پچھلے دنوں جتنے کالم دلیر اور دیانت دار غیور اور خوددار اہل اور اہل دل و دماغ وزیر داخلہ چودھری نثار کی مختلف باتوں اور کارگزاری کے حوالے سے لکھے گئے۔ عوام نے بھی ان کو سراہا۔ صرف جنرل راحیل شریف کے لیے ایسی محبت اور وابستگی کی مثال ملتی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے بھی ہمیشہ قوم کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ دونوں کے کردار اور گفتار میں ایک ہی جذبہ ہے۔ کئی کالم دونوں کے لئے لکھے گئے۔ خوشامدی صحافیوں کے علاوہ کسی نے کوئی کالم کسی وزیر شذیر کے لیے لکھا ہے؟ قومی جذبے سے کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ اسداللہ غالب نے کئی بھرپور کالم لکھے حتیٰ کہ سعید آسی اور نصرت جاوید نے بہت سلیقے سے اظہار محبت کیا ہے جبکہ دونوں حکومت کے کسی فرد کے لیے سخت باتیں ہی کرتے ہیں۔ میں بھی حکمرانوں سے دور بھاگتا ہوں مگر چودھری نثار نے مسلسل زوردار باتیں کی ہیں تو ہم نے سوچا کہ وہ کالم نگار ہوتے تو کیا ہوتے۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں کل کہا ہر وزیر کی کارکردگی کو ایوان میں پیش کیا جائے۔ اس کے لیے پہلے انہوں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ وزارت داخلہ کے معاملات کے لیے میں ہر طرح سے حاضر ہوں۔ نواز رضا نے پارلیمنٹ کی ڈائری میں لکھا ہے ’’ دو تہائی کی اکثریت ایوان زیریں میں رکھنے کے باوجود اپنے ارکان کو ڈسپلن کا پابند نہیں بنایا جا سکا۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب نہ صرف ہر اجلاس میں موجود ہوتے ہیں بلکہ دوسرے وزرا کا بوجھ بھی اٹھاتے ہیں۔‘‘ نواز رضا نے یہ نہیں لکھا کہ خود وزیراعظم بھی قومی اسمبلی میں غیرحاضر رہتے ہیں۔ حکومت کی نمائندگی ہمیشہ چودھری نثار کرتے ہیں۔ بلکہ وہ پورے ایوان کی نمائندگی کرتے ہیں۔
انہوں نے ایک زبردست بات کی ’’شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے وی آئی پی کلچر ختم کر دیا گیا ہے۔ اب صدر اور وزیراعظم کا خاندان بھی پاسپورٹ آفس جاتا ہے‘‘۔ یہ اختلافی بات ہے مگر وی آئی پی کلچر تو ہر جگہہے۔ وی آئی پی کلچر مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بھی چودھری نثار کر لیں گے۔ اس معاشرے سے کرپشن بھی اس طرح ختم کی جا سکتی ہے۔ کرپشن وہی کرتا ہے جو اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔ سب برابر ہو جائیں۔ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے لیے اپنی باری کا انتظار سب کریں تو پھر جعلی اور جھوٹے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کیسے بنیں گے؟ جن کے پاس کوئی پوزیشن ہے اور جس کے پاس پیسہ ہے وہی کرپشن کرتے ہیں۔ دفاتر کے اندر بھی اور باہر بھی؟
چودھری نثار نے بڑی دلیری سے انکشاف کیا کہ ’’متعدد ارکان پارلیمنٹ نے غیرملکیوں کو نادرا میں نوکریاں اور پاکستانی دستاویزات دلانے کے لیے سفارش کی ہے۔‘‘ یہ سفارش چودھری نثار سے کی گئی ہے تو یہ گذارش سے بھی کمتر ہے۔ جب سفارش اور گذارش کا فرق مٹ جائے گا تو وی آئی پی کلچر بھی ختم ہو جائے گا۔ چودھری صاحب نے کہا کہ ان کی شکایات چیئرمین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کے پاس لے کے جائوں گا۔ اب ایسے لوگ جیل جائیں گے۔ اگر ایسا ویسا ایک رکن اسمبلی بھی جیل چلا گیا تو باقی ڈر کے مارے خاموش ہو جائیں گے۔ چودھری صاحب نے ایک سال میں ایک لاکھ شناختی کارڈز بلاک کیے ہیں۔ پاسپورٹ کے لیے بھی یہی پالیسی ہے۔ ورنہ سب جانتے ہیں کہ پچھلے وزیر داخلہ رحمان ملک نے اپنے جوتے پالش کرنے والے کو وی آئی پی پاسپورٹ جاری کروا دیا تھا۔ کئی خطرناک غیرملکیوں اور مقامی دہشت گردوں کو بھی شناختی کارڈ جاری کر دیے گئے تھے۔ کئی بھارتیوں کے پاس بھی پاکستانی شناختی کارڈ ہیں۔
