بدھ کی صبح جب یہ کالم چھپ کر انٹرنیٹ کے ذریعے کئی اور لوگوں تک بھی پہنچ گیا تو مجھے ایک مہربان بزرگ کی فون کال نے جگادیا۔ ان کا اصرار تھا کہ میں نے اس کالم میں پانامہ-پانامہ کے شور کے باعث پھیلائے انتشار کے ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کی صورت انجام کے امکان کو رد کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی دانست میں اس ضمن میں سب سے اہم دلیل میں نے یہ گھڑی ہے کہ چونکہ سرد جنگ ختم ہوچکی ہے اور امریکہ اور اس کے حواری افغانستان کو ’’درست‘‘ راہ پر ڈالنے میں دلچسپی بھی نہیں لے رہے، اس لئے انہیں اب پاکستان کے سب سے طاقت ور اور بااختیار ادارے کے ناز نخرے برداشت کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔
ایوب خان، جنرل ضیاء اور پرویز مشرف ہمارے سیاسی منظر پر یقینا انہی وجوہات کی بنا پر نمودار ہوئے جن کا سرسری ذکر میں نے اپنے کالم میں کیا تھا۔ اپنے Strategicمفادات کی خاطر واشنگٹن اور اس کے حواریوں نے ان تینوں کو امداد اور قرضوں کے نام پر بھاری رقوم فراہم کیں۔ ان کو بہلانے کے لئے F-16جیسے جدید ہتھیار بھی دئیے۔ ان رقوم کی بدولت تینوں فوجی آمروں کے عہد اقتدار میں اقتصادی استحکام کی صورت بنی رہی۔ موج لگی رہی۔ چونکہ اب ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آرہا لہذا ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ سے اجتناب ہی برتنا ہوگا۔
ایمان داری کی بات ہے کہ میں نے مذکورہ باتیں ہرگز اس وضاحت اور صراحت کے ساتھ بیان نہیں کی تھیں جس انداز میں میرے مہربان بزرگ نے ان کا ذکر کیا۔ مارے ادب کے لیکن میں منافقانہ ہوں ہاں سے کام چلاتا رہا۔ میرے مہربان بزرگ نے مگر مجھے میرے ہی لکھے کالم کی تلخیص بیان کرنے کے لئے علی الصبح فون کرنے کا تردد نہیں کیا تھا۔ انہیں دُکھ بھری حیرت کا اظہار درحقیقت میری لاعلمی پر کرنا تھا۔ چین جو اپنا یار ہے اور جس پر جان بھی نثار ہے میرے مہربان بزرگ کی دانست میں اب پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو طے کرنے کے حوالے سے امریکہ اور اس کے حواریوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم طاقت بن چکا ہے۔
چینی قیادت نے One Belt One Roadکے نعرے کے ساتھ دُنیا بھر کی منڈیوں تک اپنا مال بھیجنے کا تہیہ کررکھا ہے۔ اس نعرے کے تناظر میں گوادر کی بندرگاہ کو کاشغر سے جلدازجلد ملانا بہت ضروری ہے۔ پاکستانی سیاست دانوں نے پانامہ-پانامہ کی بنیاد پر ایک دوسرے کی زندگی اجیرن بنائے رکھی تو ملک عدم استحکام کا شکار نظر آئے گا۔ عدم استحکام کی یہ کیفیت گوادر سے کاشغر کو ملانے والے منصوبے کی راہ میں کئی رکاوٹیں کھڑی کرسکتی ہے۔ عدم استحکام کی فضاء کو ختم کرنے کے لئے لہٰذا ’’میرے عزیزہم وطنو‘‘ کی ضرورت بالکل موجود رہے گی۔ وہ ہوگیا اور واشنگٹن اور اس کے حواریوں نے اس کے خلاف ’’جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق‘‘ وغیرہ کے نام پر کچھ شومچایا تو بھی ہمارا کچھ نہیں بگڑے گا۔ ہر طرف بلکہ ’’ٹھنڈ‘‘ پڑجائے گی۔ لوگ ٹی وی پر سیاپا فروشی سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اپنے روزگار اور روزمرہّ معمولات پر سنجیدگی سے توجہ دینا شروع ہوجائیں گے۔ روزمرہّ زندگی میں تلاطم کے بجائے سکون کی اس فضا میں پاک چین راہداری پر کام بڑی تندہی سے شروع ہوجائے گا۔ جیسے جیسے یہ سڑک تعمیر ہوکر اپنی تکمیل کے مراحل کی طرف بڑھے گی، پاک چین راہداری کے کناروں پر نت نئے کاروبار کھلیں گے۔ رونق لگ جائے گی اور لوگ جمہوریت نامی شے کو بھول بھال جائیں گے۔
