برسوں تک بہت دھانسو اور کئی لوگوں کی نظر میں ایک ”مسیحا“ ٹھہرے افتخار چوہدری صاحب تک میری کوئی رسائی نہیں۔ سیاسی یا ریاستی حوالوں سے اہم سمجھے جانے والوں سے اتفاقاََ ملاقات ہو بھی جائے تو ذاتی کوشش بس یہی رہتی ہے کہ ان کے دل ودماغ میں چھپے ارادوں کی تھوڑی بہت خبر مل جائے۔ انہیں مشورے دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ سیاسی امور کے بارے میں اپنی رائے لکھ یا بول کر خلق خدا کے سامنے بیان کرتا ہوں اور جب کوئی بات غلط ثابت ہوجائے تو غلطی تسلیم کرنے میں کوئی دِقت بھی محسوس نہیں ہوتی۔
بہرحال ذکر افتخار چوہدری کا چل نکلا ہے اور اخبارات بتارہے ہیں کہ وہ اپنی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ اس جماعت کا نام کیا ہوگا۔ یہ طے کرنے کو کئی صحافی بھی اپنے ذہین دماغوں کو مشقت میں مبتلا کرتے پائے گئے ہیں اور کچھ رپورٹر ایسے بھی ہیں جو بہت اعتماد سے چند بڑے لوگوں کا نام لے کر انہیں افتخار چوہدری کی مجوزہ جماعت میں شامل کرچکے ہیں۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ سابق چیف جسٹس کی سیاسی جماعت کا نام کیا ہوگا اور کون کون سی سیاسی جماعت میں سے کون سے نامور لوگ ان کی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں۔ افتخار چوہدری کی سیاسی جماعت کے بارے میں اگرچہ میری ذاتی رائے ہے تو صرف اتنی کہ ”ایہہ کمپنی چلدی نظر نئیں آﺅندی“۔
عدلیہ بحالی کی تحریک کے دوران پیدا ہونے والی ہیجانی کیفیتوں میں چوہدری صاحب یقینا ایک ہیرو کی طرح اُبھرے تھے۔ میرے سمیت بہت سارے اپنے تئیں دانشور بنے افراد تو کئی مہینوں تک اس گمان میں مبتلارہے کہ اپریل 2007ءکی ایک صبح انہوں نے استعفیٰ دینے سے انکار نہ کیا ہوتا تو جنرل مشرف شاید آج بھی بہت طمطراق کے ساتھ ہمارے سروں پر کن فیکون والے اختیارات کے ساتھ مسلط ہوتا۔ سچ بات مگر یہ ہے کہ افتخار چوہدری کی پہلی بحالی کے بعد بھی جنرل مشرف نے ”ایمرجنسی۔پلس“ لگا کر انہیں اور ان کے ساتھی ججوں کو گھروں میں نظر بند کردیا تھا۔ بجائے ان کی رہائی کی تحریک چلانے کے ہماری قوم نئے انتخابات میں مصروف ہوگئی۔ عمران خان، محمود خان اچکزئی اور جماعت اسلامی والوں نے ان انتخابات میں احتجاجاََ حصہ نہیں لیا۔ ٹرن آﺅٹ اس کے باوجود بڑا جاندار رہا جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون ایک بار پھر پاکستان کی سب سے مقبول اور مو¿ثر جماعتیں ثابت ہوئیں۔ افتخار چوہدری کی خبر ہمیں صرف اس وقت ملی جب یوسف رضا گیلانی نے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہوئی اپنی پہلی تقریر میں سابق چیف جسٹس اور ان کے ساتھی ججوں کی رہائی کا اعلان کردیا اور چیف کے جاں نثار جو اتنے بے شمار بھی نہ تھے فرطِ مسرت و انبساط کے اظہار کے لئے اسلام آباد میں قائم ججوں کے لئے مختص کالونی کی طرف بڑھنا شروع ہوگئے۔
