کسی اور سے کیا گلہ کروں۔ بات اپنے ہی گھر سے شروع کرنا ہوگی۔ میری بیوی چند حوالوں سے مجھ سے زیادہ پڑھی لکھی ہے۔ تعلیم اور صحت جیسے اہم سماجی مسائل سے متعلق اعدادوشمار کو اکٹھاکرکے ان کا تجزیہ کرنا اس کا دھندا ہے اور وہ اس کام کو کافی محنت اور دیانت داری سے سرانجام دیتی ہے۔ اپنے اس کام کے لئے اسے پاکستان کے دور دراز قصبوں اور دیہاتوں میں بھی جانا پڑتا ہے جس کی بدولت ہمارے غریب اور بے وسیلہ لوگوں کے روزمرہّ مسائل کا اسے مجھ سے کہیں زیادہ علم ہے اور وہ ان کے بارے میں فکر مند بھی بہت رہتی ہے۔
انگریزی کے دو اخبار وہ روزانہ بہت غور سے پڑھتی ہے۔جب میں یہ کالم لکھنا ختم کرچکا ہوتا ہوں تو اس نے یہ اخبارات پڑھ لئے ہوتے ہیں۔ ناشتے کے انتظار میں اکثر میں اس سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ اس نے آج کے اخبارات پڑھ کر کونسی اہم چیز کا نوٹس لیا ہے۔
بلوچستان میں ملامنصور کی امریکی ڈرون کے ذریعے ہلاکت کے بعد مگر وہ کسی اور موضوع کا ذکر ہی نہیں کررہی۔ اسے بہت رنج ہے کہ امریکہ نے ملامنصور کو بلوچستان میں ہلاک کرنے کے ذریعے پاکستان کو دُنیا کے سامنے نام نہاد دہشت گردوں کا پشت پناہ بناکر پیش کیا ہے۔ملامنصور اگر واقعی دہشت گرد تھا اور اسے مارنا ضروری ہوگیا تھا تو امریکہ نے یہ کام اس وقت کیوں نہیں کیا جب وہ دوبئی یا ایران میں موجود تھا۔
یہ وہ سوال ہے جو ملامنصور کی ہلاکت کے بعد ٹی وی سکرینوں پر پاکستان کے دفاعی امور کے اپنے تئیں ترجمان ونگہبان بنے ماہرین بھی تواتر سے اٹھارہے ہیں۔
میرے پاس اپنی بیوی کے ہذیانی انداز میں اٹھائے سوالات کے جوابات موجود ہیں۔ میں انہیں بیان کرنے سے مگر پرہیز کرتا ہوں تاکہ میری بیوی امریکہ پر اپنا غصہ نکال کر دن کا بقیہ حصہ خوش گوار کیفیت میں گزار سکے۔
یہ سوال کہ ملامنصور کو دوبئی یا ایران میں ڈرون مارکر ہلاک کیوں نہیں کیا گیا صرف میری بیوی ہی نہیں اٹھارہی۔ بدھ کی شام میرے ٹی وی پروگرام میں ایک گھریلو خاتون نے بھی یہ سوال بذریعہ ٹیلی فون اٹھایا۔ اس سوال کی ’’مقبولیت‘‘ سے مجھے اندازہ ہوا کہ دفاع اور قومی سلامتی کے ٹی وی سکرینوں پر نظر آنے والے ترجمان ونگہبان جن کا اکثر میں کالموں میں تمسخر اُڑاتا رہتا ہوں اپنا پیغام پہنچانے میں کافی مؤثر ثابت ہورہے ہیں۔ ابلاغ کے دھندے سے وابستہ ہونے کی وجہ سے مجھے بلکہ ان کے مجھ سے کہیں زیادہ مؤثر ثابت ہونے پر رشک آرہا ہے۔ میں ان کے اتباع اور نقالی کے لئے البتہ اب بھی تیار نہیں ہوں۔ ملامنصور کو ایران یا دوبئی میں ہلاک کیوں نہیں کیا گیا جیسا سوال اٹھاکر ہماری توجہ درحقیقت خوفناک اور تلخ حقیقتوں کی طرف مبذول نہیں ہونے دی جارہی۔ میں قوم کو دھوکے میں رکھنے والے اس عمل میں حصہ ڈالنے کو ہرگز تیار نہیں۔
میرا اصرار ہے کہ امریکی صدر اوبامہ میر ے ملک کی اشرافیہ سے سخت ناراض ہے۔ وہ بضد ہے کہ ہماری ریاست نے افغان طالبان کے چند مؤثر عناصر کی مبینہ طورپر ’’سرپرستی‘‘ کرتے ہوئے اسے افغانستان کے بارے میں کیا وہ وعدہ پورا نہیں کرنے دیا جو اس نے 2008ء کی انتخابی مہم کے دوران بارہا دہرایا تھا۔وائٹ ہائوس میں آٹھ سال گزارنے کے باوجود وہ افغانستان سے امریکی افواج کو مکمل طورپر باہر نہیںنکال پایا ہے۔ اس ملک میں ایسا نظام بھی قائم نہیں ہوپایا جو وہاں دیرپا امن اور خوش حالی کو یقینی بنانے کے اشارے دے رہا ہو۔
