نوائے وقت میں مرشد و محبوب مجید نظامی کی تیسری برسی کے موقع پر سابق صدر پاکستان آصف زرداری اور محمد رفیق تارڑ نے اپنے الگ الگ مضمون میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ صدر آصف زرداری نے بھی نظامی صاحب کے لیے نوائے وقت کے ”معمار“ کا خطاب استعمال کیا ہے۔ اب نوائے وقت کی پیشانی پر تین نام نظر آتے ہیں۔
بانی حمید نظامی، معمار مجید نظامی، ایڈیٹر رمیزہ نظامی۔ ناموں کی یہ ترتیب نوائے وقت کی تاریخ اور تقدیر ہے۔ اب معمار کا لفظ مجید نظامی کے نام کاحصہ بن گیا ہے۔ میں ہمیشہ زرداری صاحب اور محمد رفیق تارڑ کے لیے صدر زرداری اور صدر تارڑ کے الفاظ کہتا ہوں اور لکھتا ہوں۔ پاکستان کے صدر ممنون حسین نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی ایک تقریب میں تشریف لائے۔ سٹیج پر صدر محمد رفیق تارڑ بھی موجود تھے۔ میں نے تقریب کے میزبان کے طور پر فرائض سرانجام دیے۔ میں نے کہا کہ آج دو صدر تقریب کی صدارت کر رہے ہیں۔ میری بات پر صدر رفیق تارڑ مسکرائے۔ شکر ہے کہ صدر ممنون حسین بھی مسکرائے۔ اس دن سٹیج سجا ہوا تھا۔ سٹیج پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محبوب احمد اور فاروق الطاف بھی تھے۔ جسٹس محبوب احمد نظریہ پاکستان میں کرنل جمشید ترین کے بعد صدر ورکرز ٹرسٹ کی حیثیت سے یہاں باقاعدگی سے تشریف لاتے ہیں۔ کرنل ترین کے صاحبزادے عظمت ترین نے بتایا کہ کرنل ترین صاحب پیرانہ سالی کے باوجود نظریہ پاکستان ٹرسٹ جانے کے لیے ہر روز تیار ہوتے تھے۔ نظامی صاحب ان کا احترام کرتے تھے۔
نوائے وقت کا آغاز قائداعظم کی ہدایت پر حمید نظامی نے کیا تھا۔ اخبار کی تعمیر و ترقی کے لیے مجید نظامی نے معمار کا کردار ادا کیا۔ معذرت کے ساتھ میرا خیال یہ ہے کہ پاکستان میں اخبار ایک ہی ہے اور وہ نوائے وقت ہے۔ میں سارے معاصر اخبارات کے لیے عزت رکھتا ہوں مگر جو مقام نوائے وقت کا ہے وہ کسی کو حاصل نہیں ہے۔
بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ سیاستدان اور لیڈر شہید اکبر بگٹی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ میرے پاس بہت اخبارات آتے ہیں مگر میں دوپہر کے بعد بھی صرف نوائے وقت کا انتظار کرتا ہوں۔ اس اخبار میں پاکستان بولتا ہے۔ حمید نظامی کے مجید نظامی کو اللہ نے بہت موقع دیا کہ وہ نوائے وقت کی آواز بنانے میں کامیاب ہوئے۔ وقت وہ جو پاکستان میں گزر رہا ہے۔
جب گیارہ سال تک آصف زرداری نے بڑی ہمت اور استقامت سے جیل کاٹی۔ مجید نظامی نے انہیں مرد حر کا خطاب دیا جس پر آج بھی زرداری صاحب ناز کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی والوں نے اس نعرے کو پورے پاکستان میں عام کر دیا۔ پھر خاص کر دیا۔ نواز شریف پوری شریف فیملی کے ساتھ صدر مشرف سے کوئی ڈیل کر کے سعودی عرب چلے گئے تھے۔ نواز شریف نے اس پر ناخوشی کا اظہار کیا تو نظامی صاحب نے فرمایا کہ تم بھی زرداری کی طرح قید و بند کی مصیبتیں کاٹتے تو تمہیں بھی کوئی خطاب مل جاتا۔ اس خطاب کی کریڈیبلٹی یہ ہے کہ یہ مجید نظامی صاحب کا عطا کردہ ہے۔
مجید نظامی نے جنرل ایوب کی آمریت میں صدارتی انتخاب کے لیے محترمہ جناح کو مادر ملت کا خطاب دیا جسے تمام پاکستانیوں نے قبول کیا۔ آج کئی لوگ مادر ملت کا اصل نہیں جانتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا نام ہی یہی ہے۔ نام کی معنویت میں شخصیت کی عظمت اور طاقت شامل ہوتی ہے۔ ایوب خان نے دھاندلی نہ کی ہوتی اور مادر ملت جیت گئی ہوتیں تو پاکستان کی تاریخ اور تقدیر مختلف ہوتی۔ مادر ملت مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں جیت گئی تھیں اور مغربی پاکستان کا نام بھٹو صاحب نے پاکستان رکھ دیا تھا۔ میرے خیال میں مغربی پاکستان کا نام تبدیل نہیں کرنا چاہیے تھا۔ کون کہتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے لوگ مغربی پاکستان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تھے۔
تیسری برسی پر عوامی مسلم لیگ کے سربراہ برادرم شیخ رشید نے بہت جرات مندانہ بات کی ہے۔ نواز شریف کے مقابلے میں مجید نظامی شہباز شریف کو ذمہ دار اور سنجیدہ آدمی سمجھتے تھے۔ مشرف کے وزیر اطلاعات کے طور پر میں نے دیکھا کہ مجید نظامی واحد صحافی تھے جو صدر جنرل مشرف کے ساتھ سخت جملوں میں بات کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ نواز شریف غیرذمہ دار اور غیرسنجیدہ آدمی ہیں۔ شیخ رشید کا یہ مضمون بھی نوائے وقت میں شائع ہوا ہے۔ مجید نظامی نے یہ بات نواز شریف سے کہی تھی کہ ایٹمی دھماکہ کرو ورنہ قوم تمہارا دھماکہ کر دے گی۔
مجھے اپنے ضلع میانوالی کے نواب کالا باغ گورنر مغربی پاکستان یاد آ رہے ہیں۔ وہ حمید نظامی کے لیے فاتحہ خوانی پر مجید نظامی کے پاس آئے اور کہا کہ نوائے وقت کے لیے مجھے صدر ایوب کہے تو میں اخبار پر پابندی لگانے میں ایک لمحہ دیر نہیں کروں گا مگر تم اگر جنڑا (مرد میدان) ہو تو اپنے بھائی کے نقش قدم پر چلتے رہو۔ اور مجید نظامی نے نئے راستے بنائے مگر اپنے بھائی کے قدموں کی آہٹ کو اپنی سماعت کا حصہ بنا لیا۔
آخر میں اپنی عقیدت کا ایک عکس بھی کالم کا حصہ بنا رہا ہوں۔ مجھے نظامی صاحب کے قریبی دوست جسٹس آفتاب فرخ نے بتایا کہ نظامی صاحب تمہارے لیے بات کرتے تو کہتے ساڈے پگڑ دا کیہہ حال اے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024