پہلے تو یہ سن لیجئے کہ پاکستان میں 2010ء سے پہلے منی لانڈرنگ کا کوئی تصور تھا نہ قانون، اس لئے اس قانون کی منظوری سے قبل اگر کسی نے منی لانڈرنگ سے ملتی جلتی کوئی حرکت کی تو اسے جرم تصور نہیں کیا جائے گا، نہ اس کی بنیاد پر مقدمہ بن سکتا ہے،ا ور نہ اس پر کوئی سزا دی جا سکتی ہے، دنیا کا قاعدہ یہ ہے کہ کوئی قانون مؤثر بہ ماضی نہیں ہوتا۔
جب ہر کسی کو علم ہے کہ آسمان کی طرف تھوکا اپنے ہی منہ پہ آن گرے گا تو پھر بھی ہم لوگ یہ حرکت کئے چلے جا رہے ہیں، کیا سیاستدان اور کیا میڈیا، سبھی اس اوچھے پراپیگنڈے کی دوڑ میں شریک ہیں۔
اسوقت ہر کوئی سانس روکے سپریم کورٹ کے فیصلے کا منتظر ہے اور ہر کوئی اپنی مرضی کا فیصلہ سننا چاہتا ہے۔مگر کیا کریں ، ہمارے ملک میں ایک قانون ہے، فیصلہ تو آتا رہے گا مگر قانون تو بہر حال قانون ہے اور اس قانون کی طرف میری توجہ بالکل ہی سے ایک نوجوان مگر اپنے فن میں یکتا اور افلاطون، وقار سعید خان نے مبذول کروائی، وہ میرے قصور کے علاقے بھیلہ ہٹھاڑ سے تعلق رکھتا ہے، یہ تعلق تو اس کے والد کا تھا ، سعید احمد خان ایف اے سے ایم اے تک میرے کلاس فیلو رہے، مگر مجھے علم نہیں تھا کہ ان کا بیٹا ان سے بھی ہونہار نکلے گا۔
وقار سعید خان وہیں کے تعلیم یافتہ ہیں جہاں قائد اعظم نے بیرسٹری پاس کی۔ لنکز ان میںپڑھنا ایک اعزاز ہے مگر وقار سعید خان نے تعلیم اور تربیت کے عمل کوبریک نہیں لگنے دی، سعید خاں نے مجھے بتایا ہے کہ وہ اب بھی کتابیں پڑھتا رہتا ہے اور کمپیوٹر پر بیٹھا رہتا ہے۔
مجھے ابتدا ہی میں وقار سعید خان کابراہ راست تعارف کر ادینا چاہئے تھا، وہ انٹی منی لانڈرنگ میں سمجھ لیجئے کہ پی ایچ ڈی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ سے پہلے بھی ایک جرم سرزد کیا جاتاہے اور وہ ہے غیر قانونی طریقے سے پیسہ کمانا اور پھر جب اس پیسے کو وائٹ منی میں تبدیل کیا جاتا ہے، تو دوسرا جرم سرزد ہو جاتا ہے، پاکستان ا ور دنیا کے قوانین میں ان دونوں جرائم کی سزا الگ الگ ہے ا ور نائن الیون کے بعد سے یہ قوانین مزید سخت گیر شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں منی لانڈرنگ کے انسداد کے لئے دو ہزار سات میں صدارتی آرڈیننس آیا، دو ہزار دس میں پارلیمنٹ نے یہ قانون منظور کر لیا۔اس کے بعد اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اس پر مقدمہ بھی بنتا ہے ا ورا سے سزا بھی ملتی ہے مگر اس تاریخ سے پہلے کسی کو اس کے لئے مورد الزام ٹھہرانا ممکن ہی نہیں، نہ اخلاقی طور پر، نہ قانونی طور پر آپ ہزار تقریریں جھاڑتے رہیں، الزامات کی بوچھاڑ کرتے رہیں، یہ محض شوق فضول ہے۔
