پاک فوج کے سابق آرمی چیف پرویز مشرف نے ڈرون حملے شروع کرائے تھے، موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بند کرا کے جائیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کہتے ہیں کہ ’’ڈرون حملے پاک امریکہ تعلقات کے لئے نقصان دہ ہیں‘‘ اور عوام کہتے ہیں کہ بھاڑ میں جائیں ایسے تعلقات جس کی اتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ پاکستان کی سلامتی اور وقار دائو پر لگا ہوا ہے اور سیاسی و عسکری قائدین کو تعلقات سنبھالنے کی فکر پڑی ہوئی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستانی حکام نے نہ صرف کئی برسوں سے امریکی ڈرون حملوں کی توثیق کی بلکہ ان حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں بریفنگ بھی دی جاتی ہے۔ اخبار کے مطابق سی آئی اے کی خفیہ دستاویزات میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں درجنوں ڈرون حملوں کا ذکر کیا گیا۔ اخبار کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے ایک ایسا راز ہے جس کو نہ تو واشنگٹن اور نہ ہی اسلام آباد نے موزوں طریقے سے راز رکھا اور ڈرون حملوں کے آغاز میں یہ ڈرون طیارے پاکستانی فضائی اڈے سے اڑائے گئے۔ ایک امریکی جریدے نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ سابق جنرل پرویز مشرف اور سابق صدر جارج بش کے درمیان ایک خفیہ پروٹوکول طے ہوا جس میں ڈرون حملوں کی اجازت دی گئی۔ امریکی اخبار کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کے دورہ واشنگٹن کے دوران ڈرون حملوں کو تعلقات میں تنائو کا سبب قرار دیا گیا۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں کی اجازت سے متعلق پرویز مشرف اور جارج بش کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس پر دونوں نے دستخط کئے۔ یہ ماضی کی حکومتوں کی پالیسی تھی، جب سے ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع ہوا، امریکہ اور پاکستان میں دو حکومتیں بدل گئیں مگر معاہدہ نہیں بدلا جا سکا۔ ڈکٹیٹر کی حکومت میں ڈرون معاہدہ ہوا، اس کے بعد نیم ڈکٹیٹر کی نام نہاد جمہوری حکومت نے بھی معاہدے کو جاری رکھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف جس بھاری مینڈیٹ کے ساتھ آئے، کیا وہ بھی ڈرون معاہدے کو جاری رکھنا چاہتے ہیں؟ نواز حکومت کی خارجہ پالیسی واضح نہیں جس کی وجہ سے غیرملکی دوروں کے بارے میں عوام تذبذب کا شکار ہیں۔
وزیراعظم نے نیویارک میں قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں ڈرون حملوں کی مذمت کی اور صدر اوباما سے ملاقات میں بھی ڈرون حملوں کا ذکر کیا اور اس کے بعد حملوں میں واضح کمی بھی ہوئی لیکن پاک فوج کے ساتھ کئے گئے معاہدے کے مطابق حسب ضرورت ڈرون حملے جاری رہیں گے۔ گو کہ صدراوباما نے نواز شریف کا موقف سنا لیکن صدر اوباما نے بھی اپنے تحفظات اور خدشات سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ وہ موقف ہے جو عمران خان بھی وزیراعظم بن جائے اس موقف کی خلاف ورزی کا مجاز نہیں ۔ وزارت اعظمیٰ سے پہلے سب ہرے نیلے خواب دکھاتے ہیں۔ اگر ڈرون حملے جاری رہنے ہیں تو پھر جو بھی حکومت بدل جائے پاکستان کی قسمت بدلنے والی نہیں۔ عمران خان کو ویسے بھی ڈرون حملے بند کرانے سے زیادہ نواز شریف کو بند کرنے میں دلچسپی ہے۔ یاد رہے کہ ڈرون کے حملے میں سب سے پہلی ہلاکت افغانستان میں نومبر 2001 میں ہوئی جب القاعدہ کے ملٹری کمانڈر محمد عاطف کو نشانہ بنایا گیا۔ ڈرون طیاروں کی تیاری میں امریکہ سب سے آگے ہے اور اس کو کئی ممالک سے ان طیاروں کی خریداری کے آرڈر موصول ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق مستقبل میں ڈرونز پر اخراجات دوگنے ہو جائیں گے اور سالانہ 5.9 ارب ڈالر سے بڑھ کر 11.3 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ ماضی کے حکمرانوںنے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ جو ناجائز تعلقات قائم کئے، ڈرون اسی کا نتیجہ ہیں۔ وار آن ٹیرر کو پاکستان نے اپنے گلے ڈال کر سنگین غلطی کی ہے جس کا خمیازہ نہ صرف پاک فوج بلکہ اندرون و بیرون ملک پوری قوم بھگت رہی ہے۔ امریکہ سے جان چھڑانے کے لئے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا وگرنہ صورتحال مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ ایک امریکی ڈرون اپریٹر نے بے گناہ لوگوں کی ہلاکت سے تنگ آکر نوکری چھوڑ دی۔ سابق ڈرون اپریٹر کا کہنا تھا کہ ڈرون حملوں میںبے گناہ لوگوں کے چیتھڑے اڑتے دیکھ کر چکرا کر رہ گیا۔ ایک غیر ملکی میگزین سے بات کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اس نے اپنی سکرین پر بے گناہ افراد کو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے دیکھا تو نوکری چھوڑنے کی درخواست دے دی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے امریکہ اور پاکستان کو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم قرار دیا۔ اس کی ایک ہولناک مثال سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے تھے ۔ اس کے باوجود پاکستان کا امریکہ کے ساتھ تعاون جاری رہا۔ سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو فضائی حملے میں24 جوانوں کی شہادت اور امریکہ کا پاکستان سے معافی کا مطالبہ مسترد کرنے کے باوجود پاکستان اور امریکہ میں رابطوں کا سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔ کیا جنرل راحیل شریف میں بھی دم خم نہیں کہ وطن عزیز کی سالمیت اور وقار کا دفاع کر سکیں؟ ڈرون حملے ہمیشہ کے لیئے بند کرا سکیں؟
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024