’’عید‘‘ مسلمانوں کے خوشی منانے کے معیّن دن کو کہتے ہیں۔ ہمارے یہاں عید الاضحیٰ کا دن تو معیّن ہوتا ہے لیکن عیدالفطر کا دن معین نہیں ہوتا۔ کس ملک اور اس ملک کے کس کس شہر میں کب عیدالفطر ہو؟ اس کا فیصلہ علماء حضرات کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں رویت ہلال کمیٹی کرتی ہے جو علماء رویت ہلال کمیٹی سے اختلاف کریں وہ اپنے پیروکاروں کے لئے اپنی مرضی کا دن معین کر دیتے ہیں۔ یعنی چاند اپنا اپنا اور عید اپنی اپنی۔ کہتے ہیں کہ ’’اگر عید جمعہ کو ہو تو حاکم وقت پر بھاری ہوتی ہے۔ یعنی اس کی حکومت ختم ہو جاتی ہے۔ صدر محمد ایوب خان کے دور میں ایک عید جمعہ کو آئی تو سرکاری علماء کے فتوے پر جمعرات کو دس بجے دن عوام کا روزہ تڑوا کر جمعرات کو ہی عید منانے کا فرمان جاری کر دیا گیا تھا۔
ہمارے یہاں غربت کی لکیر سے نیچے 50 فیصد مسلمانوں کی طرح غربت کی لکیر سے اوپر 50 فیصد خوشحال مسلمان بھی روزے رکھتے تھے۔ ثواب حاصل کرنے کے لئے یا غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے مسلمانوں کو احساس دلانے کے لئے کہ ’’سال میں ایک ماہ ہم بھی بھوکے رہ سکتے ہیں‘‘ حالانکہ یہ معاملہ نہیں ہے۔ ماہِ رمضان میں خوشحال خاندانوں کے اخراجاتِ سحر و افطار کئی گنا بڑھ جاتے ہیں جو اینکر پرسن مختلف نیوز چینلوں پر روزہ رکھنے اور کھولنے کی اداکاری کرتے اور اپنے پروگراموں میں شامل علما سمیت خواتین و حضرات سے خاص طور پر درخواست کرتے ہیں کہ ’’زرق برق لباس پہن کر تشریف لائیں کہ خوش لباس لوگوں کو زیادہ ثواب ملے گا‘‘ پرانے دور کے ایک شاعر نے کہا تھا
’’عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم!
رسمِ دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے‘‘
اس کے بعد کیا ہوا؟ ’’ظالم‘‘ (معشوق) نے ’’مظلوم‘‘ (شاعر) کو گلے لگایا یا نہیں؟ راوی خاموش ہے۔ میں نے تو عید کے دن کسی بھی ظالم کو کسی بھی مظلوم سے گلے ملتے نہیں دیکھا۔ سنا بھی نہیں۔ پنجگانہ، جمعہ اور عیدین کی نماز میں ہر محمود اپنے ایاز کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد محمود اپنی صف میں اور ایاز اپنی صف میں۔ ہمارے مولوی صاحبان ہر نماز سے پہلے یا بعد میں میلے کپڑے والے نمازیوں سے کہتے ہیں کہ ’’امارت اور غربت کا نظام تمام جہانوں اور کائنات کے خالق اور مالک کا قائم کردہ ہے‘‘ علامہ اقبالؒ نے نہ جانے کس موڈ میں کہا تھا کہ
’’کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے؟
پیرانِ کلیسا کو کلسیا سے ہٹا دو!‘‘
یہ پردے کون ہٹائے گا؟ عام مولوی سے ترقی کرنے والے ’’شیخ الاسلام‘‘ علامہ طاہرالقادری قسم کے لوگ تو خود خالق اور مخلوق کے درمیان آہنی پردہ ہیں وگرنہ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں غریبوں کے لئے سال میں ایک ماہ روزے اور باقی گیارہ فاقوں کا نظام نہ ہوتا۔ علامہ اقبال نے اپنے دور میں کہا تھا کہ؎
’’فلک نے کی ہے عطاء ان کو خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں کہ روش بندہ پروری کیا ہے؟‘‘
