ہمارے میڈیا کے ’’سٹار‘‘بنے میرے کچھ دوست پاکستان اور بھارت کے مابین بڑھتی کشیدگی کو اس طرح رپورٹ کررہے ہیں جیسے کوئی فٹ بال میچ ہورہا ہو۔ دونوں ٹیمیں اس میچ کی بہت تگڑی ہیں۔ ہمیں اپنی فتح کا مگر یقین ہے کیونکہ ہمارے پاس…بہرحال جو بھی ہے وہ چل گیا تو ہم رہیں گے نہ تم۔ دونوں ممالک کی ٹی وی سکرینوں پر برپا شوروغوغا کو مگر بہت ہوشیاری سے نظرانداز کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم خوب سوچ سمجھ کر کچھ پتے کھیلنے کی کوشش کررہا ہے جوطویل المدتی تناظر میں پاکستانی معیشت او رخاص کر اس کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
سندھ طاس معاہد ے کو یک طرفہ ختم کردینا بھارت کے لئے ممکن ہی نہیں۔ ٹھوس زمینی حقائق کو تبدیل کئے بغیر کشمیر سے وادیٔ سندھ تک پہنچنے والے دریائوں کے فطری اور تاریخی بہائو کو تبدیل کرنے کی کوشش ہوئی تو مقبوضہ کشمیر طوفان نوح جیسی مصیبت کا شکار ہوجائے گا۔ شاید چند بھارتی پالیسی سازروں کو اس کے بارے میں کوئی فکر نہ ہو۔ پاکستان کا مگرپانی روکا گیا تو اس کی وجہ سے آئی تباہی فقط مقبوضہ کشمیر تک محدود نہیں رہے گی۔ بھارتی پنجاب اور ہریانہ کے وسیع تر حصے بھی جھیلوں میں تبدیل ہوجائیں گے۔
ٹھوس زمینی حقائق کے جبر سے بالاترایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ سندھ طاس معاہدے کو عالمی بینک کی معاونت سے حتمی شکل دی گئی تھی۔ اس معاہدے سے قطع تعلقی کا اعلان مودی کے لئے سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ نریندر مودی ایک کٹر ہندو ہے۔ وہ ’’آریہ ورت‘‘ کے نظریے کے تحت ’’مہا بھارت‘‘ کے خواب دیکھتا ہے جس کی سرحدیں قندھار سے شروع ہوکر صرف پاکستان،نیپال ،سری لنکال اور بنگلہ دیش ہی کو اپنے ’’جزولاینفک‘‘ شمار نہیں کرتیں۔انڈونیشیا، تھائی لینڈ ،ویت نام اور کمبوڈیا کو بھی ’’ہندوتہذیب‘‘ کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔مشرقی ایشیاء کے بارے میں ہندوانتہاء پسندوں کے ذہنوں میں گھسے ان خیالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی امریکہ نے کئی برسوں کی محنت کے بعد بھارت کو اپنی بحری قوت کو مضبوط تر کرتے ہوئے South Seaکے تناظر میں اس ملک کو چین کے مقابلے کے لئے اپنا حلیف بنالیا ہے۔
کٹر ہندو پن مودی کا صرف عقیدہ ہی نہیں۔ اس نے اس عقیدے کی تبلیغ کے لئے اپنی زندگی کے کئی برس انتہاء پسند ہندو تنظیم RSSکے پرچارک کی حیثیت میں بھی گزارے ہیں۔ سیاست کی مگر کچھ ٹھوس مجبوریاں ہوتی ہیں۔ گجرات کا وزیر اعلیٰ بن جانے کے بعد مودی نے اپنے صوبے میں بھارتی Corporate Worldکو زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کے لئے ہر ممکن سہولتیں فراہم کرنے کی کوششیں کی۔ ٹاٹا جیسے سرمایہ دار گھرانے یہ سمجھتے ہیں کہ پنڈت نہرو اور اس کے جانشینوں کی Planned Economyسے محبت نے بھارتی معیشت کو ممکنہ توانائیو ں کے ساتھ خوش حالی کی طرف تیز رفتاری سے بڑھنے نہیں دیا۔ پرمٹ اور لائسنس راج نے سرمایہ کاروں کے بجائے بھارتی افسر شاہی کو مضبوط کیا۔ نہرو کی سوشلزم کے نام پر اپنائی پالیسیوں اور اندرا گاندھی کے لگائے’’غریبی مکائو‘‘ والے نعرے نے ریاست اور حکومتی ڈھانچے کو مضبوط تو ہر ممکن طریقے سے کیا مگر اسے برقرار رکھنے والی معیشت کو بیمار بنادیا۔ یہ باور کیا جارہا تھا کہ بھارت کا وزیر اعظم منتخب ہوجانے کے بعد نریندرمودی ہندو عقائد کے پرچارک کے بجائے سرمایہ کاروں کا سرپرست وسہولت کار بن جائے گا۔
