عمران خان نے بلاول بھٹو زرداری کی قیادت قبول کر لی ہے۔ نیا پاکستان عمران کا نعرہ تھا مگر اب انہوں نے بلاول سے کہا ہے کہ نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں ہم ساتھ دیں گے۔ شیخ رشید تو پہلے ہی بلاول سے متاثر لگتے ہیں۔ انہوں نے ہی عمران کو بلاول کے لئے بریفنگ دی ہو گی۔ بلاول اب پوری طرح لیڈر بننے والے ہےں۔” صدر“ زرداری نے پاکستان میں جلدی جلدی نہ آ کے بلاول کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنی بات بنا لےں۔ میرے خیال میں قدم قدم پہ بلاول کو اپنے والد کی ضرورت پڑے گی۔ بلاول کے مقابلے میں مریم نواز شریف پوری تیاری میں لگی ہیں۔ عمران خان اور شیخ رشید مریم نواز کی جائز تعریف بھی نہیں کریں گے۔ میں مریم نواز اور بلاول کی قدر کرتا ہوں۔ یہ نوجوان قیادت ہے۔ نوجوان قیادت عمران خان بھی ابھی تک اپنے آپ کو سمجھتے ہیں۔ تحریک انصاف کے دوسرے سیاستدان بھی یہی سمجھتے ہیں۔ عمران نے کچھ صحافیوں اور کالم نگاروں سے بات چیت کی تھی۔ اس کے لئے میں اگلے کالم میں ذکر کروں گا۔
اقوام متحدہ میں نواز شریف کی تقریر کی بہت دھوم ہے۔ مودی کی یاری کے شور میں ان سے یہ توقع نہ تھی مگر مزا آگیا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ مودی کا نام لیتے۔ انہیں بلوچستان سے گرفتار ”را“ کے ایجنٹ کلبھوشن کا ذکر کرنا چاہیے تھا۔ ایک عالمی فورم پر یہ باتیں بہت بے معنی لگتی ہیں۔ کشمیر کے لئے پاکستانی مو¿قف مودی کو سنانے کے لئے تھا۔ ہم نے بھی سن لیا۔۔ یہ بھی شوشہ چھوڑا گیا ہے کہ یہ باتیں مودی سے پوچھ کر کی گئی ہیں۔ چوہدری پروی الٰہی نے یہ بات ذرا مختلف طریقے سے سیاسی انداز میں کہی ہے۔ قومی معاملات میں سیاستدان کی ذاتی بات بھی بہت اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ نری تعریف اپنی افادیت کھو دیتی ہے۔ بلوچستان کے سلسلے میں مودی کی لغو بات کو کئی دوست مشرقی پاکستان کے ساتھ جا ملاتے ہیں۔ جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ نواز شریف نے بلوچستان کا ذکر نہ کر کے اچھا کیا ہے۔ کسی طرح بھی ہم بلوچستان کا ذکر اس طرح نہ کریں گے، مودی یہ سمجھے میں پاکستانیوں کو پریشان کرنے میں کامیاب ہو گیا ہوں۔کانگریس کے مسلمان لیڈر مولانا ابوالکلام آزاد نے کہہ دیا تھا کہ 25 برس میں پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ یہ کیسی سازش تھی کہ دو حصوں میں ایک میل کا فاصلہ ہو۔ علاقہ بھی دشمن کا ہو۔ مناسب فوج نہ ہو۔ کوئی رابطہ جنگ کی صورت میں نہ ہو۔ اس میں بھارتی سیاستدانوں کا واویلا کہ ہم نے پاکستان کو شکست دے دی ہے۔ فضول اور بے معنی ہے؟ بھارت بنگلہ دیش سے مخلص ہوتا تو اپنا بھارتی بنگال بھی بنگلہ دیش میں شامل کرتا تاکہ گریٹر بنگال کی بات پوری ہوتی۔
پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے تعلیمی اور تخلیقی سرگرمیوں میں ہمیشہ بہت دلچسپی لی ہے۔ مجھے نوائے وقت کے بانی حمید نظامی چیئر کے لئے پروفیسر کی پوسٹ پر اعزازی طور پر مجید نظامی کی سفارش پر مقرر کیا گیا ہے۔ دو سال سے بھی کم عرصے میں ہم نے حمید نظامی کے صحافیانہ کردار اور خدمات کے حوالے سے دو کتابیں شائع کی ہیں۔ کتاب کا انتساب ڈاکٹر مجاہد کامران اور رمیزہ نظامی کے نام ہے۔ اب ہم نے حمید نظامی کے ساتھ مجید نظامی پر تحقیق کو بھی شامل کر لیا ہے۔
یونیورسٹی گراﺅنڈ میں مصباح الحق بھی تھے۔ ان کا تعلق عمران کی طرح میانوالی سے ہے۔ دونوں اپنے نام کے ساتھ نیازی نہیں لکھتے۔ عمران نے کبھی مصباح الحق کا نام نہیں لیا۔ مصباح ان کا بہت احترام کرتا ہے۔