وزیرداخلہ احسن اقبال جنہیں عمران خان مسلم لیگ ن کا ارسطو کہتے ہیں پڑھے لکھے سیاسی لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے بھی مسلم لیگ ن کی دوسری حکومت کے دوران ویژن 2030ء کا ایک تصور دیا تھا جس کے تحت پاکستان کو 2030ء تک ایشیا کا ٹائیگر بنایا جانا تھا۔ وہ الگ بات ہے کہ مسلم لیگ ن کی دوسری حکومت نے 1999ء میں فوج سے لڑائی مول لے لی جس کا نتیجہ 12 اکتوبر 1999ء کو مارشل لاء کی صورت میں نکلا۔ نواز شریف اور ان کی کابینہ کے ارکان گرفتار ہوئے۔ نواز شریف اٹک جیل میں پہنچ گئے اور پھر سعودی عرب کی مداخلت سے فوج کے ساتھ ایک سمجھوتہ کر کے ملک سے باہر چلے گئے۔ کم و بیش دس سال تک سعودی عرب میں جلا وطنی کی زندگی گزاری۔ سابق وزیراعظم ان دنوں سعودی عرب میں ہیں‘ وہ عمرہ کرنے کے لئے گئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے بعض زعما نے سابق وزیراعظم کی سعودی لیڈروں سے ملاقاتوں کو ’’مثبت‘‘ قرار دیا ہے۔ کچھ حلقے دعویٰ کر رہے ہیں کہ امکان ہے کہ سعودی عرب کے ذریعے ایک مرتبہ پھر سابق وزیراعظم موجودہ بحران سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔
احسن اقبال سے بات شروع ہوئی تھی۔ وہ اپنے ویژن 2030 کے خواب کو عملی تعبیر نہ دے سکے۔ مسلم لیگ ن کے اقتدار میں آنے اور ان کے وزیر بننے سے چند برس قبل لندن میں راقم سے بات چیت کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ تھا کہ ان کا ایک خواب یہ بھی ہے کہ وہ پاکستان میں ایک اعلیٰ پائے کی یونیورسٹی قائم کریں اور باقی زندگی تعلیم کے لئے وقف کر دیں۔ 2013ء میں وہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی کے رکن اور پھر وزیر منصوبہ بندی اور ترقیات بن گئے۔ پاک چین اقتصادی راہداری سی پیک کے پاکستان میں کرتا دھرتا وہی ہیں۔ انہوں نے اس منصوبے کا اچھی طرح دفاع کیا ہے اور جن حلقوں نے سی پیک پر تحفظات کا اظہار کیا ان کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے وہ کئی مباحثے کر چکے ہیں اور بریفنگز دے چکے ہیں۔ وہ اب بھی تسلسل کے ساتھ سی پیک کے بارے میں اٹھائے جانے والے سوالات کے جوابات دے رہے ہیں۔ انہیں وزارت داخلہ کا منصب تو دیا گیا ہے لیکن شاید ان کا دل سی پیک منصوبے میں ہے۔
جمعرات کے روز انہوں نے چند سینئر اخبار نویسوں کو دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا تھا۔ احسن اقبال کی گفتگو کا مرکزی نکتہ پاکستان کی اقتصادی ترقی تھی۔ انہوں نے پاکستان کے حالات کا جو تجزیہ کیا اس میں انہوں نے موجودہ بے یقینی کی صورتحال کا ذمہ دار میڈیا کو قرار دیا۔ احسن اقبال کے خیال میں اس عہد میں جو ففتھ جنریشن وار ہو رہی ہے۔ اس میں میڈیا بہت بڑا ہتھیار ہے۔ احسن اقبال کی رائے یہ تھی کہ پاکستان کے ٹی وی ٹاک شوز میں شام آٹھ بجے سے رات گیارہ بجے تک جو بحث و مباحثہ ہوتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ پاکستان خدانخواستہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ سب کچھ ختم ہونے والا ہے۔ پاکستان کے حالات کی ایسی منظر کشی کی جاتی ہے کہ پاکستان کو ڈوبتا ہوا دکھایا جاتا ہے۔ احسن اقبال کے خیال میں پاکستان کے اندر پاکستان کے بارے میں جو تصور Perception ہے وہ پاکستان سے باہر نہیں ہے۔ انہوںنے عالمی بنک اور دوسرے اداروں کے پاکستان کے بارے میں جو جائزے پیش کئے ہیں ان کے مطابق پاکستان ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے اور مستقبل میں عالمی سطح پر پاکستان کے ایک معاشی قوت بن کر ابھرنے کے سارے امکانات موجود ہیں۔ احسن اقبال نے ایک بین الاقوامی ادارے کا یہ تجزیہ پیش کیا کہ اگر پاکستان موجودہ بے یقینی کی صورتحال کے ساتھ بھی آگے بڑھے تو 2047ء میں جب پاکستان سو سال کا ہو جائے گا تو اس کی فی کس آمدنی 1600 ڈالر تک ہو جائے گی۔ لیکن اگر پاکستان میں بے یقینی کی صورتحال ختم ہو جائے توپاکستان کی سویں برسی پر پاکستان کی فی کس آمدنی 8 ہزار ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
پاکستان کے ایک طاقت ور اور ترقی یافتہ ملک بننے کے امکانات سے کس کو انکار ہے۔ دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جن میں نہ تیل ہے نہ گیس‘ نہ قیمتی دھاتوں کے ذخائر ہیں۔ جہاں زراعت بھی نہ ہونے کے برابر ہے یہ ممالک رقبے اور آبادی کے اعتبار سے پاکستان سے کہیں کم ہیں۔ لیکن ان کا شمار اقتصادی سپر طاقتوں میں ہوتا ہے کوریا اور جاپان اس کی مثال ہیں سینئر اخبار نویسوں کے ساتھ گفتگو میں احسن اقبال نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ موجودہ بے یقینی کی صورت حال مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جاری ایک کشمکش کا نتیجہ ہے۔ احسن اقبال کا خیال ہے کہ ایسی کوئی کشمکش نہیں ہے البتہ بعض سیاسی عناصر میڈیا کے بعض گروپ اور کچھ سابق فوجی آفیسر مسلم لیگ ن اور فوج کے درمیان محاذ آرائی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں احسن اقبال سے جب انہیں احتساب عدالت جانے سے رینجرز کی طرف سے روکنے اور اس واقع کے بارے میں رپورٹ مانگنے کے بارے میں سوالات پوچھے گئے تو وہ کنی کترا گئے۔ وزیر داخلہ کی گفتگو کا نچوڑ یہ تھا کہ پاکستانی میڈیا ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کر رہا ہے۔ موصوف نے میڈیا کے لئے ایک ضابطہ اخلاق کی ضرورت کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے موجودہ سیاسی بے یقینی میں مسلم لیگ ن کی کسی غلطی کو ماننے سے انکار کر دیا۔ احسن اقبال نے مسلم لیگ ن کی حکومت کی معاشی پالیسیوں پر بعض معیشت دانوں کی تنقید کو یکسر مسترد کر دیا اور کہا کہ جو ’’انڈی پنڈنٹ اکانومسٹس‘‘ ہماری معاشی پالیسیوں پر نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر کسی نہ کسی سرکاری عہدے کی تمنا لئے پھرتے ہیں۔ کوئی سٹیٹ بنک کا گورنر بننا چاہتا ہے اور کوئی دوسرے سرکاری معاشی ادارے کا سربراہ یا ایڈوائزر بننا چاہتا ہے۔