ملک ریاض نے یہ جو شرط لگا دی ہے کہ گرمی سے مرنے والے لواحقین ڈیتھ سرٹیفیکیٹ لے کر کراچی کے گورنر ہائوس میں آئیں تو اس شرط میں اتنی نرمی ضرور کر دیں کہ لوگ گورنر ہائوس کے بجائے کسی رینجرز کی چیک پوسٹ پر آجائیں یا بحریہ ٹائون کے کراچی کے کسی دفتر سے رابطہ کریں، بھلا ان غریبوں کو گورنر ہائوس کے قریب بھی کون پھٹکنے دے گا، شکر ہے کہ ملک صاحب نے یہ نہیں کہہ دیا کہ متاثرہ لوگ بلاول ہائوس سے رجوع کریں۔اس صورت میں تو ساری امداد اس کے گیٹ کیپر جیالوںنے ہضم کر لینی تھی۔ اور ملک صاحب ایک اہتمام اور کریں کہ جو لوگ بے نام و نشان مر گئے اور انہیں اجتماعی قبر میں دفن کر دیا گیا، ان کے ورثا کو تو تلاش کریں، اور ایسے گمنام مرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، پھر جن کی میتیں کسی ہسپتال تک پہنچی ہی نہیں ، ان کو ڈیتھ سرٹیفیکٹ کون جاری کرے گا۔
اس وقت ایک بحث شروع ہے کہ کراچی میں کثیر اموات کی ذمے داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے، اس لئے وہ مستعفی ہو۔ پتہ نہیں یار لوگوں کو حکومت کے استعفے سے کیا ملے گا۔ گائوں میں میراثی کی ماںنے اپنے بیٹے کو سمجھایا تھا کہ نمبر دار کے مرنے کی دعاقبول بھی ہو جائے تواس کا بیٹا نمبر دار بن جائے گا، تمہاری باری نہیں آئے گی۔
اصل میں کچھ لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ قدرتی آفت کی ذمے داری کسی انسان پر عائد نہیں کی جا سکتی، زلزلے آتے ہیں، سیلاب کے ہاتھوں تباہی مچتی ہے، سونامی بپھر بپھر جاتے ہیں، سمندری بگولے ہر سال ہزاروں گھروں کو ملیا میٹ کر دیتے ہیں،اب پوری دنیا میں موسمی تغیرات کا سامنا ہے،تاریخ میں طوفان نوح کا ذکر ہے، عاد اور ثمود کے حشر سے ڈرایا گیا ہے، بستیوں کے کھنڈرات ہمارے لئے باعث عبرت ہیں، مگر یہ سب عذاب اللہ کی طرف سے نازل ہوئے ۔ میں مولوی نہیں بننا چاہتا مگر جو کام قدرت کے ہیں ، وہ انسانوں کے سر کیسے منڈھے جا سکتے ہیں، کون ہے جو آتش فشاں کو پھٹا سکتا ہے، کون ہے جو قحط کی صورت حال پیدا کر سکتا ہے، کون ہے جو اپنی مرضی سے بارشیں برسا سکتا ہے یا روک سکتا ہے۔
اگر حکومت کو لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے گالی دینی ہے تو ضرور دیں مگر لوڈ شیڈنگ تو سارے ملک میں ہے ، اکیلے کراچی شہر میںنہیں ، اور یہ بھی دیکھیں کہ گرمی بھی سارے ملک میں ہے مگر اموات کراچی میں ہو رہی ہیں، بس اللہ سے پناہ مانگنی چاہئے، سردیوں میں ہر انسان تو سانس کی بیمار ی کا شکار نہیں ہوتا، جس کی تقدیر خراب ہو، اس کے پھیپھڑے جام ہو جاتے ہیں ، ان میں ریشہ جمع ہو جاتا ہے اور سانس کی ڈور کٹ جاتی ہے ۔
ہاں، کچھ خرابیاں انسان کی پیدا کردہ ہیں، گلوبل وارمنگ ہماری صنعتی ترقی کا شاخسانہ ہے۔پاکستان میں ہم نے کوئی پانی ذخیرہ نہیں کیا تواس کی ذمے داری پوری قوم پر عائد ہوتی ہے، ہمارے چار صوبے ہیں اور ان میں سے تین صوبے کالا باغ ڈیم کے خلاف ہیں۔ اب اگر بھاشاڈیم کی منصوبہ بندی ہونے جا رہی ہے تو ہم میں سے ہی کئی لوگ بھارت کی زبان بول رہے ہیں کہ یہ تو متنازعہ علاقے میں ہے ، تو پھر منگلا ڈیم کیسے بن گیا اور بھارت نے درجنوں ڈیم کشمیر کے دریائوں پر کیسے بنا لئے، ہم من حیث القوم اس مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں کہ ہمارے اندر قومی عزم کی کمی ہے، ہم ہمت سے عاری ہے اور حب الوطنی کے فقدان کا شکار ہیں۔
