مجید نظامی پاکستانی صحافت اور دفاع پاکستان کی نظریاتی صحافت و سیاست کے سپرمین تھے۔ ہوا کے سامنے چراغ لے کے چلے اور یہ چراغ کئی چراغوں میں روشن ہوا۔ ہمارے دل و نگاہ میں بھی یہ چراغ جل رہا ہے۔ ہم بھی اسے بجھنے نہیں دیں گے پاکستان اور نظریہ پاکستان کا علم لے کے اور قلم لے کے چلنے والا چلا گیا۔ ایک آواز تھی جو کسی راز کی طرح قومی فضائوں میں سرایت کر گئی تھی۔ ہم انہیں سپرد خاک کر رہے تھے تو میں نے سوچا
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
وہ آسمانوں کی طرح سربلند تھے۔ مجھے مرزا غالب یاد آتا ہے
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ الے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گرانمایہ کیا کئے
اچھا لگا کہ خادم پنجاب شہباز شریف گھر تشریف لائے۔ جنازے میں بھی شریک ہوئے۔ رمیزہ نظامی سے ملے۔ ان کے ساتھ گھر کے اندر مجید نظامی کی میّت کے پاس گئے۔ ہم ان کے شکرگزار ہیں۔ مجید نظامی کے ساتھ ان کا ایک خاص تعلق تھا۔ یہ خوش قسمتی تھی کہ ان کے وزیر اعلیٰ بننے میں مجید نظامی کا کردار بھی تھا۔ شہباز شریف نے ہمیشہ اپنے بڑوں کی طرح ان کا لحاظ کیا۔ جب مجید نظامی کی اہلیہ فوت ہوئیں تو شہباز شریف کے علاوہ نواز شریف بھی تشریف لائے۔ دونوں بھائیوں نے محترمہ کے جنازے کو کندھا بھی دیا۔ نظامی صاحب نے ایوان اقبال کے بعد ایوان قائداعظم بنانے کا ارادہ کیا تو سب سے زیادہ تعاون شہباز شریف نے کیا۔
ایک بات جو مجید نظامی کے لئے میرے دکھ میں ایک اور دکھ کی طرح گھل مل گئی ہے۔ یہ بات وقت ٹی وی سے بھی میں نے کہی کہ آج عظیم مجید نظامی کے لئے سرکاری سطح پر سوگ کا اعلان کرنا چاہئے تھا۔ لمحہ موجود میں ان سے بڑا آدمی کوئی نہ تھا۔ ان کے جیسا آدمی کہیں پاکستان کی تاریخ میں دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ آج قومی پرچم ان کی رحلت کے سوگ میں سرنگوں ہونا چاہئے تھا۔ انہوں نے یہ جھنڈا بلند رکھنے کے لئے بہت کارنامے کئے۔ بہت لوگ مخالف بھی ہوئے مگر انہوں نے کسی کی پرواہ نہیں کی۔ جابر حکمرانوں کے سامنے سچی کھری اور بڑی بات کرنے کی جو جرات اور اہلیت آپ کو عطا ہوئی تھی کسی کو نہ ملی۔ اب بھی لوگ ان وارداتوں اور باتوں کے گواہ کے طور پر موجود ہیں اور فخر کرتے ہیں کہ تب وہ مجید نظامی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں یہ باتیں اپنے کالموں میں بار بار لکھ چکا ہوں۔
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ ایسی سنئے گا
کرتے کسی کو سنئے گا تو دیر تلک سر دھنئے گا
کئی لوگ مجھ سے آ آ کے ملتے رہے۔ تعزیت کرتے رہے۔ نظامی صاحب کی باتیں تعریفیں کرتے رہے اور میں دم بخود کھڑا انہیں دیکھتا رہا