پاکستان کے ہر دور میں یہی صورتحال ہے۔ آج بھی روش بندہ پروری وہی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ جناب محمد اسحاق ڈار ہر دوسرے ہفتے زر مبادلہ کے ذخائر بڑھنے کی نوید دیتے ہیں لیکن ان کے پاس مہنگائی کو روکنے کا ’’اسم اعظم‘‘ نہیں ہے حالانکہ ان کا دعویٰ ہے کہ مجھے حضرت داتا گنج بخشؒ نے اسلام آباد میں "On Deputation" وزیر خزانہ بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ تو جنابِ ڈار نے پاکستان کے ہر شہر اور تحصیل میں بھوکوں کے لئے لنگر کیوں نہیں کھولے؟ یہ بات کئی بار شائع ہو چکی ہے کہ ’’جناب نواز شریف ایٹمی دھماکا کرنے میں ہچکچا رہے تھے جب ڈاکٹر مجید نظامی (مرحوم) نے انہیں کہا تھا کہ ’’وزیراعظم صاحب! آپ ایٹمی دھماکہ کر دیں ورنہ قوم آپ کا دھماکا کر دے گی اور میں بھی!‘‘ 28 مئی 2013ء کو ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کے ڈیرے (ایوان کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور) پر جناب نواز شریف نے کہا تھا کہ ’’اقتدار میں آ کر ’’معاشی دھماکہ‘‘ کروں گا۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنا یہ وعدہ پورا نہیں کیا۔ دہشت گردوں کے دھماکوں میں تو ’’ضرب العضب‘‘ کی وجہ سے کمی آ گئی ہے لیکن مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگوں کے دھماکے پر دھماکے ہو رہے ہیں۔ جب لوگوں کے پرخچے (پرزے) اڑیں گے تو غالب کے بھی پرزے اڑ سکتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ مسلم لیگ ن کو 5 سال کے لئے مینڈیٹ ملا ہے لیکن ایک سال اور دو ماہ میں عوام کا تو بھرکس ہی نکل گیا ہے۔ حضرت داغ دہلوی کے رقیب بہت کمزور ہوں گے جب انہوں نے کہا ؎
’’آخر کو ٹھیک ہو گئے وہ مجھ سے بِھڑ کے آج
اتنے پٹے رقیب کہ بھرکس نکل گیا‘‘
عوام کا بھرکس نکل جانے کے بعد حکمران جماعتوں کے رقیبوں نے بھی سر اٹھا لیا۔ علامہ طاہرالقادری کی تو خیر کوئی سیاسی اوقات ہی نہیں لیکن عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی تو ’’پاکستانی نژاد‘‘ ہیں۔ دن بدن بگڑتی ہوئی صورتحال سے فائدہ کیوں نہیں اٹھائیں گی؟ وفاق اور پنجاب کے وزراء حزب اختلاف کے سیاستدانوں کی تضحیک کرکے اور مخولیا پارٹی بن کر بھوکے لوگوں کا پیٹ نہیں بھر سکتے۔ عام لوگ اس ’’کامیڈی سرکس‘‘ سے تنگ آ گئے ہیں۔ حکومتی پارٹی اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے الگ الگ منشور میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ’’عوام کی بھوک کا علاج کامیڈی سرکس سے ہو گا؟
جناب مجید نظامی حکمرانوں کو اکثر یاد دلایا کرتے تھے کہ ’’قائداعظم پاکستان کو اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت بنانا چاہتے تھے‘‘ کسی نے بھی کان نہیں دھرا۔ مسلم لیگ کے نام سے اقتدار میں آنے والی کسی بھی حکومت نے عملی طور پر قائداعظم کی اس خواہش کی تکمیل کے لئے کچھ نہیں کیا۔ ہر دور کا وفاقی بجٹ ’’اعداد و شمار کی شاعری‘‘ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ذخیرہ اندوز، بلیک مارکیٹرز، سمگلرز، لینڈ مافیا، قبضہ گروپس، ٹارگٹ کلرز اور اغوا کار ہر دور کے حکمرانوں کے جگری یار ہوتے ہیں۔ اب تو عام لوگوں کی ایک ہی امید ہے کہ کب عیسیٰؑ آسمانوں سے اتریں اور ہر ’’کانے دجال‘‘ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں؟
’’نوائے وقت‘‘ کے بانی جناب حمید نظامی کو فوجی آمریت کی وجہ سے دل کا عارضہ ہو گیا تھا۔ وہ اچانک چل بسے۔ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے اپنے سامنے پاکستان کو دولخت ہوتے دیکھا۔ انہیں بھی دل کا عارضہ ہو گیا۔ بھارت سے مقبوضہ کشمیر کا قبضہ نہیں چھڑایا جا سکا۔ اس نے مقبوضہ کشمیر کی طرف سے پاکستان کی طرف بہنے والے ہمارے دریائوں پر 60 ناجائز ڈیم بنا لئے۔ مسلم لیگ کے سارے دھڑے ایک نہیں ہو سکے۔ جنابِ نظامی کا تین بار بائی پاس ہوا۔ آخر کار وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ آوے کا آوے ہی بگڑا ہوا ہے۔ جناب نظامی کے بعد عید کے دن بھی!
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024