ایک زمانہ وہ تھا جب سول بیورو کریسی نے بڑے بڑے لکھاری پیدا کئے۔ قدرت اﷲ شہاب‘ الطاف گوہر‘ مختار مسعود‘ مسعود مفتی ‘ ممتاز شاعر پرتو روہیلہ ‘ مصطفیٰ زیدی‘ ممتاز شاعرہ پروین شاکر‘ صفدر محمود اور انگریزی زبان کے لکھاری ڈاکٹر اکرام اعظم اور اعجاز رحیم چند ایک نام ہیں جو اس وقت ذہن میں آ رہے ہیں۔ خاکی وردی والوں میں بھی بڑے نامور شاعر اور ادیب ہو گزرے ہیں۔ میجر ضمیر جعفری‘ میجر جنرل شفیق الرحمان‘ کرنل محمد خان بریگیڈئر گلزار اور صدیق سالک کو خاصی شہرت ملی۔ 80 کی دہائی کے بعد سول اور فوجی بیورو کریسی نے کوئی بڑا ادیب پیدا نہیں کیا۔ میرے ذہن میں نہیں ہے ممکن ہے کوئی ہو۔
ایک رائے یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب بیورو کریسی POLITICISE نہیں ہوئی تھی تو اس مبں پڑھنے لکھنے کا رواج تھا۔ اس وقت کی بیورو کریسی سیاسی باسزکے ناجائز احکامات پر عملدرآمد نہیں کرتی تھی ۔ ریاستی اور انتظامی معاملات پر قانونی پوزیشن کا دفاع کرتی تھی۔ 1990ء میں نوائے وقت کی گولڈن جوبلی کی اشاعت کے لئے الطاف گوہر نے راقم کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ جب وہ کراچی کے ڈپٹی کمشنر تھے تو صدر سکندر مرزا نے انہیں ہدایت کی کہ کراچی میں ایرانی سفارت خانہ اپنی عمارت میں توسیع کرنا چاہتا ہے انہیں سفارت خانہ سے ملحقہ زمین الاٹ کریں۔ الطاف گوہر نے بتایا کہ جب میں نے ایرانی سفارتخانہ کے قریب جگہ کا معائنہ کیا تو وہ کھیل کا میدان تھا۔ میں نے صدر سکندر مرزا کو جواباً لکھا کہ یہ ناانصافی ہو گی کہ علاقے کے واحد کھیل کے میدان کو سفارتخانہ کو دیا جائے۔ کچھ دنوں بعد صدر سکندر مرزا مجھے ایک تقریب میں ملے تو انہوں نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا ’’الطاف آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ‘ یہ جگہ واقعی ایک کھیل کا میدان ہے۔ یہ سفارتخانہ کو نہیں دیا جا سکتا‘‘۔ایک اور باخبر دوست نے راقم کو بتایا کہ وزیراعظم حسین شہید سہروردی اپنی حکومت کے دوران کراچی نشتر پارک میں اپنی جماعت عوامی لیگ کا 14 اگست کو یوم آزادی کا جلسہ کرنا چاہتے تھے تو ڈپٹی کمشنر نے وزیراعظم کو بتایا کہ اس نے نشتر پارک میں جلسہ کی اجازت مسلم لیگ کو دے دی ہے۔ اس پر وزیراعظم سہروردی نے اپنی حکمران جماعت کا جلسہ کراچی کی بجائے ڈھاکہ میں منعقد کیا۔ وزیراعظم نے ڈی سی کو مجبور نہیں کیا کہ وہ مسلم لیگ کو دی گئی اجازت کو منسوخ کر کے حکمران جماعت کو جلسہ کرنے کی اجازت دے۔
کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو ستر کی دہائی میں اقتدار میں آئے تو انہوں نے بیورو کریسی کو سیاسی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی۔ انہوں نے انتظامی اصلاحات کے نام پر سی ایس پی افسروں کاکیڈر ختم کر کے سنٹرل سپئرز سروسز کا نظام متعارف کرایا بیورو کریٹس کے ناموں کی تختیوں سے سی ایس پی کا لاحقہ ہٹا دیا گیا۔ ہمارے کچھ دوستوں کا مؤقف یہ ہے کہ بھٹو صاحب کو ایوب دور میں سی ایس پی آفیسر مختلف انتظامی معاملات میں چیلنج کرتے تھے۔ بھٹو صاحب اپنے آپ کو انتہائی ذہین اور دانشور خیال کرتے تھے وہ سی ایس پی کلاس کو نیچا دکھانا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے سول سروسز آف پاکستان کا نظام ختم کر دیا۔ انہوں نے اپنے دور میں لیٹرل انٹری کا نظام متعارف کرایا جس کے تحت ان افراد کو بھی اعلیٰ انتظامی عہدوں پر بھرتی کیا گیا جو سول سروس کا امتحان پاس نہیں کر سکے تھے یا کسی وجہ سے وہ مقابلے کے امتحان میں بیٹھے نہیں تھے۔ اس دور میں LATERAL ENTRY سکیم کے تحت کئی قابل افراد بھی بیورو کریسی میں شامل ہوئے۔ لیکن ان کی ایک بڑی اکثریت کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگانے کے بعد ملازمتوں سے فارغ کر دیا تھا۔ بات دوسری طرف نکل رہی ہے میں جو بات قارئین کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ بیورو کریسی میں پڑھنے لکھنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں قومی سطح کا کوئی بڑا ادیب یا شاعر بیورو کریسی کی صفوں سے نہیں ابھرا۔اس دور میں بیورو کریٹس کی جائیدادوں اور ان کے پاس اثاثوں کے چرچے تو ضرور ہو رہے ہیں۔ ایک صوبائی سیکرٹری خزانہ کے گھر سے قریباً ایک ارب روپیہ نیب نے برآمد کیا ہے اور اس صوبائی سیکرٹری خزانہ کی کوٹھیوں اور کاروں کا سراغ اب بھی لگایا جارہا ہے۔ کئی دوسرے بیورو کریٹس ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے پاس قارون کا خزانہ موجود ہے۔ پیسے بنانے اور بچوں کو ملک سے باہر سیٹل کرنے کا رجحان آج کی بیوروکریسی میں عام ہے۔ سیاسی باسز Bosses کو خوش رکھنا بھی ان کے ایجنڈا میں سرفہرست ہے۔پڑھنے لکھنے کے حوالے سے اس گئے گزرے دور میں بھی اگر کوئی سرکاری افسر کتب بینی اور مطالعہ کا شوقین نظر آئے تو بڑی حیرت ہوتی ہے۔ راقم کو وزارت اطلاعات کے دو افسروں کے بارے میں قطعاً علم نہیں تھا کہ وہ مطالعہ کے شوقین ہیں۔ایک آفیسر کے بارے میں میری رائے یہ تھی کہ وہ خالص رانگھڑ ہیں۔ جثے کے اعتبار سے وہ مطالعہ کے شوقین نظر نہیں آتے۔ بظاہر لگتا ہے کہ ان کا لکھنے پڑھنے سے کیا تعلق ہوگا۔ لیکن پچھلے دنوں انہوں نے مجھے یہ بتا کر حیرت زدہ کردیا اپنی تنخواہ کا ایک حصہ کتابوں کی خریداری پر صرف کرتے ہیں پچھلے دنوں انہوں نے مجھے کچھ کتابیں پڑھنے کی تجویز دی ان کتابوں میں برکھا دت کی
THIS UNQUIET LAND ‘ زلمے خلیل زاد کی THE ENVOY رابرٹ ڈی کیلپون کی THE RVENGE OF GEOGRAPHYانڈریو سمال کی
THE CHINA PAKISTAN AXIS
شامل ہیں۔ وزارت اطلاعات کے موجودہ پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین علی خان قطعاً پڑھاکو نہیں لگتے تھے لیکن وہ بڑے پڑھاکو نکلے انہوں نے ایک اپنی بڑی ذاتی لائبریری بنا ڈالی ہے۔ان کے ایک دوسرے کولیگ سلیم بیگ جو پی آئی او رہ چکے ہیں اور آج کل پی آئی ڈی میں الیکٹرانک میڈیا کے شعبہ کے سربراہ ہیں وہ تو کتابوں کے کیڑے ہیں۔ سلیم بیگ جنہیں ہم پروفیسر سلیم بیگ کہتے ہیں نے مجھے بتایا کو وہ سالانہ پانچ سے چھ لاکھ روپیہ اپنی جیب سے کتابوں کی خریداری پر صرف کرتے ہیں۔وزارت اطلاعات کے ان دو افسران کے ذاتی مطالعہ اور کتاب دوستی میرے لئے انکشاف سے کم نہیں تھی۔ دونوں آفیسر ہفتہ میں ایک دن کتابیں خریدنے جناح سپر مارکیٹ ضرور جاتے ہیں۔ وہ کئی صحافی دوستوں کو کتابیں تحفہ میں بھی پیش کرتے ہیں۔ اس گئے گزرے دور میں ان دونوں افسروں کی کتب بینی کی عادت لائق تعریف ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024