نظر بظاہر میرے مہربان بزرگ کی باتیں بہت مدلل تھیں۔ مجھے ان سے اتفاق نہ بھی ہوتا تو مارے ادب کے جوابی دلائل ہرگز بیان کرنے کی کوشش نہ کرتا۔ ان کا طویل فون سننے کے بعد مگرتفصیلی غوروخوض پر مجبور ہوگیا۔
معیشت بہت پیچیدہ اور گہرا موضوع ہے اور مجھے اس کی مبادیات کا بھی خاص علم نہیں۔ ریاستی امور کا تھوڑا بہت علم رکھنے کے باعث البتہ میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ کسی بھی ریاست اور اس کے اداروں کو چلانے کے لئے سرمایے کی ضرورت ہوتی۔ ریاست یہ سرمایہ محاصل کی صورت اکٹھا کرتی ہے۔ محاصل اکٹھا کرنے کے لئے ایک مؤثر نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس نظام کے ساتھ ہی ساتھ معاشرے میں بڑی لگن کے ساتھ اس رویے کو بھی فروغ دینا ہوتا ہے جسے Tax Cultureکہا جاتا ہے۔
ہماری اصل بدقسمتی یہ رہی کہ ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کے بعد وقتی خوش حالی کی فضا بنانے والوں نے اپنے ادوار میں ان دونوں امور پر توجہ ہی نہیں دی۔ محاصل اور ریاستی اخراجات میں توازن رکھنے کے چلن کو برقرار رکھنے کے بجائے ہمارے تینوں ’’دیدہ وروں‘‘ نے خسارے کے بجٹ بنوائے۔ خسارے والے بجٹ بنانے کے لئے انہیں امریکہ اور یورپ کی مشہور ترین یونیورسٹیوں سے آئے ’’ماہرین‘‘ کی ضرورت بھی رہی۔
خسارے کا بجٹ کیا ہوتا ہے؟ سادہ لفظوں میں اسے یوں بیان کرلیجئے کہ ریاست اپنے آئندہ مالی سال کے لئے ممکنہ اخراجات کو گزشتہ مالی سال کے دوران جمع شدہ محاصل سے پورا نہ کرپائے تو وہ اضافی رقم قرضوں اور امداد کی صورت ورلڈ بینک اور IMFجیسے اداروں سے حاصل کرتی ہے۔ یہ ادارے خیرات نہیں بانٹتے۔ اپنی سرشت میں کامل کاروباری ادارے ہیں۔سودخور۔ فوجی ادوار میں یہ سود خور تھوڑی نرمی اس لئے برتتے ہیں کہ امریکہ جیسے ملکوں کو کمیونسٹ روس کی افواج کو افغانستان میں پھنسا کر شکست دینے کے لئے پاکستان جیسے ممالک کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کا کام نکل جائے تو وہ ہمیں پہچانتے تک نہیں۔ 1990ء میں سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہوگئی تو اس وقت کے امریکی صدر بش کو پاکستان کا ایٹمی پروگرام یاد آگیا تھا۔ جنرل ضیاء کو وہ پہلے ہی بھول بھال چکے تھے۔ ستمبر 2006ء کے بعد جنرل مشرف کے بارے میں بھی ان کے ہاں ’’بات نہیں بنی‘‘ والی سوچ آئی اور NROکروادیا گیا۔
چینی قیادت کو یقینا کاشغر کو گوادر کے ساتھ جلد از جلد ملانا ہے۔ انہیں اس ملک میں سکون اور استحکام کی فضا ملے تو وہ پاک چین راہداری کو بڑی تیزی کے ساتھ مکمل کرلیں گے۔ یہ مکمل ہوجائے تو معاشی امکانات کے بے انتہا در بھی کھل جائیں گے۔ ان امکانات کی نمو اور انہیں عملی صورت دینے کے لئے مگر کئی دہائیوں تک انتظار کرنا پڑے گا۔ انتظار کے ان دنوں میں بھی ورلڈ بینک اور IMFکے دئیے قرضوں کی قسطیں تو ادا کرنا ہوں گی۔ ان قسطوں کی ادائیگی کے لئے پاکستان کی ریاست کو چاہیے ہوگی ڈالروں میں خطیر رقم اور یہ رقم صرف محاصل کی صورت ہی جمع کی جاسکتی ہے۔ چین ہمارا یار ہے اس پر جان بھی نثار ہے لیکن وہ قرضوں کی یہ رقوم اپنے سرلینے کو ہرگز تیار نہیں ہوگا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38