میں ہرر وز ایک نئی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہوں، میں سرگرداں ہوں، حیران و پریشان ہوں، سراسیمہ ہوں۔
ایک لمحے کے لئے سوچتا ہوں تو میں انہیں شہید کہتا ہوں، شہید مانتا ہوں، اور میرا ایمان ہے کہ شہید زندہ ہیں مگر ہم اس زندگی کا ادراک نہیں رکھتے ۔
دوسرا لمحہ ایسا آتا ہے کہ میں چکرا کر رہ جاتا ہوں، میں چشم تصور میں ان کے گھر کی اسٹڈی کو خالی پاتا ہوں ، میں ان کے عام نشست کے بر آمدے میں انہیںدیکھنے سے قاصر رہتا ہوں اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ آج میں اگر ان کے گھر عید ملنے جائوں تو وہ اپنے ڈرائنگ روم میں تشریف فرمانہیں ہو ں گے جہاں وہ ہر عید کے روز ہوتے ہیں، یہ پہلی عید ہے کہ ڈرائنگ روم سوناپڑا ہو گا۔
مگر پھر ایک اورکیفیت میرے قلب و ذہن کا احاطہ کر لیتی ہے۔یہ پہلا دن ہے جب میں ان کے گھر میں داخل نہیں ہو سکا، ورنہ ہمیشہ ا س گھر کے دروازے پر مجھے دیکھتے ہی عبدالستار مجھے اندر لے جاتا رہا ہے، مگر آج یہاں عالم ہی دوسرا ہے، میں جس گھر کا قریب قریب گیارہ بارہ برس تک ایک فرد رہاہوں، یکا یک یہاں اجنبی ٹھہرا۔میں پچھلے برس ایک طویل عرصے کے بعد سر شام اس گھر میں گیا تھا، اور ان کی صحبت سے فیض یاب ہوتا رہا، انہوںنے دوبارہ پہلے جیسی محبت اور شفقت کے ساتھ مجھے اپنی ا ٓغوش میں لے لیا تھا۔ وہ ایک گھنے چھتنار درخت کی مانند تھے جو تاریخ کی راہ پر چلنے والے قافلوں کو اپنی خنک چھائوں کی رحمتوں میں لپیٹ لیتا ہے۔
میں اپنی نصف صدی کے طویل صحافتی کیریئر کے اس مرحلے پر بھر پورا ٓزادی کو انجوائے کرنا چاہتا تھا، میں برسوں بھٹکتا پھرا مگر آخر کاراس ٹھنڈے اور میٹھے سرچشمے کے کنارے آن لگا ، میں اس چشمے سے پوری طرح فیض یاب ہونا چا ہتا تھا۔مجھے ایک چھاتہ چاہئے تھا، ایک مضبوط سہا را چاہیے تھا،اور مجھے وہ کلہ مل گیا جس کے بل بوتے پر میں اپنے ضمیر کے مطابق اظہار کر سکتا تھا۔
میں نے اس کلے کے سہارے بہت مستی دکھائی، میںنے ان کی حق گوئی کی روش کو اپنایا، میںنے سچ بولنا شروع کیا،اور بولتا چلا گیا، میں جانتا تھا کہ وہ صاف گوئی کو پسند کرتے ہیں ، انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی، میں ان کی حدود وقیود کو سمجھتا تھا۔اس لئے مجھے کبھی کوئی مشکل پیش نہ آئی۔
میرا راستہ اب بھی یہی ہے کہ یہ ان کا راستہ ہے جو میرے مربی ا ور مہربان تھے۔انہوں نے میرے راستوں کو اجالا تھا، میںان راستوں سے کیسے بھٹک سکتا ہوں۔میں ان راستوں کوکیسے ترک کر سکتا ہوں۔
میں ہی نہیں،نوائے و قت میں لکھنے ولا کوئی بھی ساتھی ان کی آئیڈیالوجی کو کیسے چھوڑ سکتا ہے۔یہ آئیڈیالوجی تو ہمارے ایمان کا حصہ بن چکی۔یہی ہمارا بدن ہے، یہی ہماری غذا ہے، یہی ہمارا لباس ہے، یہی ہماری روح ہے، یہی ہماری حیات ہے۔
یہ نظریہ حمید نظامی نے دیا اور جناب مجید نظامی نے اس کو پروان چڑھایا۔یہ نظریہ پاکستان ہے۔ ہمیں بھی اسی کی آبیاری کرنی ہے، ہر لمحے کرنی ہے، ہر سانس کے ساتھ کرنی ہے، ہر چیلنج کے سامنے کرنی ہے۔
میںاپنی بات دہراتاہوں کہ نوائے وقت کے بانی اول حمید نظامی فوجی آمریت کے ہاتھوں شہید ہوئے اور نوائے وقت کے بانی ثانی اور حقیقی معنوںمیں اس کے معمار، مجیدنظامی سول آمریت کے ہاتھوں شہادت سے ہمکنار ہوئے۔
