شریف برادران اگر پیسہ اور اقتدار سے آج محروم ہو جائیں کل کا سورج طلوع ہونے سے پہلے ان کے نام نہاد وفادار ساتھی یار غائب ہو جائیں گے۔ اقتدار پہلے بھی دو بار چھن چکا ہے لیکن پیسے کے یار ساتھ نبھاتے رہے۔ مفاد پرستوں کے یار ہڈی کے آگے دُم ہلانے سے زیادہ کچھ نہیں۔ پیسہ اور اقتدار کے یار تو راہ جاتے بن جاتے ہیں، لیڈر وہ ہوتا ہے جس کے اوصاف و کمالات سے محبت و عقیدت رکھی جائے۔ لیڈر غریب ہو یا امیر۔ اقتدار میں ہو یا نہ ہو بے لوث جاں نثار سائے کی مانند ساتھ نبھاتے ہیں۔ لیڈر سے عوام قلبی محبت رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ کے لیڈر کو جس روز مسجد نبوی جیسے مقدس مقام پر مخالفانہ نعروں اور جملوں کا سامنا کرنا پڑا، زوال کی علامت کا اسی روز علم ہو جانا چاہئے تھا۔ مسائل کی شروعات کی وارننگ اسی روز مل گئی تھی۔ جب معاملات اوپر سے بگڑ جائیں تو ختم نبوت کی شق میں گڑبڑ جیسی حماقت تو سرزد ہونی تھی۔ سمجھ جانا چاہئے کہ لیڈر کی طاقت اس کا کردار ہوتا ہے۔ جب قدرت کے تیور بدل جائیں تو زمینی حالات بھی خلاف ہو جاتے ہیں۔ عوام کے دلوں پر راج کرنے والا لیڈر وہ ہوتا ہے جس سے لوگ بے لوث پیار کریں۔ اس پر جان نثار کریں۔ دلوں پر حکومت کرنے والا لیڈر بے انصاف نہیں ہو سکتا۔ دلوں پر حکومت کرنے والا لیڈر اپنی اولاد اور عوام میں تفریق نہیں رکھ سکتا۔ اپنے بچے شاہانہ انداز میں رہتے ہوں اور عوام کے بچے فٹ پاتھوں پر پڑے ہوں، اپنے بچے محافظوں کے حصار میں باہر نکلتے ہوں اور عوام کے بچے دن دہاڑے اٹھا لئے جائیں، اپنے بچے ولایتی درسگاہوں سے تعلیم حاصل کریں اور عوام کے بچے کیڑے مکوڑوں کی زندگی بسر کریں، اپنے بچے برانڈڈ مصنوعات استعمال کریں اور عوام کے بچے ٹوٹی چپل کو بھی ترسیں تو لیڈرشپ کا سوال تو پیدا ہو گا۔ لیڈر تو خاتم الرسول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ لیڈر تو وہ ہیں جو عوام کو پہناتے تھے اور خود فاقہ کرتے تھے۔ عوام کو پلاتے تھے اور خود پیاسے رہتے تھے۔ لیڈر تو وہی تھے بس جو عوام کی جان مال عزت و آبرو کی حفاظت کے امین تھے۔ وہ لیڈر تھے جو کہتے تھے کہ میری لخت جگر فاطمہ ؓ بھی چوری کرے تو ان کو وہی سزا دی جائے گی جو ایک عام شہری کی بیٹی کو دی جائے۔ لیڈر کے دربار پر آئے روز حاضریاں دینے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک وصف بھی نہ اپنا سکے؟ حد تو یہ ہے کہ انتخابی اصلاحاتی بل میں ختم نبوت کے حوالے سے بھی تبدیلی کر دی گئی؟ واویلا مچا تو ترمیم کو اصل حالت میں لانا پڑا۔ مذہبی تنظیموں کے کارکنان ارکانِ پارلیمان کے حلف نامے میں شامل ختمِ نبوت کے اقرار نامے میں مبینہ تبدیلی کے خلاف احتجاج کے طور پر اب اسلام آباد کا رخ کر رہے ہیں۔
گو کہ حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ ختمِ نبوت کے اقرار نامے سے متعلق ہونے والی غلطی کو درست کر دیا گیا ہے اور اس معاملے پر کسی صورت بھی کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ لیکن اس تبدیلی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ایسی حساس حماقتیں اس وقت ہوتی ہیں جب معاملات اوپر سے بگڑ جائیں۔ ایک طرف اہلیہ موذی مرض میں مبتلا ہو گئیں۔ دوسری طرف مال اور اولاد کا امتحان شروع ہو گیا۔ اوپر سے ختم نبوت کا ایشو چھڑ جائے۔ سمجھنے کے لئے بہت کچھ ہے لیکن جو سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی انجان بن جائے اس کا سفر امتحان پھر رکتا نہیں، بہت کچھ لے کر جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024