آج کل اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے اس تجویز پر ہر طرف گفتگو ہو رہی ہے کہ عورت یعنی بیوی پر ہلکا تشدد کرنے کی شوہر کو اجازت ہے؟ اس طرح دین فطرت کے لئے مضحکہ خیز گفتگو سننے کو مل رہی ہے۔ یہ سازش ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک مذاق بن گئی ہے۔ چیئرمین مولانا شیرانی حضرت مولانا فضل الرحمن کی سیاسی بلیک میلنگ کی وجہ سے چیئرمین بنائے گئے تھے جن سے ایک ممبر طاہر اشرفی نے بہت اختلاف کیا۔ ہاتھا پائی ہوئی ایک دوسرے کو کھری کھری سنائی گئیں۔ پورے ملک میں یہ واقعہ بہت تکلیف کا باعث ہوا۔ ٹی وی چینل پر مولانا شیرانی ہی کی زیادتی نظر آ رہی تھی۔
تشدد کے لئے یہ فیصلہ کون کرے گا کہ یہ ہلکا ہے یا شدید تشدد ہے۔ یہ فیصلہ اگر شوہر نامدار کرے گا تو وہ اسے شدید تشدد مانے گا ہی نہیں۔ ظاہر ہے کہ 20 جوتے سر پر مارنے اور گیارہ تھپڑ منہ پر مارنے دس بارہ دھکے دے کر زمین پر گرانے کو شدید تشدد تو نہیں کہا جا سکتا۔ یہ روز کا معمول ہے اور اگر گناہ صغیرہ روٹین بن جائے تو پھر اس کے لئے مولانا صاحبان کا نقط نظر کیا ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی تجویز کیا ہے؟
مفتی محمد نعیم نے اس تجویز کو مضحکہ خیز کہا ہے۔ وہ ایک سچے عالم دین ہیں۔ انہوں نے اس طرح کی باتوں کے ذریعے دین فطرت کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دیا۔ انسانی حقوق خاص طور پر حقوق نسواں کے حوالے سے جدوجہد کرنے والی نامور خاتون عاصمہ جہانگیر نے اس بارے احتجاج کیا ہے جو بالکل جائز ہے۔ میں نے عاصمہ جہانگیر کے کہنے پر کئی مظلوم خواتین کے حق میں آواز اٹھائی ہے۔ حیرت ہے کہ بڑے مرد بننے والے لوگ ہمیشہ اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ وہ گھر سے باہر کسی عام خاتون کو مخاطب کرنے کی بھی جرات نہیں رکھتے کسی عورت کے ساتھ نکاح زندگی بھر کی رفاقت کا عہدنامہ ہوتا ہے اکٹھے مل کر عمر گزارنے کا آغاز ہوتا ہے لیکن یہ کیا کہ محبت کی شادی بھی اکثر بری طرح ناکامی کا شکار ہوتی ہے۔ زندگی کے ہر راستے پر ہمسفر ہونے کا نام غلامی ہے۔ شریک حیات اور رفیق حیات کے القاب صرف کتابوں میں ہوتے ہیں۔ عملی زندگی میں غلام بلکہ ”غلامڑی“ اور آقا کے ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں ماں کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ اس کا مقام باپ سے بھی بڑھ کر ہے مگر وہ خاتون جو ہمارے بچوں کی ماں ہے ہم اس کی عزت نہیں کرتے۔ اس کی قدر نہیں کرتے ماں تو ماں ہوتی ہے۔ مگر ہم نے اس رشتے کو خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔
اصل کام مل کر رہنا اور اچھی طرح رہنا ہوتا ہے۔ میرے آقا و مول ا رحمتہ اللعالمین محسن انسانیت رسول کریم حضرت محمدﷺ نے فرمایا ”تم میں وہ اچھا جو اپنے گھر والوں کے لئے اچھا “گھر والوں میں سب سے اہم ہستی بیوی ہوتی ہے جسے گھر والی بھی کہتے ہیں۔ بیوی کے مقام کا تعین تو رسول کریم نے خود کر دیا ہے۔ رسول کریم پر وحی اتری جب آپ کا سر آپ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی گود میں تھا۔
