سوشل میڈیا خبروں میں سب سے آگے ہے، ہفتے کو اس کے ذریعے معلوم ہوا کہ خادم حرمین شریفین اور سعودی عرب کے شاہ سلمان گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لئے فرانس میں ہیں، انٹرنیٹ کو مزید کھنگالا تو پتہ چلا کہ ان کے وفد میںکوئی ایک ہزار افراد شامل ہیں اور فرانسیسی حکومت نے شاہ سلمان کو اس قدر پرٹو کول دیا ہے کہ ایک ساحلی پٹی ان کے لئے خالی کر دی گئی ہے جہاں عام سیاحوں کا داخلہ بند ہے۔فرانس جیسے ملک سے اس قدر عزت افزائی کی توقع نہیں تھی مگرشاہ سلمان نے یمن کے حالیہ بحران کو جس دلیری اور دانش مندی سے سمیٹا ہے، اس پر ہر کوئی واہ واہ کر اٹھا ہے، صرف ہم پاکستانی بد قسمت ہیں جو اپنے قریب تریں دوست اور برادر ملک سعودی عرب کی ا ٓزمائش کے وقت اس کے ساتھ کھڑے نہ ہو سکے،اس لئے ہمیں کیا معلوم کہ شاہ سلمان نے کس قدر بڑا معرکہ مارا ہے اور وہ بھی انتہائی نا مساعد حالات میں کہ نو عرب ملکوں کے علاوہ کوئی مسلمان ملک بھی ان کی مددکو نہ پہنچا اور ایران تو کھل کر اس کی مخالف صفوں میں شامل تھا بلکہ یمنی باغیوں کی سرپرستی کر رہا تھا۔
یمن کا بحران انتہائی سنگین تھا۔صف بندی واضح نہ تھی، سعودی عرب نے کبھی اپنے پٹھے آزمائے نہیں تھے، ہاں، صرف ایک ہمسایہ خلیجی ملک میں انتشار کے آثار نظرا ٓئے تو سعودی ٹینکوں نے برق رفتار ایکشن کیا اور باغیوں کی سرکوبی کر دی۔یہ آپریشن اس قدر تیز رفتار تھا کہ دنیا کو اس پر کوئی تبصرہ کرنے یا رد عمل کاا ظہار کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا مگر یمن میں تو کھلاڑی بہت تھے، القاعدہ کے جتھے ایک طرف، حوثی باغی دوسری طرف، ایرانی عناصر تیسری طرف، امریکی مفادات اور ڈرون حملے چوتھی طرف اور اسرئیلی مناقشت اور منافقت سب سے بڑھ کر۔ اور داعش کا طوفان ان سب پر حاوی،اور امریکہ کے کیا کہنے ،و ہ تو ہر فریق کی پیٹھ تھپکتا ہے۔
مگر شاہ سلمان نے خوب سوچ سمجھ کر قدم اٹھایا، انہیں پتہ تھا کہ ایرانی عناصر عراق، لبنان، شام او ر مصر میں نبرد آزما ہیں ، یہ علاقہ عالم عرب کے دل کی حیثیت رکھتا ہے۔اس علاقے میں مداخلت کے بعد ہی ایران کو یہ حوصلہ ملا کہ وہ براہ راست سعودی عرب کے مفادات پر ضرب لگائے، اگر شاہ سلمان اس پر خاموش ہو رہتے یا محض پراکسی جنگ تک محدود رہتے تو اگلا نشانہ خود ان کا ملک ہوتا جہاں آبادی کا ایک حصہ کبھی کبھار مسئلہ پیدا کر دیتا ہے۔
سعووی عرب کو مذہبی طور پر عالم ا سلام میں مرکزیت کا درجہ حاصل ہے۔حرمین شریفین کاا حترام اور تقدس اور سعودی حکمران کی بڑھ چڑھ کر خدمت کا جذبہ، وہ پوری مسلم امہ کے لئے محترم قرار پاتے ہیں۔مگر ابھی تک ایسا نہیں ہوا تھا کہ سعودی عرب نے اپنے چاہنے والوں کو آزمایا ہو، یمن کے بحران نے یہ موقع پیدا کر دیا اور سعودی عر ب کو اپنے مخلص اور ریاکار دوستوں میں ایک پل میں تمیز ہو گئی، نو عرب ممالک اس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے تھے ا ور کسی عجمی ملک نے کھل کر اس کا ساتھ نہ دیا ، اور انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان نے بھی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا، اگر یمن میں مداخلت کے لئے ہم تیار نہیں بھی تھے تو سعودی خدمات کے پیش نظر ہمیں یہ ضرور چاہئے تھا کہ ہم اپنی فوج سعودی سیکورٹی کی خاطر ضرور بھیجتے اور بغیر گنے بھیجتے، جب سعودی عرب نے اپنی سلامتی کاسوال کھڑا کیا تھا تو ہمیں کسی ہچر مچر کا مظاہرہ نہیںکرنا چاہئے تھا۔ سعودی عرب نے ہماری امداد میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا، سعودی احسانات کی فہرست لازمی طور پر اسحا ق ڈار کے پاس ہو گی، انہیں یہ فہرست پارلیمنٹ کے سامنے رکھنی چاہئے تھی،ا ور میڈیا کی رہنمائی بھی کرنی چاہئے تھے تاکہ ہم اندھے جذبات اور بہرے اصولوں کو بنیاد بنا کر سعودی عرب کو ٹھینگا نہ دکھاتے۔اورایک حقیت پسندانہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتے۔ بہر حال سعودی عرب نے ثابت کر دیا کہ وہ پاکستان کی بیساکھیوں کے بغیر بھی اپنے مشن میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
شاہ سلمان کی فراست ا ور جنگی حکمت عملی کی وجہ سے انہیں فوری طور پر خلیج عدن کے دہانے پر کنٹرول حاصل ہو گیا، مشترکہ عرب ایئر فورس نے حوثی باغیوں کو چن چن کر نشانہ بنایا اور انہیں کسی ایک مقام پر مجتمع ہونے کا موقع نہیں دیا۔ بحری راستوں کی کامیاب ناکہ بندی سے ایران کو بھی مکمل طور پر نیوٹرلائز کر لیا گیا، ویسے بھی ایران اس بحران میں کھل کر کودنے کی حماقت نہیں کر سکتا تھا، اندر کھاتے اس نے حوثیوں کی ضرور مدد کی مگر سامنے سعودی عرب اور اس کے نو عرب حمایتی سینہ تانے کھڑے تھے اور وہ شاہ سلمان کی قیادت میںمتحد تھے تو کس کی ہمت تھی کہ اس فورس کے مقابل کھڑا ہونے کی کوشش کرتا۔
امریکہ نے بھی تسلسل کے ساتھ سعودی عرب کا ساتھ چھوڑنے کے نظرا ٓنےو الے ا قدامات کئے۔ سعودی عرب امریکی رویئے سے اس قدر زچ ہو گیا کہ اس نے سلامتی کونسل میںاپنی سیٹ سے دست برداری کا اعلان کردیا۔ سعودیہ کو نظر آ رہا تھا کہ امریکہ نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر رعاتیں دینے کا تہیہ کر رکھا ہے، اور بالآخر یہ معاہدہ سامنے آ گیا، یہ معاہدہ ایران کے حق میں کم اور سعودی مفادات کے زیادہ خلاف ہے مگر سعودی عرب نے یوں ظاہر کیا کہ اسے ا س معاہدے پر کوئی پریشانی لاحق نہیں۔ اسنے اپنے یمن آپریشن پر پوری توجہ مرکوز رکھی اور اس دوران جب کبھی عالمی اداروںنے انسانیت کے نام پر جنگ زدہ یمنی لوگوں کی مدد کی درخواست کی تو سعودی عرب نے وقتی طور پر جنگ بندی کا اعلان کرکے فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔اس وقت بھی اس مقصد کے لئے سیز فائر پر عمل ہو رہا ہے، یوں نظرا ٓتا ہے کہ حالات پوری طرح سعودی عرب کے کنٹرول میں ہیں۔
یمن بحران کے دوران شاہ سلمان نے اندرونی نظام کو درست رکھنے پر بھی توجہ مرکوز رکھی، وہ اب تک دو مرتبہ اپنی کابینہ میں رد و بدل کر چکے ہیں اور پہلی مرتبہ جو تبدیلیاں کی گئیں ، وہ بے حد اہمیت کی حامل تھیں، ہر حکمران اپنے آپ کو مضبوط ا ور مستحکم کرنے کا حق رکھتا ہے، شاہ سلمان نے نئی پود کو آگے کیاا ور شاہی خاندان کی تیسری نسل کو ملکی معاملات میں دخیل کر کے ملک کو نئی جہت دی ہے۔ا س سے نظام حکومت پر خود انکی گرفت اس قدر مضبوط ہو گئی ہے کہ وہ پہلی بار چھٹیاں گزارنے کے لئے بیرون وطن چلے گئے ہیں، یہ ہے شاہ سلمان کی خود اعتمادی کا ایک بین ثبوت۔انہوںنے مملکت کو ایک ایسے مقام پر فائز کر دیا ہے جہاں وہ دوسروں کی طرف دیکھنے کی محتاج نہیں ہے۔
تاریخ میں کتنے شاہ سلمان آئے، جو بھی آیا، اس کے مقدر میں اعزاز واکرام لکھ دیا گیا۔حضرت سلیمان علیہ السلام کو جن وبشر پر اختیار حاصل تھا، ترک شاہ سلیمان کو سلطان عالی شان کہا گیا، اب سعودی شاہ سلمان کے مقدر کا ستارہ عروج پر ہے،عثمانی سلطنت کے زوال پر ہم نے تحریک خلافت چلائی، میرے بس میںہو توپورے عالم ا سلام کو سعودی پرچم تلے متحد ہونے کی تحریک چلاﺅں ۔ شاعر نے بھی کہا تھا کہ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے، ایک ہونے کا وقت آگیا ہے۔