مودی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد متواتر غیر ملکی دوروں کے ذریعے اپنے بارے میں پھیلائے اس تصور کو درست ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ وہ ہر دوسرے روز کسی نہ کسی ملک یا بین الاقوامی کانفرنس میں کھڑا ہوکر اپنے ملک میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیتا سیلز مین نظر آتا ہے۔سندھ طاس معاہدے کو یک طرفہ طورپر ختم کرنے کے بعد لیکن مودی ایک ایسے شخص کے طورپر جانا جائے گا جسے عالمی معاہدوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے حتمی سرپرست اور فیصلہ ساز ادارے ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ ان کی قوت اور اثرورسوخ کی ایک زندہ مثال ہے۔ اسی لئے تو 1965،1971ء اور کارگل کی وجہ سے ہوئی جنگوں کے باوجود یہ معاہدہ اپنی جگہ برقرار رہا۔ 2016ء میں اسے متنازع بناکر مودی حکومت عالمی سرمایہ کاروں اور ان کے Regulatorsکے روبرو اپنا اعتبار کھوبیٹھے گی۔ سندھ طاس معاہدہ کو ختم کرنا لہذا ایک گیدڑ بھبکی ہے۔
اس گیدڑ بھبکی کی اصلیت کو خوب جانتے ہوئے بھی پاکستان کو مگر یہ بات خوب جان لینا چاہیے کہ 90ء کی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی بھارت نے ایسے ذرائع اور ’’قدرتی‘‘ نظر آنے والے ہتھکنڈوں کی تعمیر وتلاش شروع کردی تھی جو نظر بظاہر سندھ طاس معاہدے کی شقوں کی واضح انداز میں خلاف ورزی نہیں کرتے۔ پاکستان کو اس معاہدے کی تمام تر شرائط پر ’’عمل کرتے ہوئے بھی‘‘ ہمارے حصے کے دریائوں کے پانی سے بروقت فراہمی سے محروم کیا جاسکتاہے۔
گزشتہ ایک ہفتے سے میں نے اپنے تئیں کافی کوشش کی کہ ہمارے ہاں زراعت اور پانی کے مسائل پر تحقیق کے نام پر بنائے اداروں میں اس موضوع پر کوئی ٹھوس کام ہوا ہے یا نہیں۔ میں اپنے محدود وسائل اور ذرائع کو بھرپور انداز میں استعمال کرنے کے باوجود کوئی ایسا مقالہ یاکتاب حاصل کرنے میں قطعاََ ناکام رہا ہوں جو شور شرابے اور نعرہ بازی کے بجائے صرف اور صرف ٹھوس اعدادو شمار کے ذریعے مجھے یہ سمجھا سکے کہ سندھ طاس معاہدے کی طے شدہ شرائط پر ’’ہو بہو عمل کرتے‘‘ ہوئے بھی، بھارت ہمیں اپنے حصے کے پانی کی بروقت فراہمی سے کن ہتھکنڈوں کے ذریعے محروم کرسکتا ہے۔
SDPIنامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے کچھ لوگوں نے اس ضمن میں تھوڑا بہت کام کیا ہے۔ ان کا زیادہ تر Dataمگر Track-2کے تحت ہوئے علمی مباحث کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ مجھ ایسا غیر کاشتکار یا پنجاب اور سندھ کا درمیانے درجے کا تھوڑا پڑھا لکھا کاشتکار اس Dataکو سمجھ ہی نہیں سکتا۔
پاکستان کو اس کے حصے کا پانی بروقت فراہم نہ کرنے والے ہتھکنڈوں کو منطقی انداز میں سمجھے اور سمجھائے بغیر ہم ’’عالمی ضمیر‘‘ نامی جانور کو ان کے بارے میں آگاہ نہیں کرسکتے۔ تحقیق بدقسمتی سے ہمارا شیوہ نہیں۔بڑھک بازی سے کام چلانے کے عادی ہیں۔ بڑھکیں دلوں کو کچھ عرصے کے لئے گرما تو دیتی ہیں مگر ٹھوس حوالوں سے کسی کام نہیں آتیں۔ہمیں Dataچاہیے۔پانی کی فراہمی سے متعلق سوالات کا جدید سائنسی آلات ودلائل کے ذریعے جائزہ لینے والے ماہرین۔ تحقیق کی لگن کے بغیر ہم پانی کے حوالے سے اپنے حال اور آنے والی نسلوں کو درپیش مشکلات کا اندازہ لگاہی نہیں سکتے۔ ان مشکلات کا توڑ ڈھونڈ کر ان پر عمل کو یقینی بنانا تو بہت دور کی بات ہے۔
مجھ کو تحقیق کی فکر لاحق ہے تو ہماری ٹی وی سکرینوں پر بہت سنجیدگی سے سوال یہ زیر بحث ہے کہ کہیں مودی نے اپنے ’’یار‘‘ کو رائے ونڈ مارچ سے بچانے کے لئے پاک -بھارت کشیدگی کا ڈرامہ تو نہیں رچادیا۔ ایسے سوالات کے ہوتے ہوئے میں اپنی فکر آپ کے سامنے کس طرح بیان کرسکتا ہوں؟