ہم ان کی تعریف پہ فخر کرتے تھے۔ کوئی اور نہ تھا جس کی پوری طرح تعریف کی جا سکے۔ میں تو دل سے سمجھتا ہوں کہ ان کی خوشامد بھی جائز تھی۔ ان کے ہوتے ہوئے ہم بے خوف بے تکان لکھتے تھے۔ لوگ شکایتیں بھی لے کے آ جاتے تھے۔ کبھی کوئی بات ہم تک نہ پہنچنے دی۔ ذکر بھی کیا تو برسبیل تذکرہ کیا۔ کئی لوگ ابھی سے پریشان ہیں کہ اب کیا ہو گا۔ وقت ٹی وی کی طرف سے مجھ سے پوچھا گیا کہ اب مجید نظامی کے مشن کو کون آگے بڑھائے گا۔ میں نے کہا کہ ہم تو ان کے خادم ہیں اور ہم یہ حیثیت قائم رکھیں گے۔ مجھے پوری طرح امید ہے کہ رمیزہ نظامی ان کے مشن اور وژن کو آگے لے کے چلے گی اور سرخرو ہو گی۔ وہ خود بھی ایک اہل خاتون ہیں۔ پڑھی لکھی اور نئی ٹیکنالوجی سے بہرہ ور ہیں۔ انہیں مجید نظامی کی رفاقت ملی ہے۔ ان کی محبت اور وراثت بھی ملی ہے۔ انہیں ان سے تربیت بھی ملی ہو گی۔ نظامی صاحب کی زندگی میں بھی وہ نوائے وقت اور وقت نیوز کے معاملات کو پوری طرح دیکھتی تھیں۔ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتی ہیں۔ جو لوگ مجید نظامی کے ساتھ تھے وہ ان کے ساتھ بھی ہیں اللہ انہیں صحافتی قیادت کی باریکیوں سے آگاہ رہنے کی توفیق دے۔ مجید نظامی کا مشن انشاء اللہ قائم رہے گا اور بڑھتا رہے گا۔ ان کی یاد سے دلوں کو آباد رکھنا چاہئے۔ پاکستان کشمیر ایٹمی صلاحیت قومی وقار اور اعتبار کی بات مجید نظامی کی طرح تو کوئی نہ کر سکے گا مگر کوشش تو ہو گی۔
وہاڑی سے خان محمد اسلم خان آبدیدہ ہو رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم کے بعد مجید نظامی کی خدمات بے شمار اور بے حساب ہیں۔ انہوں نے مجید نظامی کا سوگ قومی سطح پر منانے کی میری بات کی تائید کی۔ مجھے یاد بھی نہیں کہ کہاں کہاں سے کس کس نے بات کی۔ لاہور سے حمیرا بی بی نے بات کی اور اس بات پر فخر کیا کہ میں نے مجید نظامی کو دیکھا اور ان کو سلام کیا ہے۔ نارووال سے ندیم اور عارف محمود اپل نے فون کیا۔ نارووال سے ایک اور دوست نے بھی تعریف کی۔ پاکستان کے دوسرے شہروں سے کئی لوگوں نے بات کی۔ میں نے ایک کالم رات لکھ لیا تھا۔ نظریاتی سمر سکول کا ثمر اور پاسبان نظریہ پاکستان۔ وہ شائع ہونے کے لئے دوں گا کہ میرے خیال میں مجید نظامی زندہ تر ہیں۔ آج اپنے کالم نئی بات میں برادرم توفیق بٹ نے مجید نظامی کی صحت یابی کی دعا کی ہے کہ صحافت کی سب سے قدآور شخصیت آج کل بہت علیل ہیں۔ وہ اس سے پہلے بھی موت کو کئی بار شکست دے چکے ہیں۔ انہوں نے مر کے بھی موت کو شکست دی ہے۔ جن دوستوں نے ان کا چہرہ دیکھا ہے کہتے ہیں کہ یہ ایک زندہ آدمی کا چہرہ تھا۔ میں مرنے والے دوستوں کا چہرہ نہیں دیکھتا۔ وہ زندہ میرے سامنے ہوتے ہیں۔ میں ہمیشہ مجید نظامی کو زندہ دیکھوں گا۔ وہ زندہ رہیں گے۔
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
مجید نظامی صحافت عظمت اور جرات کا قطبی ستارہ تھے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38