بجلی کم ہے اوراس میں اضافہ نہیں ہو پا رہا تو اس کی قصور وار پوری قوم ہے جو سستی ہائیڈل بجلی کے منصوبے بنانے کے عزم و حوصلے سے محروم ہے، متبادل بجلی رینٹل یا تھرمل منصوبے ہیں اور یہ بے انتہا مہنگی ہے۔بنا بھی لی جائے تو لوگوں میں قوت خرید نہیں۔ اب کوئلے یا سورج کی روشنی یا ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے جو منصوبے بن رہے ہیں ، ان کے لئے وقت بھی درکار ہے اور پیسہ بھی۔ وقت کے سلسلے میں ہم بحیثیت قوم بے صبرے واقع ہوئے ہیں اور پیسہ قومی خزانے میں ہے نہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی ٹیکس ادا کرنے کے لئے تیار نہیں تو آیئے ساری گالیاں اسحاق ڈار کو دے لیں اور اپنا کلیجہ ٹھنڈا کر لیں مگر گالیاں دینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، ہمیں ٹیکس ادا کرنے کی عادت اپنانی ہو گی اور اس حکومت یا آنے والی حکومت کو وقت دینا ہو گا، آزادی عمل دینا ہو گی،ذرا غور کیجئے کہ پچھلی حکومت کو اس دور کے چیف جسٹس نے ایک لمحے کے لئے بھی چین سے کام نہیں کرنے دیا اور یہ قومی میڈیا تھا جو عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے ہر مہینے حکومت گرنے کی یپش گوئیاں کرتا رہا۔ اب موجودہ حکومت ابھی قدم جمانے نہیں پائی تھی کہ ایک صاحب کینیڈا سے انقلاب کا ڈھنڈورا پیٹتے چلے آئے ، دوسرے صاحب بنی گالہ کی چوٹی سے اترے اور سونامی کا ڈنکا بجا دیا، یوں ایک سال ضائع ہو گیا ، اور چین کے صدر کا وہ دورہ ملتوی ہو گیا جس میں کھربوں کے منصوبوں کی منظوری دی جانی تھی۔
اب اس التوا کے لئے بھی حکومت کو ذمے دار ٹھہرا کر خوش ہو لیجیئے۔حکومت کی جو غلطی ہے، وہ سب کے سامنے ہے مگر جو اس کی غلطی نہیں، وہ ا س کے سر کیسے تھوپی جا سکتی ہے، کراچی میں گرمی حکومت کیسے لا سکتی ہے اور وہ بھی قائم علی شاہ کی حکومت۔یا نوازشریف کی حکومت۔ ایک زمانے میں لاہور میں ڈینگی کا عذاب آیا، اس کا مقابلہ شہباز شریف نے دن رات جاگ کر کیا مگر اس عذاب کو نازل کرنے میںاس کا کوئی قصور نہ تھا۔
عذاب کی صورت میں ہمیں اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہئے ا ور آئندہ کے لئے توبہ تائب ہونا چاہئے،اور عذاب سے متاثرہ لوگوں کی امداد اور دل جوئی کیلئے ہم سب کو سرگرم ہونا چاہئے، اکیلے ملک ریاض کو نہیں۔ہماری کوتاہی یہ ہے کہ ہم کراچی کے مرتے ہوئے لوگوں کو تنہا چھوڑ کر دوبئی اور لندن چلے گئے،اور اگر ملک میں تھے تو محترمہ بے نظیر کی سالگرہ کے کیک کھاتے رہے۔ عذاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کرنا صرف حکومت کا فرض نہیں، پوری قوم کا فرض ہے، تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کا فرض ہے، اور ان این جی اوز کا فرض ہے جو اس ملک کے نادار لوگوں کے نام پر ڈالر ڈکار جاتی ہیں۔ہم اگر برما کے تباہ حال مسلمانوں کی مدد کے لئے جاسکتے ہیں تو کراچی کے یتیم اور اس کی بیوگان تو ہماری دہلیز کے سامنے تڑپ رہے ہیں، آہ و فغاں کر رہے ہیں۔ کیا ہم نے کانوں میں روئی ٹھونس لی ہے کہ ہمیں ان کی دلخراش چیخیں سنائی نہیں دیتیں، ان کے فلاکت زدہ چہرے نظر نہیں آتے۔
ہم حکومت کو کوستے ہیں مگر اپنے فرض سے غافل ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38