عدلیہ بحالی کی تحریک نے جنرل مشرف کو یقینا حواس باختہ کردیا تھا مگر ان سے ”نجات“ چیف کے بے شمار جاں نثاروں نے نہیں بلکہ آصف علی زرداری نے سیاسی چالوں کے ذریعے ممکن بنائی تھی۔ اس نجات میں بھی ”سب پہ بھاری“ آصف علی زرداری کا کوئی ذاتی کمال شامل نہ تھا۔ End Gameتو کہیں اور طے ہوئی تھی۔ ”سب پہ بھاری“ کے ہاتھ میں البتہ ترپ کا پتہ آگیا تھا جو اس نے بڑی مہارت سے مناسب وقت پر چلا دیا۔
End Gameکی بات چلی ہے تو مجھے اعتراف کرنے دیں کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت کی طرح مجھے بھی کئی برسوں تک یقینِ کامل تھا کہ امریکہ کی نازل کردہ War on Terrorکی وجہ سے ہمارا جنرل Mush امریکہ کے صدر بش کا Tight Buddyبن چکا ہے۔ وہ ریاستیں جو اپنے اخراجات مقامی طورپر اکٹھا کئے محاصل کے ذریعے پورا نہیں کرپاتیں ”خسارے“ کے بجٹ بناتی ہیں۔ ان کی قومی آمدنی اور ریاستی اخراجات میں تفاوت کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف قرض یا امداد کے نام پر برابر کرتا ہے۔ ایسے حالات میں کمزور ریاستوں میں ”سہاگن“ وہی ٹھہرتا ہے جسے ”پیا“ چاہے۔ باقی سب بڑھکیں اور تقریریں ہوا کرتی ہیں۔
اور پھر ہوا یہ کہ اکتوبر 2005ءکی ایک شام تھی۔ اسلام آباد میں ان دنوں امریکی سفارت خانے میں ایک اہم عہدے پر متعین ایک صاحب نے اپنے گھر کھانے پر بلارکھا تھا۔ وہاں ایک اور صاحب بھی موجود تھے جو ان دنوں واشنگٹن میں صدر بش کی چہیتی قومی سلامتی امور کی مالک ومختارکنڈولیزا رائس کے لئے ہمارے خطے میں جاری War on Terrorپر گہری نظر رکھ کر تجزیاتی تبصرے کیا کرتے تھے۔
رات کے اس کھانے میں موجود لوگوں کی تعداد دس سے زیادہ نہ تھی۔ زیادہ تر وہ لوگ تھے جو انگریزی اخبارات میں خارجہ امور پر طویل مضامین لکھا کرتے ہیں جو مجھے اکثر سمجھ نہیں آتے۔ واشنگٹن سے آیا مہمان کرید کرید کر ان لوگوں سے پوچھ رہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیاب کیوں نہیں ہورہی۔ حقانی گروپ کو قابو میں کرنا شاید پاکستانی ریاست کے بس میں نہ ہو۔ مگر یہ پاکستانی طالبان کہاں سے آٹپکے۔ ان کی طاقت وقوت کا راز کیا ہے۔ میں چونکہ ایسے معاملات کے بارے میں قطعی جاہل ہوں اس لئے کھانا ختم ہوتے ہی کافی کا انتظار کئے بغیر اپنی صحافتی مصروفیات کا بہانہ بناکر وہاں سے اُٹھ آیا۔
وہاں سے باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھا تو ”شرعی داڑھی“ سے مزین ایک لمبے تڑنگے شخص نے جس نے اپنی پتلون پیٹ پر باندھ رکھی تھی میری گاڑی کے سامنے آکر مجھے روک دیا۔ میں سمجھ گیا تعلق ان صاحب کا کسی ”ایجنسی“ سے ہے۔ انتہائی ادب سے اپنی گاڑی سے باہر نکلا اور انہیں عرض کیا کہ ان کے تمام سوالات کا جواب دوں گا مگر مجھے سب سے پہلے ”سجدہ شکر“ ادا کرنے کی اجازت دی جائے۔ وہ اپنی حیرانی پر قابو نہ پاسکا تھا اور میں نے اسے سڑک کے ایک کونے میں سجدے میں جاکر مزید پریشان کردیا۔ سجدے سے فارغ ہوکر اس کی طرف رُخ کیا تو اس نے حیرت سے میرے سجدے کا سبب پوچھا۔ میں نے انتہائی دیانتداری سے اسے بتایا کہ 1975ءسے اسلام آباد میں ہوں۔ خارجہ امور پر رپورٹنگ کی وجہ سے سفارت کاروں سے بھی بہت واسطہ رہا۔ مگر آج بڑی خوشی ہوئی کہ ایک امریکی سفارت کار کے گھر سے نکلا تو کسی ”ایجنسی“ والے نے روکا۔ ایسے واقعات ”دشمن“ ملکوں کے سفارت خانوں سے باہر نکلنے کے بعد پیش آیا کرتے ہیں۔ اسے یہ اطلاع دینے کے بعد میں نے جیب سے اپنا تعارفی کارڈ نکالا اور اسے موصوف کے ہاتھ میں دے کر اس کے ”ادارے“ کے ایک افسر کا بے تکلفی سے نام لے کر آگاہ کیا کہ ان سے کہنا مجھے فون کرلیں۔ امریکی سفارت کار کے کھانے پر جو بات چیت ہوئی انہیں بتا دوں گا۔
میں نے جس افسر کا نام لیا اس نے مجھے فون کیا کرنا تھا مگر میرے اندر بیٹھے شکی رپورٹر کو خبر ہوگئی کہ Mushاور Bushاب Tight Buddyنہیں رہے۔ اپنی اسی ”دریافت“ کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے ذرا زیادہ محنت سے پھر کھوج یہ بھی لگانا شروع کردی کہ 1990ءکے ابتدائی سالوں میں بڑے بااثر مانے جانے والے برطانوی سفیر مارک لائل گرانٹ ان دنوں کونسی ہنڈیا پکانے اسلام آباد، واشنگٹن اور دبئی کے دوروں میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ ہنڈیا بالآخر NROکی صورت نمودار ہوگئی اور اس کی بدولت Mushکا جانا ٹھہرگیا۔ اسے بھیجنے والے تمام اہم کردار اور ملکی یاغیر ملکی ادارے مطمئن اس بات پر رہے کہ مشرف کو بھیجنے کا ذمہ ان کے سر نہیں آرہا تھا۔ سارا کریڈٹ بلکہ افتخار چوہدری کے ”انکار“ اور ان کے جانثار، جو اتنے بے شمار بھی نہ تھے، بہت فخروانبساط کے ساتھ سمیٹتے چلے گئے۔
چوہدری صاحب کی پیپلز پارٹی کے دور میں بحالی کا سارا کریڈٹ اگرچہ نواز شریف کے لانگ مارچ کو جاتا ہے جس نے گوجرانوالہ کراس کرلیا تو جنرل کیانی کا فون آگیا۔ اپنی دوسری بحالی کے بعد افتخار چوہدری نے مگر اپنی ساری طاقت اور قوت کو صرف ایک منتخب پارلیمان کو (میں حکومت اور اس کی اصل یا مبینہ کرپشن کی بات نہیں کررہا) عدلیہ کے روبرو بے توقیر ثابت کرنے پر صرف کردیا۔ خلقِ خدا کو انصاف کے حصول کے لئے نچلی عدالتوں میں جو ذلتیں اٹھانا ہوتی ہیں ان کے تدارک کے لئے چوہدری صاحب نے کبھی تردد ہی نہیں کیا۔ اور اب بالآخر ہم اس ”آنے والی تھاں“ پر واپس آچکے ہیں جہاں پارلیمان ”چوروں اور لٹیروں“ کا مسکن ٹھہرائی جاچکی ہے۔ اس کے عوض عدلیہ کو کیا حاصل ہوا؟ یہ جاننے کے لئے اپنا کمپیوٹر کھولئے اور عمران خان سے والہانہ پیار کرنے والوں کے جذبات پر غور کرلیجئے جو مئی 2013ءکے انتخابات میں منظم دھاندلی کے الزامات کا جائزہ لینے کے لئے بنائے گئے کمیشن کی حتمی رائے کے اظہار کے بعد سوشل میڈیا پر پوسٹ کئے جارہے ہیں۔