چودھری صاحب نے ایوان کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ پارلیمنٹ کی اہمیت اور بڑائی کا ذکر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف منہ کر کے کیا جاتا ہے اور یہ لوگ قومی اسمبلی کے ایوان میں نہیں آتے۔ ایوان کی ویرانی دیکھنے والوں کے دلوں کو حیران کر دیتی ہے۔ خود وزیراعظم بھی کبھی کبھار آتے ہیں۔ چودھری صاحب نے کہا کہ ایوان پر فوکس نہ کرنے سے عوام میں ہماری اہمیت کم ہو رہی ہے۔ چودھری صاحب کا مقصد یہ کہنے کا ہے جو میں کہہ رہا ہوں کہ نالائق اور امیر کبیر لوگ کسی اور مقصد اور مشغلے کے لیے پارلیمنٹ کے ممبر بنتے ہیں۔ ’’پارلیمنٹرین‘‘ ہوتے ہوئے پارلیمنٹ میں نہ آنا ایک قومی جرم ہے۔ چودھری صاحب نے کہا کہ اپوزیشن کے ارکان کیا کرتے ہیں۔ ’’وہ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے تجاویز دیں۔‘‘ چودھری صاحب جانتے ہیں کہ اپوزیشن والے بھی پوزیشن کی طرف بھاگتے ہیں۔ وہ اپنے مسائل حل کرانے سے فارغ نہیں ہوتے تو ووٹرز کا کیا کریں؟ ووٹرز تو انہیں ہر صورت میں ووٹ دیتے ہیں۔ وہ ان میں کچھ کے ذاتی مسائل کے لیے کوشش کر لیتے ہیں۔ اجتماعی نوعیت کے کاموں کو وہ بیکار سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ حکومتی ارکان کا احتساب پہلے کرنا چاہیے۔ ایوان میں ان کی حاضری کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔ وزرا کی کارکردگی ایوان میں پیش کرنے کا معاملہ بھی بہت خوش آئند ہے۔ چودھری نثار نے بامعنی اور معنی خیز بات کی کہ ایوان عوام کا جرگہ ہے۔ یہاں ارکان کا محاسبہ ہو۔ ہر وزارت کو کسی نہ کسی مافیا نے جکڑ رکھا ہے۔ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی مافیا کے قبضے میں ہیں۔ اب تو ہر ادارہ اور ہر دفتر کو مافیا گروپ کنٹرول کرتا ہے۔
سسکتے تڑپتے لوگوں کی نگاہیں جنرل راحیل شریف کی طرف دیکھ رہی ہیں اور چودھری نثار بھی ان کی آخری امید کی طرح ہیں۔ نواز شریف سے بھی ملاقاتیں چودھری صاحب کی ہونے لگی ہیں۔ نواز شریف کی ملاقاتیں تو جنرل راحیل شریف سے بھی اکثر ہوتی ہیں۔ بہتری کے آثار پیدا ہونے کی توقعات ہیں۔؟
اب کچھ بات پاکستانی کرکٹ کی ہو جائے۔ بڑے دھڑلے سے چودھری نثار نے پوری قوم کی ترجمانی کی کہ ہماری کرکٹ ٹیم کو بھارت نہیں جانا چاہیے۔ ان کی اس بات میں ایسی طاقت تھی کہ شہریار خان کی غیرقومی کوششوں اور منت سماجت کے باوجود بھارت کی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے بھارت جا کے کھیلنے کے خواب بکھر گئے۔ شہر یار خان کو چین نہ آیا۔ وہ کسی دوسرے ملک مثلاً سری لنکا میں بھارت سے کھیلنے کے شوق میں مبتلا ہو گیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے بھی اجازت دے دی۔ فیصلہ ہو گیا۔ آج پھر بھارت نے فیصلہ بدل دیا۔ بھارتی وزات خارجہ نے کہا کہ ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ ایک دہری شرمندگی ہمارے گلے میں آ پڑی ہے۔ شہریار خان بزرگ ہیں بلکہ بہت ہی بزرگ ہیں مگر وہ اپنی بزرگی کا خیال کیوں نہیں کرتے۔ چودھری صاحب کی بات مان کر انکار کر دیں۔ مگر اقرار کی طرح شہریار خان کو بھارت کا انکار بھی اچھا لگتا ہے۔ جرات انکار بھی ایک چیز ہے۔ اقرار اور انکار قوم کی سرفرازی کے لئے ہونا چاہئے۔ گفتار کے غازی بھی اب نہیں رہے مگر جرات گفتار وہی کرتا ہے جو کردار کو بھی اہم سمجھتا ہے۔ جرات کردار بھی اہم ترین چیز ہے۔ اب پتہ چلا کہ ہمیں چودھری نثار کیوں پسند ہے۔ بنگلہ دیش کے لئے چودھری صاحب کے بیان پر غور کریں۔ بنگلہ دیش کی حسینہ واحد بھی تلملا اٹھی ہے۔ حیرت ہے کہ اس کا نام حسینہ واجد کس نے رکھا تھا۔ اس میں وہی سوچ ہے جو مشرقی پاکستان کا نام بنگلہ دیش رکھنے میں ہے۔ یہ بنگلہ دیش ہے تو بھارتی بنگال کیا ہے؟