لگانے جاﺅں گا "۔ میں حیران اس کا منہ تکتی رہ گئی کیوں کہ گوجرانوالہ کے ایک غریب دیہاتی نے بھی یہی بات کہی تھی۔ صوبے زبان میں مختلف ہو سکتے ہیں لیکن غربت کا صوبہ اور زبان ایک ہی ہے۔ غریب کی زندگی میں کوئی تبدیلی رونما نہ ﺅ سکی۔غربت کا خاتمہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کے امیر اور غریب میں فاصلہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ان دو فاصلوں میں آمنا سامنا روز محشر ہی ہو گا۔ کرپٹ اور امیر طبقہ جب الیکشن الیکشن کھیلتا ہے تو بڑے بڑے اعلان ایسے کرتا ہے جیسے جیب سے دے رہا ہو۔غریب کی چھاتی پر حکمرانیاں کرنے والے غریب کے ووٹ خرید کر آتے ہےں اور انہیں ہمیشہ کے لئیے غریب رکھا جائے گا کہ غریب ایک وقت کی روٹی کی خاطر با اسانی ووٹ بیچ آتا ہے۔ الیکشن قریب آتے ہیں تو عوامی خزانے کے منہ کھول دئیے جاتے ہےں جیسے قومی خزانہ سیاستدانوں کے باپ کی جاگیر ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38