میں قانون دان ہوتا تو مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑتی کہ میں اسحق ڈارا ور سعید احمد کی دیانت اور امانت کی قسم کعبے کی چوکھٹ پکڑ کر کھاسکتا ہوں ۔مگر اب جبکہ قانون کی پشت پناہی مجھے مکمل طور پر حاصل ہے تو میں دنیاا ور آخرت کی کسی بھی عدالت میں ان کی صفائی کے لئے ٹھوس اور مئوثر دلائل دے سکتا ہوں۔
جو کوئی منہ کھولتا ہے وہ اسحق ڈار پر برسنے لگ جاتا ہے، بولنے والا اپنے منہ کا سائز ہی دیکھ لے کہ وہ کتنی بڑی تہمت لگانے کا مرتکب ہو رہا ہے۔مگر شرم تم کو مگر نہیں آتی، میںنے اتوار کی شب سعید احمد کا ایک ٹی وی انٹرویو سنااور ان سے ایک ایس ایم ایس کے ذریعے پوچھا کہ انہیں ٹی وی پر جلوہ گر ہونے کی ضرورت کیا تھی۔جواب آیا جب ہر طرف سے الزامات کی بارش ہو رہی ہو تو کیا مجھے اپنی صفائی دینے کا حق حاصل نہیں ، میںنے کہا کہ بالکل ہے مگر الزام لگانے والے سے آپ کوکہنا چاہئے کہ جناب، عدالت کا رخ کریں جو مرضی جرح کر لیں۔ یقین مانئے اس ٹی وی پر کی گئی تکا فضیحتی پر کوئی توجہ نہیں دیتا بلکہ یار لوگ مذاق اڑاتے ہیں کہ ہم نے فلاں کو ٹی وی کٹہرے میں گھسیٹا۔ان الزمات لگانے والوں کو جوتی کی نوک پر رکھو، مولانا مودودی سے کسی نے پوچھا کہ ہزار الزام لگتے ہیں ، آپ کسی کا جواب کیوںنہیں دیتے اور ان لوگوں کی زبانیں بند کیوںنہیںکر دیتے۔ مولا نا مودودی نے جواب دیا جتنی مغز کھپائی میںنے اپنی صفائی میں کرنی ہے، اتنی دیر میں میں قرآن کی ایک اور سورت کا ترجمہ اور تفسیر کیوںنہ لکھوں،۔ رہا الزام بازی کا قصہ تو ا سکے لئے اللہ کی عدالت لگے گی ا ور یہ کھلی سما عت ہو گی،اسکا فیصلہ بھی محفوظ نہیں رکھا جائے گا، جو سزا کے لائق ہوگا،ا سے جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔
اسحق ڈار نے ایک مضاربہ کمپنی بنائی،ا س میں سعید احمد بھی شامل تھا، اس مضاربہ کمپنی نے کوئی غیر قانونی کام کیا تھا تو مشرف کے نقاب پوش فرشتوں کو سیف ہائوسوں میں جکڑے اسحق ڈار سے سب کچھ اگلو الینا چاہئے تھا، انہوںنے ہزار کوشش کر دیکھی ہو گی، ڈرایا ہو گا، دھمکایا ہو گا، لالچ بھی دیا ہو گا، مگر وہ کوئی الزام ثابت نہ کر سکے ، بس ایک کاغذ پر دستخط کرو الئے جو جبر اور ستم کے نتیجے میں کسی سے بھی کروائے جا سکتے ہیں۔اس کاغذ کو عدالتوں نے ردی کے ٹکڑے کے مانند اہمیت نہیں دی، ایک بار نہیں، بار بار ٹرائل ہوا، میرے مرشد مجید نظامی نے تو تین حکومتوں کے جبر کا مقابلہ کرنے والے زرداری کو مرد حر کہا تھا، میں مشرف کے گوانتا نامو میں قید وبند کاٹنے والے اسحق ڈار کو مرد حر سمجھتا ہوں۔ فوجی ڈکٹیٹر کے سامنے کھڑے رہنا ہر کسی کے بس میںنہیں ہوتا، بھٹو کو جان سے جانا پڑا۔