ان کی تقلید میںمیرے قلم کے ہونٹوں پر بھی ایک ہی نعرہ ہے کہ میں پھر جلایا جائوں ، میں پھر شہید ہوں، میں پھر جلایا جائوں ، میںپھر شہید ہوں، پھر شہید ہوں، پھر شہید ہوں، ہم شہادتوں کی کہکشائیں سجا دیں گے مگرحق و صداقت کی آواز بلند کرنے سے باز نہیں رہیں گے۔ تو جبرآزما، ہم جگر آزمائیں۔
بزدل اپنی موت سے پہلے بار بارمرتا ہے، اور بہادر صرف ایک بار ۔پیدائش کا لمحہ ہی در اصل موت کی طرف پہلا قدم ہے۔ کہتے ہیں کہ زندگی محض ایک خواب کا نام ہے، موت اس خواب کی خوشنماتعبیر ہے۔کوئی موت کو ایک حقیقی مہم جوئی خیال کرتا ہے۔ زندگی نے موت سے سوال کیا کہ لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور تم سے نفرت ؟۔ موت کا جواب تھا کہ لوگ تمہاری خوبصورتی پر فریفتہ ہیں مگر میں ایک درد ناک اور تلخ حقیقت، اس لئے مجھ سے خائف رہتے ہیں۔کسی نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ میںموت کے بعد بھی زندہ رہنا چاہتا ہوں ، مگر ہر کوئی اس ہنر سے آشنا نہیں۔سیانے کہتے ہیںموت سے نہ ڈرو، اس زندگی سے ڈرو جو تم گزار نہیں رہے، تم نے ہمیشہ زندہ نہیں رہنا، زندگی گزارنے کا موقع صرف ایک بار ملتا ہے۔
یاد رکھئے ایک انسان مر سکتا ہے، ایک قوم عرو ج و زوال کا شکار ہو سکتی ہے مگر ایک نظریئے کو موت نہیں آ سکتی۔
اور یہ نظریہ زندہ ہے۔ مجید نظامی کا دیا ہوا نظریہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ یہ پاکستان کی شکل میں زندہ رہے گا، یہ آزادی کشمیر کی آرزو کی شکل میں زندہ رہے گا، یہ حق و انصاف کے لہلہاتے پرچم کی شکل میں زندہ رہے گا،یہ بھارت کی غلامی کے سامنے ڈٹ جانے کی شکل میں زندہ رہے گا۔یہ نظریہ اقبال کے افکاراور قائد کے کردارکی صورت میں زندہ رہے گا۔
میں کن خوابوں میں کھو کر رہ گیا ۔میںکیوں ان ساعتوں کو بھول گیا جب ستائیسویں کی شب کے آخری لمحات میں میرے فون پر پہلا میسیج آیا تھا کہ عظیم ہستی اس دنیا میںنہیں رہی، ایک میسیج میںصرف انا للہ وا نا الیہ راجعون لکھا تھا۔ میں سب کچھ سمجھ گیا، میںنے آسمانوںکی طرف دیکھا، فرش سے عرش تک نور کا ہالہ تھا اور قطار اندر قطار نورانی فرشتے جو استقبال کے لئے کھڑے تھے۔ شرق و غرب پر محیط کہکشائیں کسی کے لئے چشم براہ نظر آئیں۔یہ نزول قرآن کی رات تھی،خالق کائنات کی رحمت اپنے جوش پر تھی۔ جب اللہ کے آخری نبی ﷺ پر آخری کتاب ،ایک ایک آئت کی شکل میں ظہور پذیر ہو رہی تھی، اور ایسی ہی مبارک ساعت میں ایک روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی، جناب مجید نظامی اپنے رب سے جا ملے تھے اور اس روشن کائنات کا حصہ بن گئے تھے جو انسانیت کی راہیں اجالتی ہے اور منزلوں کا پتہ دیتی ہے۔
میں ایک عالم سرمستی میں یہ سطور لکھے جا رہا ہوں، مجھے معلوم ہے کچھ دیر میں رمضان المبارک کا یہ انتیسواں دن بھی تمام ہو جائے گا ، اور روزے دار مغربی افق پر نئے چاند کو طلوع ہوتے دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ مگر میںکس چاند کو تلاش کروں، میرا چاند تو غروب ہو گیا۔
ان سطور کی اشاعت کے ساتھ آپ عید منا رہے ہوں گے، آپ کویہ عید بہت بہت مبارک ہو مگر ہے کوئی مجھے پرسہ دینے والا۔
اللہ کے نبی ﷺ جنگ احد کے زخم خوردہ، اپنے حجرے میں تشریف لائے تو پکاراٹھے کہ کوئی ہے جو میرے بہادر چچا حضرت امیر حمزہ ؓ کی شہادت کا پرسہ دے، وہ غم کی شدت سے نڈھال تھے۔
میں بھی غم کی شدت سے نڈھا ل ہوں۔ کوئی ہے جو میرے بہادر سپاہ سالار کی موت پر مجھے پرسہ دینے آئے۔
میں اپنے غم گساروں کا انتظار کروں گا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38