تصویر کا ایک پہلو یہ بھی ہے۔ اورپوری قوم سے معذرت کے ساتھ کہ مجھے اس ہیجانی بحث سے اختلاف ہے جو آن لائن بزنس کے سلسلے میں کئی دنوں سے جاری ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ اگر نیا چینل چل رہا ہوتا تو مجھے یقین کامل ہے کہ شعیب شیخ کو کوئی بھی حراست میں نہیں لے سکتا تھا، کیونکہ اس صورت میں جعلی ڈگریوں کے خلاف غوغا آرائی کو میڈیا کی آزادی کا مسئلہ بنا دیا جاتا اور میڈیا وہ مقدس گائے ہے جس کے خلاف پاکستان میں کوئی کاروائی عمل میں نہیں آسکتی۔ لوگ جانتے ہیں کہ ماضی قریب میں ایک چینل پر آئی ایس آئی کے ایک سربراہ کی تصویر کوبار بار دکھائے جانے پرفوج جیسا طاقتور ادارہ براہ راست کوئی کاروائی نہیں کر سکا تھا، اس لئے بھی نہیں کر سکا تھا کہ وزیر اعظم اور وزیر اطلاعات فرما رہے تھے کہ آزادی اظہار کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا، اس پس منظر میں بے چاری آئی ایس آئی کواپنے حق میں چھوٹے چھوٹے جلوس نکلوانے پڑے تھے یا پھر کیبل آپریٹروں کے ذریعے غیر اعلانیہ کاروائی کرنا پڑی تھی۔
دوسری بات یہ ہے کہ ملک میں کوئی سائیبر لاء نہیں ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایف آئی اے کس اختیار کی بنیاد پر ساری تفتیش کر رہی ہے۔اگر سائیبر لاء ہوتا تو ساری کاروائی محترمہ انوشہ رحمن کی وزارت کو کرنا تھی اور ایف آئی اے اس وزارت کا حصہ نہیں ہے۔ اس وقت یہ محکمہ اپنی حدودو قیود سے تجاوز کر رہا ہے۔میں نے متعدد بار ایف آئی اے کے حکام سے پوچھا ہے کہ اگر کوئی سائیبر کرائم سرزد ہو جائے تو آپ کس قانون کے تحت کاروائی کر تے ہیں۔ جواب ملتا ہے کہ فراڈ، دھوکہ دہی سے متعلقہ عام قوانین کے تحت، اور یہ قوانین اس قدر بودے اور ناقص ہیں کہ کسی مجرم کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے، ویسے حکومت نے تہیہ کر رکھا ہو کہ کسی کا نمدا کسنا ہے تو پھر کوئی قانون ہو یا نہ ہو، عام پولیس یا ایف آئی اے ہر قسم کا غیظ و غضب ڈھا سکتی ہے۔ یعنی لاقانونیت کو لا قانونیت کے آہنی ہاتھوں سے ختم کیا جاتا ہے۔
اس وقت حکومت کی تفتیش کا سارا زور جعلی ڈگریوں کے کاروبار پر ہے اور اس شعبے سے متعلقہ لوگوں سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے مگر جو لوگ اس ادارے کے میڈیا ہائوس سے وابستہ ہوئے اور انہوں نے اس ادارے کی حرام کی کمائی سے کروڑوںاینٹھے، ان سے کسی نے سلام دعا کرنے کے ضرورت محسوس نہیں کی۔ان میں سے کچھ نے استعفے دے کر اپنے آپ کو پاک صاف کر لیا ہے۔مگر ان کے پاس لازمی طور پر اصلی ڈگریاں ہو ں گی، وہ زمانے کے سردو گرم چشیدہ دانشور بھی ہیں، کیا انہوں نے ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچا کہ اتنی بھاری تنخواہیں انہیں کس کمائی سے دی جا رہی ہیں، کیا ان کے ضمیر نے ایک بار بھی نہیںکوسا کہ وہ ایسی کمائی واپس لوٹا دیں جو لوگوں سے لوٹی گئی ہے، یقینی طور پر لٹنے والے سراسر گھاٹے میں ہیں ، اگر تو یہ فراڈ نہ پکڑا جاتا تو وہ ان جعلی ڈگریوں پر اعلی نوکریاں حاصل کر سکتے تھے مگر اب ان کاراستہ مسدود ہو گیا ہے، ان کے نقصان کا ازالہ ہونا چاہئے۔اگر حکومت ان لوگوں کے معاش کا انتظام نہیں کر سکتی تو وہ اپنے طور پر جائز ناجائز ہر حربہ استعمال کرنے پر مجبور ہیں، انہیں تو ایک لیڈر نے چکمہ دیا تھا کہ روٹی کپڑا اور مکان کا بندو بست ان کی حکومت کرے گی مگر اس پارٹی کی حکومت نے اپنے فارن اکائونٹس بھرنے کی کوشش کی، بیرون ملک لاکروں میں قیمتی ہار رکھوائے، اربوں کی دولت رکھوائی اور عوام ان کا منہ دیکھتے رہ گئے، دوسرے لیڈر نے بھی پر کشش نعرے لگائے، مگر ان کی اولادیں بیرون ملک سرمایہ کاری میں مصروف ہیں اور یہ لیڈران کرام اس ملک میں صرف حکومت کرنے آتے ہیں، تیسرا لیڈر آیا، اس نے نئے پاکستان کا نعرہ لگایا اور اور بڑھاپے میں ایک عدد نکاح کر کے مطمئن ہو کر بیٹھ گیا۔ اس سیاسی اور حکومتی قیادت کے ہوتے ہوئے بھوکے، ننگے، افلاس اور بیماریوں کے مارے عوام کہاں جائیں، وہ کسی پیر ، کسی بنگالی بابا کسی ڈبل شاہ کے ہتھے چڑھنے پر مجبو ر ہیں۔ ویسے اس ملک کا حکومتی نظام بتائے کہ اس نے ڈبل شاہ کا کیا بگاڑ لیا، اسی حکومتی نظام نے ایک زمانے میں فنانس کمپنیوں کا بیڑہ غرق کیا، لاکھوں لوگوں کی جمع پونجی لٹ گئی۔ مہران بنک کا پیسہ تو فراڈیوں نے نہیںکھایا، اس کی بندر بانٹ کا حکم ایک صدر مملکت نے دیا، اس میں ایک آرمی چیف اور فوج کے دیگر اعلی افسر ملوث ہوئے۔ یہ بنک ڈوب گیا، اور آج تک کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔کتنے ہی بنکوں کے کھربوں کے قرضے معاف کرانے والے بھی فراڈیئے نہیں تھے، اس ملک کی اشرافیہ اس دھندے میں شریک تھی۔ پولیس، ایف آئی اے، اور عدلیہ ان لوگوں کا کیا بگاڑ سکی۔
تازہ قیامت ، قیامت صغری ہے، اس کا سبب صرف یہ ہے کہ دنیا آئی ٹی کی بلندیوں کو چھو رہی ہے مگر ہمارے ہاں اس جدید تریں ٹیکنالوجی کا حکومت کو کوئی شعور نہیں۔آن لائن اخبار کیا ہے، آن لائن تعلیم کیا ہے، ہمارے حکومتی بابو اس سے قطعی بے بہرہ ہیں، ان کے نزدیک اخبار وہ ہے جو ہاتھ میں پکڑا جا سکے، اور بزنس وہ ہے جو کسی دکان میں سجا ہو۔ اور تعلیم وہ ہے جو ٹاٹ یا بنچ پر بیٹھ کر، استاد کے ڈنڈے کھا کر یا پروفیسر کے نخرے اٹھاکر حاصل کی جائے۔امریکہ کے پاس تو ایسا ڈرون ہے جو کسی پائلٹ کے بغیر اپنے ہدف تک پہنچتا ہے ، ہمارے نزدیک تیرو تفنگ اور زیادہ سے زیادہ ایٹم بم ہی ہتھیار ہے۔ ایٹم بم تو روس کے پاس بھی وافر تعداد میں تھے۔
ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہو گا، جدید ٹیکنالوجی کو قبول کرنا ہو گا، اس کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہو گا۔ اگر شہباز شریف وڈیو لنک پر کمشنروں کی کانفرنس کر سکتے ہیں ، ترکی اور چین کے صدر ریموٹ بٹن دبا کر ہمارے ہاں منصوبوں کا افتتاح کر سکتے ہیں تو پھر آن لائن تعلیم بھی دی جا سکتی ہے، ڈگریاںبھی جاری کی جا سکتی ہیں، دنیا کی مسلمہ یونیورسٹیاں بھی آن لائن تعلیم پر انحصار بڑھا رہی ہیں۔آن لائن تعلیم اور ڈگری اس وقت فراڈ تصور ہوگی جب کسی یونیورسٹی کی طرف سے شکائت کی جائے کہ اس کا نام غلط طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ورنہ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو یا جعلی۔ ذرا مشرف دور کے ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریوں کا جائزہ لیں کہ یہ کہاں سے جاری ہوئیں، ان کی تصدیق کے عمل میں ہماری یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے وائس چانسلروں نے کیوں تعاون نہیں کیا، ان کو شعیب شیخ کیوں نہیں بنایا گیا، پشاور کے ایک عوامی نمائندے کیسے چند گھنٹوں کے اندر کئی امتحان پاس کر گئے ، کیا یہ آن لائن دھندا تھا یا بر سر زمین فراڈ۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہماری یونیورسٹیوں کی ڈگریاں فروخت ہوتی ہیں۔
آن لائن ڈگری پر ایک اعتراض یہ ہے کہ بغیر پڑھے ڈگری مل جاتی ہے مگر ہمارے پڑھے لکھے ڈگری یافتہ طبقات کے روشن کمالات پر بھی نظر ڈال لیجئے، کیا ڈگری یافتہ ڈاکٹر موت کے سوداگر نہیں، کیا ایوب خان یحییٰ خاں، ضیا الحق، مشرف کے پاس ڈگری نہیں تھی مگر انہوں نے ملک کا کیا حال کر دیا ، کیا ہمارے ان چیف جسٹس صاحبان کے پاس ڈگریاں نہیں تھیں جنہوں نے مارشل لا کونظریہ ضرورت کے تحت جواز بخشا۔
صاحبو۱۔ سارا نزلہ ایک شعیب شیخ پر کیوں۔ویسے میں اس کی وکالت نہیں کر رہا مگر میں باقی معاشرے کو بھی کھلے عام چارج شیٹ کر رہا ہوں۔
قانون کی ایک ڈگری قائد اعظم کے پاس تھی، انہو ں نے پاکستان کامقدمہ جیت لیا، قانون کی ایک ڈگری نواز شریف کے پاس ہے ، وہ کالا کوٹ پہن کر اپنی رٹ کی وکالت کے لئے سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے، ان سے کسی نے نہ پوچھا کہ صاحب! کسی ڈسٹرکٹ بار کے بھی ممبر ہو یا نہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024