رہے سعیداحمد تو ان جیسا پارسا ا سوقت میری نظر میں روئے زمین پر اور کون ہوگا۔مجھے اس سے کیا لینا دینا، میں تو اس کے پچاس برسوں کے کردار کی گواہی دے سکتا ہوں اور میری گواہی ہر کوئی مانے گا کہ میں سعید احمد کو اس کی بیوی بچوں سے زیادہ قریب سے جانتا ہوں، جس شخص کی پرہیز گاری کی مداح میری مرحومہ بیگم ہو، اس کے بارے میں صفائی کا گواہ بننے پر مجھے فخر ہو گا۔ یہ میرے لئے اعزا ز کی بات ہو گی۔ سعید احمد صرف پارسا اور نیکوکار ہی نہیں ، ایک مانا ہوا پروفیشنل بنکرہے۔فیصل بنک پتہ نہیں کس زمانے میں پاکستان میں کھلا، مگر سعید احمد سے کہا گیا کہ وہ اس کا بانی صدر بنے، اس نے معذرت کی، لاکھوں کی نوکری کو اس نے پر کاہ کے برابر اہمیت نہیں دی،مگر خدا نے اسے عزت دی، وہ اپنے ملک کے اسٹیٹ بنک کا ڈپٹی گورنر لگا، اب وہ نیشنل بنک کا صدر بن گیا ہے، یقین رکھئے ، وہ کچھ لے کر نہیں، بہت کچھ ملک اور نیشنل بنک کو دے کر جائے گا۔ وہ ا س مرد بیمار بنک کے لئے مالیاتی مسیحا ثابت ہو گا۔
اسحق ڈارا ور سعید احمد پر تنقید کرنی ہو تو ان کو بتایا جائے کہ وہ ڈریکولاقوانین بدلنے کی ضرورت ہے جن کے تحت کسی مریض کو بھی دس ہزار ڈالر سے زیادہ رقم باہر لے جانے کی پابندی ہے، آپ یقین نہیں کریں گے لاہور ایئر پورٹ پر دو مریضوں کو اس جرم میں اندر کر دیا گیا جو سنگا پور میں اپنے گردے کے ٹرانسپلانٹ کے لئے روانہ ہونے والے تھے مگر ان کے پاس ڈاکٹروں کی فیس کے لئے دس ہزار سے زائد ڈالر تھے، دونوںمریض سنگا پور کے ہسپتال پہنچنے کے بجائے لاہور کی کیمپ جیل میں بند کر دیئے گئے، اور ان کے ڈالر بحق سرکار ضبط۔اس ملک سے ڈالر ہنڈی کے ذریعے بھی باہر جا رہا ہے ا ور بوریوںمیں بھر کر بھی مگر پاکستان کا قانون میرے رستے میں بھی حائل ہے، مجھے دو چار ہزار ڈالر کی رقم دوبئی بھیجنے کی قانونی اجازت نہیں مل رہی،مجھے اپنی آنکھوں کی معذوری سے بچنے کے لئے ایک مشین خریدنی ہے مگر بنک کہتے ہیں کہ پہلے امپورٹر ایکسپورٹر کے طور پر رجسٹر کروائو، پھر اسٹیٹ بنک سے اجازت نامہ لائو۔ تب یہ ڈالر باہر جا سکیںگے۔ میںا سحق ڈار اور سعید احمد سے کہتا ہوں کہ قانون انسان کی ضرورت کے لئے ہیں، انسان قانون کے لئے نہیںبنا۔ یونان میں انصاف کی دیوی کو اندھا بنایا گیا ہے مگر بھئی! یہ پاکستان ہے، اکیسویں صدی ہے، دنیامیں جتنے پیغمبر آئے، اتنی ہی شریعتیں آئیں، خدا کا قانون اٹل نہیں ، ہر پیغمبر کے ساتھ نئی شریعت ، نئے احکامات ، آج اکیسویں صدی ہے۔اس دور میں جامد قوانین کا نفاذ ظلم عظیم ہے ، مجھے قانونی راستہ نہ ملا تو میں بھی منی لانڈرنگ پر مجبور ہو جائوں گا اور پھر جسے شوق ہو مجھے اس کی سزا دے ڈالے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024