یمن کا داخلی انتشار اس حد تک پہنچ گیا ہے جہاں سعودی عرب نے یمن میں صدر عبدالربوہ منصور ہادی کی حکومت کے تحفظ کے لئے یمن پر فضائی حملے شروع کر دیئے ہیں۔ یمن کے خلاف آپریشن کا نام DECISIVE STORM فیصلہ کن طوفان رکھا گیا ہے۔ سعودی عرب مصر‘ متحدہ عرب امارات ‘ اردن اور خلیج کے ملکوں پر مشتمل کولیشن نے سعودی عرب کی طرف سے فضائی حملوں کی حمایت کی ہے۔ ایران اور عراق نے ان حملوں کی مخالفت کی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اس وقت جو دھماکہ خیز صورت حال ہے اس کے پس منظر میں یمن کا تنازعہ معاملات کو مزید الجھا دے گا۔ 2011 میں جب حوثی قبائل نے یمن کے سابق صدر علی عبداﷲ صالح کے خلاف بغاوت کر دی اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ حوثی قبائل نے سابق صدر علی صالح عبداﷲ کو پرتشدد احتجاج سے بے بس کر دیا تھا اور ان کی حکومت مفلوج ہو گئی تھی جس پر سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں نے مداخلت کر کے علی عبداﷲ صالح کی جان بچائی۔ سابق صدر پر براہ راست حملہ بھی ہوا تھا جس کے بعد ان کا سعودی عرب میں علاج بھی ہوا۔ عجیب بات یہ ہے کہ سابق صدر عبداﷲ صالح کو سعودی عرب اور ان کے اتحادیوں نے محفوظ راستہ دے کر بچایا تھا۔ بعد میں وہ بھی سعودی عرب کے خلاف حوثی قبائل کے اتحادی بن گئے۔ گزشتہ چند ماہ میں یمن کی صورت حال بہت خراب ہو گئی جس پر یمن کے موجودہ صدر عبدالربوہ منصور ہادی نے سعودی عرب‘ خلیج کے ممالک اور عرب لیگ سے امداد طلب کی جس پر سعودی عرب نے یمن کے صدر اور ان کی حکومت کو بچانے کے لئے آپریشن DECISIVE STORM شروع کیا اور ایئر سٹرائیکس شروع کر دیں۔ امریکہ نے سعودی عرب کی طرف سے شروع کئے گئے اس آپریشن کی حمایت کی ہے۔ سعودی عرب کے کمان سنٹر میں آپریشن ”فیصلہ کن طوفان“ کی نگرانی سعودی عرب کے وزیر دفاع‘ پرنس محمد بن سلمان اور ڈپٹی کرا¶ن پرنس نائب وزیر اعظم محمد بن نائف کر رہے ہیں۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے جمعرات کے روز پاکستان کی قیادت سے رابطہ کر کے پاکستان کی امداد طلب کی ‘ سعودی عرب کے رابطہ کے بعد جمعرات کی رات وزیر اعظم ہا¶س میں ایک اجلاس میں سعودی عرب کی درخواست پر تفصیل سے غور کیا گیا۔ اس اجلاس میں وزیر دفاع‘ خارجہ اور سیکیورٹی کے امور کے مشیر سرتاج عزیز‘ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف‘ فضائیہ کے سربراہ اور دوسرے حکام نے شرکت کی۔ فیصلہ یہ کیا گیا کہ وزیر دفاع‘ مشیر اور خارجہ اور بعض دوسرے حکام جمعہ کے روز سعودی عرب جائیں گے اور صورت حال کا جائزہ لیں گے‘ لیکن جمعہ کے روز جب دوسری سیاسی جماعتوں نے یمن کے معاملے میں پاکستان کے فریق بننے پر تحفظات کا اظہار کیا تو وزیر دفاع اور مشیر خارجہ کا سعودی عرب کا دورہ م¶خر ہو گیا۔ پیپلز پارٹی‘ اے این پی‘ بلوچستان کی نیشنل پارٹی جمعیت علمائے اسلام نے یمن کے بحران پر پاکستان کی مداخلت کی مخالفت کی ہے۔ ان لیڈروں کی طرف سے یمن کے معاملے میں سعودی عرب کی حمایت میں فوج بھیجنے کے فیصلہ پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ وزیر اعظم اور حکمران جماعت کس انداز میں اس صورت حال سے نبٹتے ہیں ‘ یہ جلد واضح ہو گا۔
سعودی عرب روایتی طور پر کسی فوجی تصادم سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔ وہ ”پراکسی وار“ لڑتا آیا ہے لیکن جب یمن حوثی قبائل نے سعودی عرب کی سرحد کے قریب فوجی مشقیں شروع کیں تو سعودی عرب کو خطرہ محسوس ہوا اور انہوں نے اس کا عسکری جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ سعودی عرب کے سابق حکمران شاہ عبداﷲ مرحوم صلح پسند شخص تھے اور تصادم سے گریز کرتے تھے لیکن ان کے برعکس موجودہ حکمران شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز جارحانہ انداز میں سعودی عرب کے مفادات کا تحفظ کرنے کی پالیسی پر عمل کریں گے۔ یمن کے موجودہ بحران کا ایک پہلو فرقہ وارانہ کشمکش بھی ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ سعودی عرب اپنی سرحدوں کے قریب ایران کی مدد سے کسی بھی قوت کو ابھرنے سے روکنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ اس لئے سعودی عرب نے خلیج کے اپنے ساتھیوں امریکہ‘ ترکی‘ عرب لیگ کو اعتماد میں لے کر آپریشن ”فیصلہ کن طوفان“ یا DECISIVE STORM OPERATION شروع کیا ہے۔ اس آپریشن کے بعد پاکستان ایک آزمائش کا شکار ہو گیا ہے۔ اگر پاکستان عسکری مداخلت کرتا ہے تو اس کے مضمرات ہونگے۔ پاکستان کو کسی بھی ایسے فیصلے سے پہلے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ حکومت کیا یہ سیاسی اتفاق رائے حاصل کر سکے گی؟ یہ اہم سوال ہے۔ دوسری طرف موجودہ حکمران جماعت خاص طور پر وزیر اعظم کے سعودی عرب کے ساتھ گہرے مراسم ہیں۔ سعودی عرب کی قیادت ان سے کئی توقعات رکھتی ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کی مشکل حالات میں ہمیشہ مدد کی ہے۔ اب پاکستان نے ثابت کرنا ہے کہ وہ سعودی عرب کی قربانیوں کا کس انداز میں جواب دے گا۔