ہر طرح کے وسائل سے لیس اور مکمل اختیارات کے حامل امریکی صدر جیسے طاقت ور لوگ جب اپنے کسی مشن میں ناکام ہوجائیں تو اپنے گریبانوں میں جھانک کر غلطیوں اور کوتاہیوں کو تلاش نہیں کیا کرتے۔ اپنی ناکامی کا ذمہ دار وہ کسی اور کو ٹھہرانے کے عادی ہوتے ہیں۔ داستانوں والا بھیڑیا بلندی پر کھڑا ہوکر بھی نشیب میں پانی پیتے بھیڑ کے بچے کو پانی گدلا کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتا تھا۔ امریکی صدر کی نظر میں پاکستان ان دنوں بھیڑ کا وہی بچہ دِکھ رہا ہے۔اگرچہ ایمان داری کی بات ہے کہ افغانستان کے حوالے سے ہم بھیڑ کے بچے کی طرح قطعاََ معصوم بھی نہیں۔ افغانستان کے حوالے سے ہماری اپنی ترجیحات ہیں جن کے حصول کے لئے ہماری اشرافیہ نے 80ء کی دہائی سے ایک گیم لگارکھی ہے۔ ہماری گیم، آپ پسند کریں یا نہیں، کافی برسوں تک اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہی۔ اس گیم کے حوالے سے ہماری مشکلات کا آغاز درحقیقت 2مئی 2011ء کے بعد سے شروع ہوا جب صدر اوبامہ کو اپنے دورِ اقتدار کا ایک مشکل ترین فیصلہ کرتے ہوئے امریکی طیارے اور کمانڈوز بھیج کر ایبٹ آباد کے ایک گھر میں چھپے اسامہ بن لادن کو مروانا پڑا۔
میں اس سے قبل بھی اس کالم میں جان کی امان پاتے ہوئے عرض کرچکا ہوں کہ پاک-امریکہ تعلقات میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ایک نیاموڑ آچکا ہے۔ اس کے بعد دونوں ممالک کی اشرافیہ کے درمیان باہمی اعتماد واحترام کے رشتے برقرا ر رکھنا اگر ناممکن نہیں تو سنگین حد تک مشکل ترین ہوچکا ہے۔
اوبامہ کے پاس وائٹ ہائوس میں رہنے کے لئے مزید کچھ وقت ہوتا تو شاید ٹھنڈے دل اور انتہائی غور وفکر کے بعد بنائی کسی حکمت عملی کے ذریعے معاملات کو بہتر بنایا جاسکتا تھا۔ فی الحال یہ ممکن نظر نہیں آرہا۔ اوبامہ کے پاس اپنے عہدے پر رہنے کے لئے صرف چھ ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ ان چھ مہینوں میں وہ ہر وہ قدم اٹھائے گا جو اس کی نظر میں ان لوگوں کو ’’سزا‘‘ دیتا نظر آئے جنہوں نے اس کے ’’افغان مشن‘‘ کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔
ملامنصور کی بلوچستان کی سرزمین پر امریکی ڈرون کے ذریعے ہلاکت ایسا ہی ایک فیصلہ تھا۔ مقصد محض ملامنصور کی ہلاکت نہ تھی۔ امریکی عوام اور باقی دُنیا کو یہ دکھانا مقصود تھا کہ امریکی افواج کے لئے افغانستان میں مشکلات پیدا کرنے والے لوگوں کا یہ’’امیر‘‘ پاکستان میں کئی برسوںسے رہ رہا تھا۔ اس کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی تھا وہ ان کے ذریعے ہمارے بین الاقوامی ہوائی اڈوں سے دوبئی جیسے شہروں میں اکثر جایا کرتا تھا۔ اپنی موت سے چند گھنٹے قبل بھی وہ تفتان کی سرحد سے باقاعدہ امیگریشن کے ذریعے پاکستان داخل ہوا تھا۔
نظر بظاہر ملامنصور کو پاکستا ن میں کوئی ’’خطرہ‘‘ یا مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ وہ عام مسافروں کی طرح تفتان سے پاکستانی سرحد آیا۔ ایک ٹیکسی لی اور اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ ملامنصور کی بلوچستان میں ہلاکت کے ذریعے امریکی عوام اور باقی دُنیا کو یہ سب کچھ دکھاکر ثابت یہ کرنا تھا کہ پاکستان امریکہ کا ’’اتحادی‘‘ہوتے ہوئے بھی چند مخصوص ’’دہشت گردوں‘‘ کے بارے میں دوستانہ نہیں تو نرم رویہ ضرور اختیار کئے ہوئے ہے۔ ایسے ’’اتحادی‘‘ پر لہذا ہرگز اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔انگریزی محاورے والی گاجر اور چھڑی کے ذریعے اسے ’’راہِ راست‘‘ پر لانا ہوگا۔گاجر فی الحال مگر صرف دکھائی جارہی ہے۔ اوبامہ کے وائٹ ہائوس میں جو باقی چھ ماہ رہ گئے ہیںان کے دوران صرف ’’چھڑی‘‘ ہی کا استعمال ہوتا نظر آرہا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری ریاستی اشرافیہ اعلیٰ ترین سطح پر بھی ’’چھڑی‘‘ کے ایسے استعمال کو روکنے کے لئے کوئی سوچی سمجھی اور قابل عمل حکمتِ عملی استعمال کرتی نظر نہیں آرہی۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات
Apr 22, 2024