سیاسی و مذہبی قائدین میں قاضی حسین احمد مرحوم کی ہمیشہ مداح رہی ہوں اورجماعت اسلامی کے موجودہ قائد سراج الحق بھی حکمت اور دانائی کی سیاست کے قائل معلوم ہوتے ہیں۔ سابق امیر جماعت منور حسن اپنی شعلہ بیانی میں بعض اوقات غیر حقیقت پسند جملے بول جاتے ہیں جس سے جماعت اسلامی کا امیج متاثر ہوتا ہے۔ منور حسن صاحب کا دہشت گردوں کو شہید قرار دینا یا قتال فی سبیل اللہ کو غلط مفہوم پہنا کر پیش کرنے کی کوشش، غیر دانشمندانہ سوچ کی عکاسی ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ساتھیوں کو مینار پاکستان کے کامیاب اجتماع پر حرمین شریفین میں تشکر کے نوافل ادا کرنے کی تلقین کی۔ جماعت اسلامی خیبر پی کے کے امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ جماعت اسلامی کے اجتماع کی کامیابی نے ثابت کر دیا کہ پاکستان کے عوام اس ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں۔ امیر جماعت سراج الحق روایتی مولانا نہیں، مدبر و دانا اور سادگی پسند سیاستدان ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں امریکہ نے ڈمہ ڈولہ مدرسہ پر ڈرون حملہ کیا تو سراج الحق نے مشرف حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔ وزارت کے دوران جرمنی کا دورہ کیا تو مہنگے ہوٹل میں قیام کی بجائے مسجد میں قیام کیا اور اپنی جیب سے اخراجات کئے۔ قائداعظم نے قیام پاکستان کے فوراً بعد جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو ٹاسک دیا تھا کہ وہ میڈیا پر اسلامی نظام حیات کے اصولوں کا ابلاغ کریں، اس پر مولانا مودودی نے ریڈیو پر تقاریر کا ایک سلسلہ شروع کر دیا لیکن چند ماہ بعد ہی قائداعظم انتقال فرما گئے اور یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ قائداعظم ایک متوازن شخصیت کا نام ہے۔ اللہ کا یہ دوست حقیقت میں مومن تھا۔ نہ مذہب کا دکھاوا اور نہ اقتدار کی حرص۔ ڈیوٹی ادا کرتے ہی گھر لوٹ گئے۔ مسلمانوں کو ایک الگ آزاد ریاست دے گئے مگر مسلمانوں نے نہ بابائے قوم کی قدر کی اور نہ اس ملک کی لاج رکھ سکے۔ چوروں اور لٹیروں نے پاکستان کو مفت کا مال سمجھتے ہوئے اس کی بال کھال تک نوچ کھائی۔ کسی نے مذہب کو آڑ بنایا اور کسی نے انگریزکی مریدی کا حق ادا کیا۔ بلاشبہ پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا مگر جب کلمہ ہی حلق میں اٹک جائے تو سیاست اور مذہب فقط شعبدہ بازی ہے۔ اسلام میں انتہا پسندی کی گنجائش نہیں اور جب سے انتہا پسندی نے جہاد کو بدنام کیا ہے، پاکستان کی اکثریت اپنا ملک کسی ایسے شخص یا جماعت کے حوالے کرنے پر راضی نہیں جو اسلام کو بطور ہتھکنڈا استعمال کرے۔ پاکستان میں دنیا کے بہترین مسلمان بستے ہیں اور بدنصیبی سے دنیاکے بدترین انسان بھی اسی ملک میں بستے ہیں۔ فروعی اور فرقہ واریت سے بالا اور انگریز کی غلامی سے آزاد ہو کر کوئی جماعت اس ملک کو میسر آ جائے اسے اقتدار کا موقع ملنا چاہئے۔ گو کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے لائف سٹائل مختلف ہیں مگر سیاست اتحاد پر مجبور کر دیتی ہے۔ تحریک انصاف کے جلسے بھی کامیاب جا رہے ہیں مگر اس جماعت کی قسمت میں اقتدار نہیں کہ اس جماعت کے ماسٹر مائنڈ دو نمبر ہیں۔ جماعت اسلامی کا اجتماع ہمیشہ کامیاب رہا لیکن انہیں بھی ووٹ نہیں ملتے۔ مسلم لیگوں میں بھی قائداعظم کی رمق دکھائی نہیں دیتی ورنہ آج ایک مسلم لیگ ہوتی۔ بھٹو اپنے نظریات اور وعدوں کے ساتھ قبر میں جا سوئے اس کے باوجود ملک کی یہ دو سیاسی جماعتیں اقتدار پر چھائی ہوئی ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں ووٹ سے زیادہ اسٹبلشمنٹ اور بیرونی طاقتوں کا ہولڈ ہے، ان کا منظور نظر ہی صاحب اقتدار ہو سکتا ہے، ان کی نظروں سے جو گرا زمین پر آ گیا۔ مذہبی جماعتیں فوج کی طاقت رہی ہیں، نظریہ ضرورت کے تحت سڑکوں پر بُلا لیا جاتا ہے۔ مذہبی جماعتوں کا جہاں منفی کردار رہا ہے وہاں مثبت پہلو بھی پوشیدہ ہیں۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماﺅں کے ساتھ جو شرمناک سلوک کیا جا رہا ہے اور جماعت اسلامی کو دیوار سے لگانے کی جو مکروہ کوشش جا رہی ہے، پاکستان کے عوام دُکھی ہیں مگر کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ دُکھی عوام نہ کشمیر کے مظلوم بہن بھائیوں کے لئے کچھ کر سکتے ہیں اور نہ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں کیونکہ ان کی آوازیں ان کے حلق میں اٹکی ہوئی ہیں۔ جماعت اسلامی سے سیاسی اختلاف ہو سکتا ہے مگر اس جماعت کے محب وطن ہونے میں شبہ نہیں۔ اسلامی نظام کے بارے میں سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں مگر ایک اسلامی ریاست میں اسلامی نظام کی مخالفت نہیں کی جا سکتی۔ منور حسن اور فضل الرحمان جیسے علماءدین دہشت گردوں کو شہادت کا رُتبہ دیں تو دین اسلام کو ازسر نو پڑھا جائے۔ امریکہ کی مخالفت سیاسی پروپیگنڈا کی حد تک درست مگر گوری پالیسیوں کے تسلط سے نجات کے لئے تسلی بخش فارمولہ پیش نہیں کیا جا سکا۔ بنگلہ دیش میں کم از کم پچیس فیصد آبادی جماعت اسلامی سے وابستہ ہے اور بھارت مخالف ہے لہٰذا بھارت کی پاکستان سے دشمنی کے ثبوت بنگلہ دیش میں بھی دکھائی دےتے ہیں۔ امیر جماعت سراج الحق کی قیادت میں امید کی جا تی ہے کہ متوازن سیاست کو متعارف کرایا جائے گا کیونکہ پاکستانی کھوکھلے جذباتی نعروں اور دعووں سے بیزار ہو چکے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38