ان کا گھر میں طرز عمل بہت آئیڈیل تھا۔ جس معاشرے میں عورت کی عزت نہیں ہوتی اسے مہذب معاشرہ نہیں کہا جا سکتا۔ حضور کریم کا یہ طریقہ تھا کہ ان کے پاس ان کی صاحبزادی خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہراؓ تشریف لاتیں تو وہ ان کی محبت اور عزت کے لئے کھڑے ہو جاتے اپنے کندھے سے چادر لے کے زمین پر بچھاتے وہاں اپنی بیٹی کو بٹھاتے اور خود ننگی زمین پر بیٹھتے وہ حیدر کرار حضرت مولا علیؓ کی بیوی تھیں اور اماموں کے امام شہید اعظم حضرت امام حسینؓ اور حضرت امام حسنؓ کی والدہ محترمہ تھیں۔
اس نئے دور میں جب حقوق نسواں کے لئے کئی انجمنیں پوری دنیا میں قائم ہیں۔ کون ایسا ہے کہ اپنی بیٹی کو اتنی عزت دے۔ آپ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجتہ الکبریٰؓ کے لئے فرمایا کہ وہ میری محسنہ تھیں۔ اپنی بیوی کو سزا دینے والے بتائیں کہ اس کے بعد انہیں کوئی احساس ہوا ہے۔ علمائے دین میرے لئے بہت محترم اور معزز ہیں۔ مگر میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے یہ تجویز کس اسلامی اصول اور سیرت رسول کے کس عمل کی روشنی میں دی ہے۔ میں تو اس بات کے حق میں بھی ہوں کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں اسلامی فکر و عمل والی کسی خاتون کو نامزد کیا جائے ساتھ میں اس تجویز کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سزا کے تجاوز پر عورت شوہر کے خلاف عدالت میں جا سکتی ہے تو پھر عدالت پہلے تو یہ فیصلہ کرتی رہے اور اس کے لئے چھ سات تاریخیں دے کہ تشدد ہلکا ہے یا بھاری ہے۔ پنجاب اسمبلی میں مرد کو اپنی بیوی سے معاملات کے لئے پہلے جو قانون بنایا گیا ہے اس میں مرد کو ”کڑا“ پہنانے کی تجویز بھی تھی۔ جس پر بہت احتجاج ہوا اور یہ عجیب و غریب قانون واپس لینا پڑا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کام پانامہ لیکس کی شدت کو کم کرنے کے لئے کیا گیا ہے تو عرض ہے کہ پانامہ لیکس اب سکڑ کر پاجامہ لیکس بن چکی ہے۔ اس کو بھی مذاق بنا دیا گیا ہے۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے ریاست کی ذمہ داری ہے کہ مرد و خواتین کے الگ الگ تعلیمی ادارے قائم کرے۔ اب تو تمام اہم تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم کا انتظام ہے۔ کئی دفاتر میں عورتیں بھی موجود ہیں۔ اس ضمن میں بھی کوئی فتویٰ آنا چاہئے۔ ایک زمانے میں یہ فتویٰ آیا تھاکہ ریل گاڑی میں سفر کرنے والے کافر ہیں۔ لاﺅڈ سپیکر میں بولنا بھی کفر ہے۔ اب کیا ہو رہا ہے؟ مجھے قرآن حکیم کی یہ آیت یاد آتی ہے۔ ورفعنا لک ذکرک۔ جب اذان کی آواز لاﺅڈ سپیکر کے ذریعے پورے ماحول میں پھیل جاتی ہے اشہدان محمد الرسول اللہ۔ تو میرا دل عشق رسول کی خوشبو سے مہکنے لگتا ہے۔ مولانا شیرانی نے فرمایا کہ حکومت نے آئین سے انحراف کر کے خواتین بل منظور کرایا ہے۔ اس حوالے سے دبنگ وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے کہا۔ مولوی کیا سر پر بیٹھ کر دیکھے گا کہ تشدد ہلکا ہوا ہے یا شدید؟ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے سوچے سمجھے بغیر مختلف تجویزیں مناسب نہیں ہیں۔